• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان (آخری قسط) ۔۔ حمزہ ابراہیم

آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان (آخری قسط) ۔۔ حمزہ ابراہیم

(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولین سايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ ز“ کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

وفاقیت آیت اللہ سیستانی کی نظر میں عراقی آئین کے ریاست کی تقسیم کا طریقۂ کار متعین کرنے تک محدود نہ تھی۔ عراق کے حصے بخرے ہونا اس طویل تاریخ نگاری کا تسلسل ہوتا کہ جس کے مطابق عراق میں مختلف لوگوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا، جو ایک واحد قومی شناخت نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو عراقی ریاست کو مصنوعی بندوبست سمجھتا ہے اور  آیت اللہ سیستانی اس کو کھوکھلا ثابت کرنا چاہتے تھے۔اگر حقیقت آیت اللہ سیستانی کے بیانیے سے ہم آہنگ تھی اور عراقی اپنی قومی ریاست میں متحد تھے، تو آئین ایسی مقبول تحریکوں کو ایندھن فراہم نہیں کر سکتا تھا جو عراق کو مختلف اکائیوں بانٹ دیں۔ یہاں تک کہ اگر مرکزی حکومت مفسد اور غیر مقبول بھی ہوتی ، ایسا مسئلہ جس کی طرف آیت اللہ سیستانی نے نوری المالکی کی حکومت میں کئی مرتبہ توجہ کی، تو بھی وفاقی طرز کی ریاست کے مطالبے کو عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوتی ۔سچ یہ ہے کہ زوال عراقیوں کی وطن دوستی میں نہیں آیا، بلکہ حکومت کی اس سیاست کی حمایت میں کمی آئی جو آیت اللہ سیستانی کی طرف سے کی جانے والی تاریخ کی تفسیر سے ہم آہنگ نہ تھی۔

البتہ آیت اللہ سیستانی یہ سمجھتے تھے کہ خواص عوامی امنگوں کو نظر انداز کر کے سیاست کو اپنے مفاد کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ریاست کے ایسے ڈھانچے پر زور دیتے تھے جس میں عوام کا سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ دخل ممکن ہو سکے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں دائمی آئین میں خامیاں تھیں لیکن انہوں نےاس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ عبوری انتظامی دستور میں سرکاری مناصب کو واضح نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی شقوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔

مذہب، بالخصوص اسلام کا آئین اور ریاست میں مقام دوسرا اہم معاملہ تھا جس پر آئین کے متن پر ہونے والی بحث میں بہت اختلاف ہوا۔ تاہم آیت اللہ سیستانی کی حکمت عملی اور ترجیحات میں اس بحث کو اولویت نہیں دی گئی۔ ان کے فتوے، بیانات اور اعلانات میں مذہبی کارڈ استعمال ہوتا نظر نہیں آیا۔ لیکن قدامت پسند تنظیمیں، جیسے مجلس الاعلیٰ وغیرہ، اس سلسلے میں آئین میں خاص زبان اور ذاتی زندگی کے قوانین میں فقہ کو نمایاں کرنا چاہتی تھیں۔ یہ لوگ نہ تو حوزہ علمیہ کی نمائندگی کرتے تھے نہ ہی فقہی معاملات میں مرجع  تھے۔ کئی پہلوؤں سے آیت اللہ سیستانی کا مذہبی کارڈ کھیلنے سے اجتناب کرنا چارلس ٹیلرکی رائے سے قریب ہے کہ جدید دور کے مسائل پر اسلام کی رائے ہر فرد کے نزدیک الگ ہے، اور جدت کے ساتھ یہ انفرادیت بڑھتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ آئین کے مذہبی پہلوؤں پر ایسی رائے دیں جو سب شیعہ اہلِ نظر کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے، نہ ہی ان پر ایسا کرنے کی ذمہ داری تھی کیوں کہ وہ حوزہ علمیہ کے سربراہ تھے۔ تاہم ان کا عکس العمل مذہب سے بالکل لاتعلق اور مکمل سیکولر ریاست کے حق میں بھی نہیں تھا۔ ایسا کرنا ان کی اسلام کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر باقی رکھنے کی ذمہ داری کے خلاف جاتا۔ اس آئینی بحث میں آیت اللہ سیستانی کا مطمع نظر اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اکثریت کی قومی شناخت جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ اور محفوظ رہے۔

آئین میں اسلامی دفعات کے معاملے نے امریکی اور دوسرے مغربی صحافیوں اور پالیسی سازوں میں بہت ابہام پیدا کیا۔ شیعہ مراجع اور ان کے ”شرعی قوانین پر مبنی آئین“ کو لاگو کرنے کے عزائم کے بارے میں قیاس آرائیاں 2003ء سے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ جنوری 2005ء کے انتخابات کے بعد اس سوال پر کہ اسلام کے بارے میں نظریہ پردازی کی شکل کیا ہو گی،بعض اوقات قرائن کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی بحث جاری رہی۔ [63]کچھ محققین نے کہا کہ ”آیت اللہ سیستانی اور دوسرے مراجع مذہبیت کو عراقی آئین کا حصہ بنانے پر سارا زور صرف کر دیں گے۔“ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ”وہ اگر ہر بات میں مداخلت نہیں کر رہے تو وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہیں۔“ [64] تاہم یہ مباحث مستقل آئین کی تدوین سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں۔

سب سے زیادہ تحفظات آئین کی دوسری دفعہ کے بارے میں تھے، جو یہ ہے:

اول: اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور قانون کا بنیادی ماٴخذ ہے۔

(ا) کوئی قانون جو اسلام کے مسلم اصولوں کے خلاف ہو، نہیں بن سکتا۔

(ب) جمہوریت کے اصولوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔

(ج) کوئی ایسا قانون جو اس آئین میں بیان کئے گئے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے منافی ہو، نہیں بنایا جا سکتا۔

دوم: یہ آئین عراقی عوام کی اکثریت کے اسلامی تشخص کی ضمانت دیتا ہے اور سب شہریوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ اور عقیدے و عمل کی آزادی یقینی بناتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ [65]

یہ زبان نہ صرف مبہم تھی، بلکہ بعض مبصرین کیلئے یہ تضادات پر مبنی تھی کیوں کہ یہ روز مرہ کی حکمرانی کے لئے کوئی رہنما اصول فراہم نہیں کرتی تھی نہ ہی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے میں کوئی مدد دیتی تھی۔ بہر حال اس کا مقصد ایسی کوئی واضح رہنمائی فراہم کرنا تھا ہی نہیں۔ باقی عرب ممالک کے دساتیر اور عراق کے سابقہ آئین کی مشابہ دفعات کی طرح ان دفعات نے اسلام کے ریاستی مذہب ہونے کا رسمی اعلان کیا، جو مذہب اور ثقافت کے احترام کا اظہار تھا۔ دوسرے عرب ممالک میں بھی ان باتوں پر آئینی مباحث ہوئی تھیں کہ آیا اسلام قوانین کا ایک ماٴخذ ہے یا اسلام ہی قوانین کا واحد ماٴخذ ہے؟ مثال کے طور پر مصر میں 1972ء میں آئین کی دوسری شق میں ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا ایک ذریعہ ہیں“ کی جگہ ترمیم کر کے یہ لکھا گیا کہ”اسلامی فقہ کے اصول قانون سازی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔“ جناب ناتھن براؤن، مشرق وسطیٰ کے دساتیر کے ماہر، نے احتمال ظاہر کیا تھا کہ یہ ترمیم حکومت کی طرف سے مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ ترمیم اس وقت کی گئی جب مصر کا سپریم کورٹ (محكمۃ الدستوريۃ العليا)اپنی آزاد حیثیت برقرار کر چکا تھا اور شریعت کی اپنی تشریح نافذ کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ البتہ براؤن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو مصر کے آئین کی حدود واضح کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ اس کے بعد آنے والے فیصلوں سے پتا چلا کہ فقہ کو ایک مستقل قانون کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ [66]

اگر یہ مثال اور علاقے کی کے دوسرے دساتیر کی ایسی مثالیں کوئی اشارہ دیتی ہیں تو یہ ہے کہ عراقی آئین کی پہلی اور دوسری دفعات میں استعمال ہونے والی زبان اپنی اصل میں (اقلیتوں کیلئے) کوئی خوفناک چیز نہیں ہے۔ [67] اسے سمجھنے کیلئے ہمیں عدالتوں کے مجموعی کردار اور علاقے میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو سمجھنا ہو گا، جو یہاں ”شیعہ تنظیمیں“ ہیں جیسے مجلس اعلیٰ کے کارکنان جنہوں نے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں حصہ لیا۔ آئین کے کچھ نقاد چاہتے تھے کہ اس میں کوئی ابہام اور تضاد نہیں ہونا چاہئیے اور کچھ صنفی تاثر والے جملوں، جیسے ”ہم نے آدمؑ کے بیٹوں کو فضیلت دی“ پر بھی اعتراض ہوا کہ اس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں کیوں نہیں ہیں۔محقق شاک ہانیش نے لکھا کہ آئین کی وہ دفعات جن میں انسانی حقوق کے احترام جیسے اصولوں کا ذکر ہے نا قابل عمل ہوں گی اگر انہیں فقہ کے تابع رہنے والی شق کا پابند بنایا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں کی سب مذہبی تبلیغ، حقوق اور مساوات کے جدید تصورات کے برعکس ہے۔ ان کے تجزئیے کے مطابق یہ دستاویز قدیم فقہ کی تائید کرنے کی وجہ سے ”قدامت پسندانہ اور حتیٰ رد عمل کی نفسیات کا عکس“ تھی۔ ہانیش صاحب کے خیال میں تاریخ میں اسلامی حکومتوں کے طرز عمل کی روشنی میں یہ ابہام ”حریت اور جمہوریت کے تصور کی جدید تشریح کی مخالفت“ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ حنش صاحب کا تجزیہ آئین کی سطر بہ سطر نقد پر مشتمل تھا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ آئینی دفعات مبہم اور متضاد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنا چاہا کہ انسانی حقوق اور معاشرے میں خواتین کے کردار کے معاملے میں آئین کلی طور پر عقب ماندگی کی طرف ایک قدم تھا۔ ان کے مطابق اس کا سبب وہ رکاوٹیں اور پابندیاں تھیں جو اسلام کے نام پر قوانین کی تشریح پر لگادی گئی تھیں۔ لیکن ہانیش صاحب اور کچھ دوسرے دانشوروں کا تجزیہ مذہبی لوگوں کی شمولیت کے اہداف کے بارے میں قیاس آرائیوں اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ان کے رویّے میں تبدیلی آ جانے کی پیش بینی جیسے اوہام پر کھڑا ہے۔ [68]

دستاویز کو مبہم کے بجائے لچکدار کہنا زیادہ مفید ہے، جیسا کہ محقق حیدر حمودی صاحب نے کہا ہے۔ ان کے مطابق متن کی زبان جان بوجھ کر انتخاب کی گئی تھی تاکہ آئین میں ارتقاء اور وقت کے مطابق بہتری آنے کی گنجائش رکھی جا سکے۔ آئین کو لچکدار ہونا چاہئیے تاکہ وہ سیاسی رجحانات سے بالاتر ہو اور جوں جوں ریاست کے قدم جمتے جائیں، اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ [69] حیدر حمودی صاحب کے مطابق آئین کی کچھ تشریحات میں غلطی وہاں پر ہے جہاں”آئینی اور دستوری تبدیلی کا جامد اور رسمی تصور“ اپنایا گیا، جس کے مطابق آئین میں تبدیلی صرف تحریری ترمیم کے ذریعے آتی ہے۔ حمودی صاحب نے امریکی آئین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ قانون دانوں نے آئین کی تشریح کے مسلسل ارتقاء کا تصور دیا ہے: سماجی اور سیاسی تبدیلی ہو گی، اور نئے اور پرانے سیاسی نظاموں میں اس تبدیلی کے ساتھ چلنے کیلئے آئین کی زبان لچک د ار ہونی چاہئیے۔اگر حمودی صاحب کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ آئین سب سیاسی رجحانات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مل کر چلنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسے سیاسی ثقافت اور ”عوامی مقبولیت“ کا دھیان رکھنا ہے جو آیت اللہ سیستانی نے کرشماتی طور پر عوام کو ووٹ دینے پر آمادہ کر کے تخلیق کی تھی۔ مثال کے طور پر برقعے پر پابندی کی قرارداد نہایت غیر مقبول ہو گی۔ چنانچہ حمودی صاحب کہتے ہیں کہ یہ زبان مکالمے کی ایسی فضا فراہم کرتی ہے جو مباحث کو عراق کی مقبول آوازوں سے ہم آہنگ کر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچنا چاہئیے کہ اگر مسودہ لچکدار نہ ہوتا تو ایسی صورت میں کیا ہوتا؟ اول تو اس میں ہر انتخابات کے بعد ترامیم ہوتی رہتیں، دوسرے ریاست میں مذہب کے مقام کے تعین کے بارے میں مستقل تعطل جاری رہتا۔

حمودی صاحب کی آئینی فہم ہمیں آیت اللہ سیستانی کی طرف سے آئین کی تیاری اور اس میں مذہب کے کردار پر خاموش رہنے کی حکمت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے دفعات تجویز نہ کر کے  آئین کی جزئیات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کیا لیکن اس کلی قاعدے کو واضح انداز میں بیان کیا کہ میثاق میں اسلامی اصولوں کو شامل کیا جائے۔حمودی صاحب نے ہی 2009ء میں مراجع سے ملاقاتوں کے بعد ان کے بیانیے کو ”نجف منترا“ کا نام دیا جس سے مراد اقتدار کی سیاست میں حصہ لئے بنا شہریوں کی رہنمائی کا عزم تھا۔ چنانچہ یہ قابلِ فہم تھا کہ آیت اللہ سیستانی سیاسی عمل کی کلیات کے بارے میں تو متعدد فتاویٰ جاری کر کے اپنے سیاسی موقف کی وضاحت کریں لیکن ”سیاسی عمل کی جزئیات“ میں مداخلت نہ کریں۔

ریاست میں مذہب کے کردار کے بارے میں آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ کو اکٹھا کر کے ہم اس موضوع پر ان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں، جو اس عمل کے آغاز سے پہلے بھی دئیے جا چکے تھے۔ 2003ء میں انہوں نے ایک ایسے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حکومت جو ”اکثریت کی مرضی“ سے منتخب ہو گی اسے اکثریت کے مذہب کا احترام کرنا ہی ہو گا اور وہ ”عوام کی لگائی گئی قیود کے خلاف نہیں کرے گی۔“ اگلا سوال عراق کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے بارے میں تھا، آیت اللہ سیستانی نے کہا ”اس کی ثقافتی شناخت، جو اسلام کے ارکان میں سے ہے، کے مٹ جانے کا خطرہ۔“ [70] [النصوص الصادرہ، صفحہ 33]  دوسرے سوالات میں آیت اللہ سیستانی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حکومت ایرانی طرز کی ہو گی اور کیا یہ ”اسلامی خلافت“ ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ ایرانی طرز کی حکومتِ فقیہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو ”اسلام کا احترام“ کرنا ہو گا کیوں کہ یہ اکثریت کا مذہب ہے۔ [71] (اماتشکیل حکومۃ دینیۃ علی اساس فکرۃ ولایۃ الفقیہ المطلقۃ فلیس وارداً [النصوص الصادرہ، صفحہ 47])  اسی فتوے میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسلامی تعلیمات کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئیے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کوئی نظامِ حکومت مسلط نہیں کر سکتے اور اس کا فیصلہ عوامی آراء کی روشنی میں ہو گا جو عام انتخابات کے ذریعے ظاہر ہوں گی۔ ان کے نزدیک ان کی ذمہ داری ”ان (عوامی آراء کے اظہار) کیلئے راستہ ہموار کرنا“ ہے۔ [72] [النصوص الصادرہ، صفحہ 71، 72] آیت اللہ سیستانی مذہب کے کردار کو معاشرے کی اخلاقی بنیاد کے طور پر دیکھ رہے تھے لیکن یہ بتانے سے گریز کر رہے تھے کہ اس میں کیا کچھ شامل ہے۔

2003ء میں مجوزہ مجلس قانون ساز کے بارے میں ان کے فتوے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ قابض قوتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انتخابات کرائے بغیر اراکین کو تعینات کرے۔لیکن اس میں اس تشویش کا اظہار بھی شامل تھا کہ یہ دستور عراق کی ”قومی شناخت“ کا مظہر نہیں ہو گا، جسے آیت اللہ سیستانی ”مذہب کا اہم رکن اور مقدس سماجی قدر“ قرار دیتے تھے۔ [73] [النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36]  ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اسلامی فقہ کے کن نکات کو آئین کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین میں ”دینی عقائد، اخلاقی اصول اور سماجی اقدار بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔“ [74] [النصوص الصادرہ، صفحہ 55]  مستقبل کے آئین میں مذہب کے کردار کے بارے میں ایک بے لاگ سوال نے آیت اللہ سیستانی سے یہ جواب پایا کہ تفصیلات طے کرنا منتخب اسمبلی کے اراکین کا کام ہے۔ [75] [النصوص الصادرہ، صفحہ 78]  وہ اکثر اس بات کا اضافہ کرتے تھے کہ ”اسلام عراقی عوام کی اکثریت کا مذہب ہے۔ اگر آئین کی تدوین عراقیوں کے منتخب کردہ افراد کے ہاتھوں ہو گی تو یہ اسلامی اقدار اور اعتدال پسندی کا مظہر ہو گا۔“ [76] [النصوص الصادرہ، صفحہ 79، 80]

اگرچہ وہ مذہب کے کردار کے بارے میں رائے دیتے تھے لیکن اس کے ساتھ اس ضمانت کا اضافہ کر کے تعادل پیدا کرتے کہ آزاد اور شفاف انتخابات اس مسئلے پر عراقی رائے عامہ کو آشکار کریں گے۔ آیت اللہ سیستانی نے اس بات کا اضافہ بھی کیا کہ آئین کو مفاہمت، تکثریت، دوسروں کی رائے کا احترام اور مساوات جیسے اصولوں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے۔ آیت اللہ سیستانی نے ریاست کی نوع کے بارے میں اپنے تصور پر 12 فروری 2004ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نظامِ حکومت کا فیصلہ جمہور کی رائے پر چھوڑنا چاہئیے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ جو لوگ اس عمل میں ذمہ داریاں اٹھائیں انہیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہئیے اور تکثریت، بیلٹ باکس کے احترام،اور پر امن منتقلیٴ اقتدار کے ساتھ ساتھ انصاف اور مساوات کے اصولوں پر متفق ہونا چاہئیے۔ [77] [النصوص الصادرہ، صفحہ55، 56]

انہوں نے اپنے مقلدین کو یقین دلایا کہ عراق کی ”اصلی سیاسی اور سماجی قوتیں“ ملا راج کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ ایسی حکومت کے قیام کے داعی تھے جو عراقیوں کی اکثریت کے ”مذہبی عقائد کا احترام“ کرتی ہو۔ [78] [النصوص الصادرہ، صفحہ 96 تا 99]  یہ ایک ایسی سیکولر حکومت کی حمایت تھی جو اسلام سے رہنمائی لیتی ہو اور معاشرے میں اس کے ثقافتی کردار کا تحفظ کرتی ہو۔ اپنے شروع کے بیانات میں جس چیز کی طرف آیت اللہ سیستانی کی توجہ نہیں تھی وہ یہ تھی کہ عراقی گورننگ کونسل اور عبوری انتظامی دستور آگے چل کر آئین نویسی کے عمل کی سیاسی حرکیات کا تعین کریں گے۔ انہوں نے ایسے عمل کا تصور پیش کیا تھا جو آبادی کی زیادہ بہتر نمائندگی کر سکے۔

آیت اللہ سیستانی کے فتاویٰ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر جمہوریت کی بنیاد رکھنے کیلئے پر عزم تھے۔ ان کے فتاویٰ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعہ اکثریت کو باقی آبادی کی قیمت پر مضبوط نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ریاست میں تحول کے دوران عراقی ”ثقافتی شناخت“ نہ ”کھو“ بیٹھیں۔ ہم ماضی میں جا کر تاریخ میں آیت اللہ سیستانی کے کردار کا نمونہ 1906ء میں ایران میں آنے والے جمہوری انقلاب کے دوران اس وقت کے شیعہ مراجع کے جمہوریت کی حمایت کرنے میں دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ محقق جناب بابک رحیمی نے کہا ہے، آیت اللہ سیستانی کو اس روایت کا امین سمجھنا چاہئیے جس میں مرجع عوام کی رہنمائی کر کے اسلامی اقدار کی ترویج کے ذریعے حکومت اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ قائم کرتا ہے۔ [79] تاہم اس سے زیادہ بھی ہو رہا تھا۔ آیت اللہ سیستانی کا حقوق اور آزادیوں کے احترام کا تصور جس دور میں تشکیل پایا تھا وہ ان کے پیشروؤں کے زمانے سے مختلف تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے اقدامات ماضی کے مراجع کے فتاویٰ کو مد نظر رکھ کر اٹھائے گئے تھے۔ لیکن ان کا خود ارادیت کا تصور جدید خیالات کی روشنی میں بنا تھا، جیسا کہ ان کا اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پابندی کرنے اور اس (بین الاقوامی حسبیہ کے)ادارے اور اس کی دستاویزات کی طرف رجوع سے ظاہر ہوتا ہے۔ بہر حال یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی اکیسویں شق ہی تھی جس میں واضح انداز میں کہا گیا تھا کہ سب لوگوں کو اپنے ملک کی حکمرانی میں حصہ لینے اور اپنے نمائندوں کو آزادی سے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ [80] اقوام متحدہ کے التزام نے آیت اللہ سیستانی کی بہت مدد کی۔ آیت اللہ سیستانی بار بار اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے۔ اور اقوام متحدہ نے جواب میں عراق کے سرنوشت ساز مراحل میں ان کو ہی واحد موثر آواز کے طور پر قبول کر لیا۔

آیت اللہ سیستانی کے نظریۂ جمہوریت میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ ثقافتی سندیت کے گرد قائم تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بہت سے اسلامی رہنماؤں کی سوچ جناب مارک جیرگنز میر کے قریب تھی جو مذہب کو قوم سازی اور ریاست سازی کے عمل کی سیاسی مقبولیت کیلئے مفید نظام الاعتقاد سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو ایک جدید اور مقبول طریقۂ اظہار کے طور پر لیا ہے جو جدید قومی ریاستوں پر مشتمل سیاسی منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔چنانچہ یہ قدیم مذہبی روایت اور سیکولر قوم سازی کا امتزاج تھا جو آیت اللہ سیستانی کی صورت میں سامنے آیا، جو مارک جیر گنز میر صاحب کے تجزئیے کے مطابق جدید قومی ریاستوں میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی تقویت کا سبب بن سکتا ہے۔ [81] جب آیت اللہ سیستانی اسلام کے احترام کی بات کرتے ہیں اور حکومت کو ”اسلامی اصولوں کی مخالفت نہ کرنے“کی نصیحت کرتے ہیں [82] [النصوص الصادرہ، صفحہ 47]    تو کچھ محققین اسکو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن آئینی عمل میں لچک کے مفہوم کی طرف توجہ دینے سے آیت اللہ سیستانی کی اسلام اور جمہوری سوچ میں گہرا تعلق پیدا کرنے کی خواہش کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ریاست سازی کا عمل جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں شروع ہوا جس میں جنگ عظیم دوم کے دوران مزید مداخلت ہوئی۔ قیادت، آئین کی تدوین اور پارلیمانی عمل میں برطانیہ اور فرانس اس سے پہلے کردار ادا کر چکے تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی کوشش یہ تھی کہ نو آبادیاتی دور کے اسلوب کو دہرایا نہ جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے نظریۂ جمہوریت کو عراق کی مقامی بنیادوں پر تعمیر کیا۔ (ختم شد)

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: عراق میں آیت الله سیستانی کے سیاسی کردار میں  بیسویں صدی کے آغاز میں ایران کے جمہوری انقلاب کے دوران مرجع اعلیٰ آیت الله کاظم خراسانی کے کردار کی جھلک ہے۔ تفصیل جاننے کیلئے اس سلسلۂ مضامین کا مطالعہ کیجئے: آخوند خراسانی اور ایران کی تحریکَ جمہوریت (1906ء تا 1911ء)۔)

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply