اگر کوئی سعودی عرب جائے اور المراعی کا “لبن” نہ پیے تو یوں جانیے کہ اس کا بھی وہی عالم ہے کہ
” جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیاں نئیں”
یعنی ، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔ لبن دراصل ایک قسم کی لسّی ہے ، ہمارے ہاں دو چار اقسام کی لسّی تو ملتی ہے لیکن جانے اس “شراب طہور” کی کیا بات ہے کہ اس سا ذائقہ یہاں میسر نہیں آتا ۔
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
“لبن” خاصی گاڑھی لسّی ہوتی ہے جو چھوٹی بڑی کئی طرح کی پیکنگ میں ملتی ہے ، اس بار گیا تو دیکھا اس میں کئی مزید ذائقے بھی دستیاب ہیں، میں نے سٹرا بیری والا فلیور پیا ، اچھا تھا لیکن اصلی ، اصلی ہی ہے۔ ۔ آپ اس کو اس کی اسی خالص حالت میں بھی پی سکتے ہیں اور کچھ پانی ڈال کر پتلا کر کے بھی کہ
غمِ دنیا بھی غم ِیار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہمارے بزرگ مولانا ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ شیر فروش کی دکان پر جا کر لسّی ان الفاظ میں طلب کیا کرتے تھے کہ
” بھائی ذرا ایک جام جہالت تو دینا ”
یہ اشارہ ہوتا تھا اس خماری کی طرف جو لسّی پی کر انسان کو مدہوش کرتی ہے ۔
حرم آئے ہوئے کچھ روز ہوئے تو ایک روز ایک ترک ہوٹل میں کھانے کا موقع ملا ۔حرم میں کوہ صفا کے بالکل پہلو میں باہری دروازے کے ساتھ حرم کی انتظامیہ نے ایک فتویٰ سینٹر بنا رکھا ہے ۔ اس میں دو کھڑکیاں ہیں جن میں دو مفتی حضرات بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں ۔ ایک روز مجھے مقامی سعودی نمبر سے واٹس ایپ پر پیغام آیا ۔یہ ہمدم دیرینہ حافظ نعیم الرحمٰن شرق پوری کا پیغام تھا اور ذوق نے کہا تھا کہ
اے ذوق ! کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
برادر نعیم الرحمٰن ہمارے کسی حد تک لڑکپن کے دوست اور مکرم مولانا یحییٰ شرقپوری رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں ۔ آپ حرم بیت اللہ میں بطورِ مفتی تعینات ہیں لیکن آپ کا اصل شعبہ تعلیم ہے کہ ام القرٰی یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں استاد ہیں اور اعزاز کی بات یہ ہے کہ آپ نے اسی یونیورسٹی سے خود بھی تعلیم حاصل کی ۔ ان کا پُرجوش پیغام تھا کہ آپ حرم آئے ہیں سو ملاقات لازم ہے ۔۔ میرے اندر بھی پرانی محبتیں پورے طور پر انگڑائی لے کر جاگ گئیں ۔
اگلے روز عصر کی نماز کے بعد ملاقات کا طے ہوا ۔۔میرے ساتھ رضوان مقبول بھی تھے ، ہم کچھ وقت پہلے پہنچے تو وہاں موجود سپاہی نے اندر جانے سے روک دیا کیونکہ یہ کوہ صفا کا دروازہ تھا جہاں صرف احرام والے جا سکتے ہیں ۔ نعیم الرحمٰن صاحب کو فون کیا تو بند ملا اور ہم جیسے حالت قید میں تھے ۔۔۔ لیکن کچھ دیر میں وہ یوں چلے آئے کہ جیسے جعفر نے کہا تھا ۔
عَجِبْتُ لِمَسْراَها وأنَّى تَخَلَّصَتْ
إليَّ وبابُ السِّجْنِ بالقُفْلِ مُغلَقُ
سب کچھ اچھا لگ رہا تھا ، کچھ لمحے ہی ہم اپنی یادوں کو تازہ کر پائے کہ پہلا سائل آیا اور شیخ نعیم الرحمٰن سوال کا جواب دینے لگے ، اس کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹا نہیں البتہ بیچ بیچ میں ہم سے بھی مخاطب ہوتے ۔ سوال پوچھنے والے مسلسل آ رہے تھے اور وہ ان کو بہترین عربی میں جواب دے رہے تھے ۔دو گھنٹے وہاں پر بیٹھا رہا اور وہ کچھ منٹ ہی ہمیں دے پائے مسلسل سائلین چلے آ رہے تھے اور میں حیران تھا کہ ایک بھی پاکستانی ایسا نہ آیا کہ جسے کوئی مسئلہ پیش آیا ہو اور وہ اس کھڑکی تک آئے ۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا اور اپنا یہ نتیجہ نعیم الرحمٰن صاحب کے گوش گزار بھی کیا اور اس پر وہ خوب ہنسے ۔ میرا یہ خیال تھا کہ پاکستانیوں کو پہلے تو مسئلہ ہی پیش نہیں آتا ، پیش آئے تو خود ان کے اپنے اندر ایک مفتی ہر وقت جاگ رہا ہوتا ہے اور اگر وہ مفتی سو بھی رہا ہو تو دائیں بائیں اس کے ہم سفروں میں بیک وقت کئی مفتی ہوتے ہیں اور وہ اس کو تسلی دیتے ہیں ” اینج وی ہو جاندا اے ” ۔
سوال جواب کے اس تسلسل میں ان کی حالت وہی تھی کہ
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
شاید بیس برس بعد ہونے والی یہ ملاقات کسی بچھڑے محبوب سے اچانک کسی ریلوے سٹیشن پر ہونے والی ملاقات کے سمان تھی کہ جن کی گاڑیوں کی منزل اور سمت الگ الگ ہو اور حالات یہ کہ
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔اور وہ اس ملاقات میں لمحوں کی قید سے نکل کر زیادہ سے زیادہ محبتیں کشید کرنا چاہیں اور بار بار گاڑی کی وسل بج بج جائے اور وصل کے تمام لمحات اس وسل کی نذر ہو جائیں ۔۔۔ اس کشمکش وصل و فراق میں مغرب کی اذان بلند ہوئی ۔ ہم نماز کے لیے ان کے ہمراہ ہی نکلے ۔ وہ ہمیں اس حصے میں لے گئے جہاں کچھ ہی افراد صف بنائے ہوئے تھے۔ یہ سب حرم کے عملے کے افراد تھے ۔ ہمیں اپنا آپ کچھ دیر کو پھر خاص سا لگا ۔ حرم کے ماحول کا یہ کمال ہوتا ہے کہ یہاں آ کر ہر خاص بلکہ خاص الخاص بھی عام ہو جاتا ہے ۔ انسان اپنی ہستی بھول جاتا ہے ،سارے اہتمام اور پروٹوکول سب دھرے رہ جاتے ہیں ۔ کوئی کسی کے لباس پر نظر کرتا ہے نہ دوسرا اس کا پہناوا دیکھتا ہے ۔ امام صاحب نے مغرب نچلی منزل پر پڑھائی جبکہ ہم اوپری منزل پر تھے ، لیکن سلام پھیرنے کے فوراً بعد امام حرم اوپر اسی حصے میں تشریف لے آئے کہ جہاں ہم تھے ۔ کچھ میتیں دھری ہوئی تھیں ، امام حرم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ہم ان کی پچھلی صف میں تھے ۔ یہ سب کچھ اچھا اور الگ سا تھا وگرنہ امام کو ٹی وی پر ہی آج تک دیکھا تھا ، ان کے بالکل پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا پہلا موقع ملا ۔ نماز کے بعد ہمارا اگلے روز کھانے پر ملنا طے ہوا۔۔۔
اگلے روز میں عشاء کی نماز کے بعد ان کے دفتر پہنچا اور ان کی حرم کے تہہ خانے کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر مکّے کی سڑکوں پر نکل گئے ۔ رات کی تاریکی میں مکہ پورے طور پر روشن تھا ۔ ہم گزرے وقتوں کو یاد کر رہے تھے ، جب حافظ نعیم الرحمٰن لڑکے تھے اور اردو بازار میں سٹیشنری کی دکان شروع کی تھی ۔ آپ کے والد مکرم مولانا یحییٰ شرقپوری رحمہ اللہ کیا نفیس اور تستعلیق آدمی تھے ۔ روشن چہرہ ، مہندی رنگی داڑھی ، سفید اجلا لباس ۔۔۔۔ اور زبان میں مٹھاس ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ جب بھی وہ اپنے کسی بیٹے کا ذکر کرتے تو بنا صاحب کے نہ کرتے ۔ نعیم الرحمان بیٹھے ہیں اور طلب حمود الرحمٰن کی ہے تو یوں گویا ہوتے :
” نعیم صاحب ذرا معلوم کیجیے کہ حمود الرحمٰن صاحب کب تک آ رہے ہیں ۔”
حمود الرحمٰن انگلستان ہوتے ہیں اور ہمارے بےتکلف دوست ہیں ، بلکہ ہمارا اولین تعلق پہلے حافظ حمود الرحمٰن سے ہی استوار ہوا ، اور پھر سب برادران سے محبت کا رشتہ استوار ہو گیا ۔ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور جب جب ملتے ہیں خاص دعاؤں سے نوازتے ہیں ۔ اور برادر ذکریا اور سعود سب سے پیار ہے ۔۔ سعود تو کبھی کبھی میری کسی پوسٹ پر شفقت بھی کرتے ہیں ۔ حمود الرحمٰن سے ہمارا تعلق بےتکلفی والا ہے ۔ ایک بار انہوں نے میری اور عمر فاروق قدوسی کی شرقپور میں مکی کی روٹی اور ساگ کی دعوت بھی کہ اور وہ سفر بھی یادگار رہا ۔ یہ سب باتیں یاد آ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ میں اور نعیم الرحمن گزرے دنوں کے احوال اور آج کل کے حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کر رہے تھے ۔۔۔۔
نعیم مجھے ایک ترک ہوٹل لے کر آئے ۔۔ ہم کچھ دیر بیٹھے تو کھانے کی آمد ہونے لگی ۔۔ پہلے پہل ایک قسم کا ترکی سوپ آیا ، کہ
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو ” کباب ” آئے
اس کے بعد چاولوں کا بن ایک کھانا آیا کہ جسے ۔ ۔ کہتے ہیں ۔۔ ذائقے سے پہلے ہی میں اس سے متاثر ہو گیا کہ جیسے ڈپلیکس سے مہنگے بیوٹی پارلر سے سجی دلہن جب شادی ہال میں داخل ہوتی ہے تو ہر کوئی پُرستائش نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔ ایک درمیانے تھال پر بھینی بھینی مہک لیے چاول اور اس پر تین رنگا کباب اور تکے سجے ہوئے تھے ۔۔۔ ” چکن اور مٹن ” دونوں اس پر رونق افروز تھے ۔۔
جب اچھی طرح کھانا کھا لیا تو پھر میٹھا آیا ۔ یار کیا کمال ڈش تھی ، اس سويٹ ڈش کو کُنافہ کہتے ہیں ۔ بہت باریک سویوں سے بنی یہ گول بڑی سی ٹکیا کی شکل کا تھا ۔۔اوپری سطح تھوڑی زیادہ پکی ہوئی ہلکی سی کڑواہٹ لیے ۔ مجھے بہت پسند آئی ۔۔۔ کھانا کھا کر نعیم الرحمن ہمیں چھوڑنے ہمارے ہوٹل تک آئے اور راستہ بھر میں جدید ترین شہر مکہ کو دیکھ رہا تھا اور حیران تھا کہ کیسے عرب ” بدؤوں” نے اپنے شہریوں اور شہروں کو ایسا اچھا بنا لیا ہے کہ جن کو ہم طعن کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں