کیا بیت الحرام پہلی مرتبہ بند ہوا ہے؟۔۔یوسف خان

اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتے ہیں
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ “ سورۃ الحج “ (26)
ترجمہ ! اور جب ٹھیک کردی ہم نے ابراہیم کو جگہ اس گھر کی کہ شریک نہ کرنا میرے ساتھ کسی کو اور پاک رکھ میرا گھر طواف کرنے والوں کے واسطے اور کھڑے رہنے والوں کے اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے، (ترجمہ شیخ الہند )
آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت کا واضح حکم موجود ہے کہ بیت اللہ  کو طواف اور عبادت کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھا جائے۔
اب جو احباب چند دنوں سے مسلسل یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حرمِ کعبہ کو بند کیا گیا ہے ان کا ایمان کمزور ہے یا یہ قیامت کی نشانی ہے انہیں ضرور غور کرنا چاہیے کہ بلا تحقیق بات کرنا کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے کہ آپ قرآن کریم کے مقابل آ کھڑے ہوتے ہیں،
بیت اللہ الحرام اللہ کا مقدس گھر ہے دنیا بھر کے انسانوں کا مرکز جہاں کائنات ارضی کے کونے کونے سے انسان جوق در جوق آتے اور عبادت کرتے ہیں ،ایسے میں اس گھر کو پاک و صاف رکھنا ہر قسم کے جراثیم گندگی یا بیماریوں کے پھیلاؤ سے محفوظ بنانا حاکم وقت کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
اب جبکہ کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاط کے پیش نظر بیت اللہ شریف کے گرد مطاف کو خالی کرایا گیا تو بعض احباب کی طرف سے سوال ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے گھر کا طواف رُک گیا ہے۔
حالانکہ اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ پہلی بار نہیں بلکہ اکتالیسویں بار ہے جب بیت اللہ  کو بند کیا گیا۔
جی ہاں اس سے قبل 40 مرتبہ مسجد  الحرام کو مختلف وجوہات جن میں بیماریوں کے پھیلاؤ سے بچاؤ ، سیاسی وجوہات اور جنگ و جدل بھی شامل ہیں۔ اور صرف یہ نہیں کہ صرف طواف بند ہوا ہو بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسے  سال بھی گزرے ہیں جن میں حج کی ادائیگی ہی نہیں ہوئی اور وہ حجاج جو 9 ذی الحج یوم عرفہ کو میدان عرفات پہنچے انہیں بھی حدودِ عرفات سے باہر نکال دیا گیا۔
ہم ذیل میں چالیس میں پندرہ مواقع کا مختصراً ذکر کررہے ہیں جب جب بیت اللہ  بند ہوا ، اس کی تفصیل میں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے،
(۱) 251 ھ یوم عرفہ کے دن لڑائی کے سبب حج کو ہی معطل کردیا گیا اور حج ادا ہی نہیں ہوا
(۲) 317 ھ مطاف میں قرامطہ کی لڑائی اور حجر اسود کی ڈکیتی کے سبب مطاف بند کردیا گیا
(3) 372 ھ خلافت بنی عباس و بنی عبید کے وقت عراق میں فسادات کے سبب مکہ کی حکومت نے عراقیوں کے حج پر مکمل پابندی لگا دی ۔
(4) 428 ھ صرف مصر سے آنے والے حجاج نے حج ادا کیا باقی مقامات کے حجاج پر پابندی تھی ،
(5) 650 ھ میں دس سال کی پابندی کے بعد پہلی مرتبہ اہالیان بغداد عراق حج ادا کرنے حجاز مقدس آئے،
(6) 655 ہجری میں اہلِ حجاز یعنی مکہ و مدینہ و ارد گرد میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر حج ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی اور اہل حجاز نے حج نہیں کیا ،
(7) 1814 ع میں مکہ اور حجاز میں طاعون کی وباء پھیل گئی اور طاعون کے مرض سے 8 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد مسجد حرام کو عبادت کے لئے مکمل بند کردیا گیا تا وقتیکہ طاعون کا مرض مکمل طور پر ختم نہ ہوگیا،
(8) 1831 ع بموافق 1246 ہجری میں ہندوستان سے ایک حاجی وبائی مرض کے ساتھ مکہ آیا جس نے دنیا بھر سے آئے حجاج کو لپیٹ میں لیا اور ٹوٹل حجاج کا ایک تہائی حصہ اس مرض سے وفات پا گیا ۔
(9) 1837 موسم حج میں ایک شدید قسم کے وائرس نے حملہ کیا وائرس تین سال تک مسلسل حجاز کے لوگوں کو متاثر کرتا رہا 1840 میں جا کر ختم ہوا
(10 1845 کورونا وائرس کے بھائی کولیرا وائرس نے حجاج پر حملہ کیا اور پھر 1850/1865 / 1883 ایام حج میں حجاج پر حملہ آور ہوتا رہا ،
(11) 1858 میں اہالیان حجاز پر شدید وبائی امراض نے حملہ کیا اور اہل حجاز زندگیاں بچانے کے لئے مصر کی طرف ہجرت کرنے اور علاج کرانے پر مجبور ہوئے۔
(12) 1864 عمرہ زائرین پر وائرس کی وباء نے حملہ کیااور اس قدر شدید وائرس تھا کہ یومیہ معتمرین کے مرنے کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی تھی جس کے ازالے کے لئے مصر سے بڑی تعداد میں اطباء کو بلایا گیا،
(13) 1892 کولیرا وائرس نے ایک بار پھر موسم حج میں حجاج کو نشانہ بنایا اس مرتبہ وباء نے یوں اموات پھیلائی کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو بے کفن و دفن چھوڑ کر بھاگنے لگے میدان عرفات میں گِدھوں کے غول جمع تھے مر جانے والے حجاج کی ہڈیاں مہینوں بعد منٰی کے میدان سے بھی ملتی رہیں ۔
(14 ) 1895 میں مدینہ المنورہ سے آئے حجاج ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوگئے اور کئی کی  حالت مکہ پہنچتے اتنی نازک ہوگئی تھی کہ منیٰ تک پہنچ ہی نہیں پائے اس سال منی کا قیام حج کے دوران نہیں ہوا
(15) 1987 میں موسم حج میں حجاج کرام میں ہیضہ کی وباء پھیل گئی اور ہیضہ کے سبب 10000 حجاج فوت ہوگئے اور اس دوران بھی حرم کو وباء سے پاک کرنے کے لئے بند کیا گیا،

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹوٹل چالیس میں سے یہ پندرہ مثالیں آپ حضرات کے سامنے رکھی ہیں، جن میں حرم کر بند کیا گیا۔
اوپر بیان کردہ آیت کریمہ اور پھر ان واقعات پر غور کرنے کے بعد آپ بتائیں کہ ہم میں کس قدر غلط خبریں عقیدے کا درجہ حاصل کرچکی ہیں یہ کہنا کہ مکہ مدینہ پر کوئی وباء نہیں آ سکتی یا یہ عقیدہ رکھنا کہ طواف کا رک جانا قیامت کی نشانی ہے یہ سب اغلاط العوام ہیں اس بنیاد پر سعودی حکومت کے اقدام پر تنقید کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
سعودی حکومت کا موجودہ اقدام مکمل طور پر قرآن و سنت اور موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ صرف چند ایام کے لئے نہیں بلکہ رمضان المبارک تک کے لئے عمرہ پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے اور رمضان المبارک کے مہینہ تک اگر کرونا وائرس کی ویکسین کامیابی سے تیار ہوجاتی ہے تو جی بسم اللہ ورنہ اس سال حج بھی معطل رکھنا چاہیے۔
زمین پر سب سے پہلے خالق کی مخلوق کی مکمل حفاظت و صحت کا خیال رکھنا چاہیے بعد میں نفلی عبادات پر زور۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply