• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان کی نئی سیاسی چال اسمبلیاں تحلیل کر نے کا فیصلہ/اقصیٰ اصغر

عمران خان کی نئی سیاسی چال اسمبلیاں تحلیل کر نے کا فیصلہ/اقصیٰ اصغر

26 اکتوبر2022 کو عمران خان نے ایک  اجلاس میں تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم مزید اس نظام کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔کیوں کہ یہ نظام ننگا کرتا ہے گولیاں مارتا ہے تشدد کرتا ہے یہ نظام قتل کرتا ہے یہ نظام ملک سے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے یہ نظام چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتا ہے۔ اس میں چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں باقی سب غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میرے جلسے میں جو لاکھوں لوگ آئے ہیں۔ اگر میں انھیں کہوں کہ میرے ساتھ اسلام آباد چلو تو کون ان لاکھوں لوگوں کا راستہ روک سکے گا ۔لیکن میں اس ملک میں انتشار نہیں پھیلانا چاہتا میں اس ملک کو سری لنکا نہیں بنانا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ لوگ آپس میں لڑیں اور پاکستان کا نقصان ہو۔ ہم پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے استعفی دیں گے۔ اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں گے۔ عمران خان کے اس فیصلے نےسیاسی جماعتوں میں کھلبلی مچادی ۔ کیونکہ عمران خان نے ایک ایسے وقت میں ایسا پتہ کھیلا ہے جس نے پی ڈی ایم کی سٹی گم کردی ہے۔ اور یہ فیصلہ ناصرف پی ڈی ایم کے لئے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو نئے آنے والے آرمی چیف کو ثابت کرنا ہوگا کہ اب ان کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

چند ماہ پہلے جب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات اچھے نہیں تھے تو اس وقت یہی پی ڈی ایم کے سیاسی لیڈر عمران خان کو آن ریکارڈ ٹی وی سکرین پر کھلے عام چیلنج کرتے تھے کہ اگر ہمت ہے تو اسمبلیوں کو تحلیل کر دو پھر ہم پورے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔

عمران خان اب صحیح وقت سمجھتے ہوئے آئینی راستہ اختیار کرکے عوام میں جانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ مگر اس فیصلے سے مکس اچار حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ عوام کا سمندر ہے۔ اگر وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ   دے دیتے ہیں تو ملک میں دو تہائی نشستوں پر الیکشن کروانا پڑیں گے، پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ملا کر کُل 859 سیٹیں ہیں ۔ اور ان استیعفوں کے بعد 568 سیٹیں خالی ہو جائیں گی جن  پر انتخابات کروانا پڑیں  گے۔ ایسی صورتحال میں عوام سے ووٹ لینا پی ڈی ایم کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا ۔ کیونکہ اگر آپ عوام سے پیار نہیں کریں  گے، ان کے حقوق کا احترام نہیں کریں  گے، تو عوام آپ کو پیار اور احترام کیسے دیں گے۔

اس سے پہلے کہ عمران خان اسمبلیوں کو تحلیل کریں اور انہیں انتخابات  کے لیے عوام کے سامنے جانا پڑے۔ کیونکہ انہیں اگر عوام کے سامنے جانا پڑا تو جو سیٹیں ابھی ان کے پاس ہیں وہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہیں گی۔ تو اب ان انتخابات سے بچنے کےلئے موجودہ حکومت کے پاس اس کا واحد حل یہ ہےکہ وہ پنجاب میں پرویز الہی کے خلاف اور خیبرپختونخوا میں محمود خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔مگر اس وقت تحریک عدم اعتماد لانا بھی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق” اگر کسی جماعت نے تحریک عدم اعتماد کسی بھی مخصوص اسمبلی میں پیش کرنی ہے تو اس وقت وہ اسمبلی سیشن میں نہیں ہونی چاہیے”۔
مگر اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں اسمبلیاں سیشن (اجلاس) میں ہیں۔ اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان ہیں وہ عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں۔ اگر عمران خان کہیں تو وہ اس سیشن کو لمبا کر سکتے ہیں اس کا دورانیہ بڑھا سکتے ہیں۔ تو اس عرصہ کے دوران قانونی حق استعمال کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ  پنجاب اور خیبر پختون خوا  گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست بھیج سکتے ہیں تو پھر آرٹیکل 112 کے تحت 48 گھنٹوں میں اسمبلیاں تحلیل ہو سکتی ہیں۔

لیکن اگر حکومت تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو انھیں اسپیکر اسمبلی کے سامنے بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنا ہوگا۔ اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ہی اکثریت ہے۔ تو وہاں سے پی ڈی ایم  جیت نہیں سکتی۔وہاں ان کی دال گل نہیں سکتی۔ہاں پنجاب اسمبلی میں کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ  پنجاب اسمبلی میں بھی اپنی حکومت بنانے کے  لیے انہیں 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ تو پنجاب اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف کے ایم پی اے کی تعداد 180 ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایم پی اے کی تعداد 167 ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کی تعداد 7 ہے۔ اور پانچ آزاد امیدوار ہیں۔ اور ایک ایم پی اے راہ ِحق کا ہے۔ تو کُل ملا کر کر 180 ایم پی اے ،پی ڈیی ایم کے بھی بنتے ہیں ۔ او ر   10 ایم پی اے مسلم لیگ ق کے ہیں۔ اب  ساری گیم ق لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ ق لیگ جس کے ساتھ بیٹھے گئی اس کی حکومت پنجاب  میں بن جائے گی۔

لیکن پرویز الٰہی نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ
‏”پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے۔ ہم وضع دار لوگ ہیں جس کے ساتھ چلتے ہیں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اسمبلیوں سے جب استعفے دئیے تو شہباز شریف کی 27 کلومیٹر کی حکومت 27 گھنٹے بھی نہیں چل سکے گی۔ عمران خان اسمبلیاں تو ڑنے کا کہیں گے تو ایک منٹ کی دیر نہیں ہوگی”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت موجود حکومت کے لیے حالات بہت کشیدہ ہیں ۔ کیونکہ اگر عمران خان کی یہ سیاسی چال کامیاب ہو جاتی ہے تو موجود حکومت کے لیے ایک دم سے ملک میں ضمنی الیکشن کروانا بہت مشکل ہوگا اس وقت ملک کے  معاشی حالات ویسے ہی بہت خراب ہیں ، تو ایسے میں اتنے بڑے پیمانے پر الیکشن کروانا حکومت کے لیے ایک اور بہت بڑا چیلنج ہوگا ۔اب اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی کر لیں اور اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھے اور اپنے ادارے کی ساکھ کو بحال کریں ۔دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Facebook Comments

Aqsa Asghar
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ ہوں۔اور ساتھ لکھاری بھی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply