شاپنگ

ہم شاپنگ وغیرہ کرنے پر تو قطعی طور پر ایمان نہیں رکھتے کیونکہ یہ ایک کار بے کارہے اور اگر کارآمد ہے بھی تو کار نسواں ہے، کار مرداں تو یہ کسی طور ہے ہی نہیں- مگر یہ کمینہ خصلت دل جو پہلو میں دھڑکتاہے اور لذت دنیا پر اکساتا رہتا ہے تو بس جینے کا کوئی حیلہ تو کرنا ہی پڑتا ہے- یقین کیجیے اپنی خاطر تو دو گھونٹ لسی تک نہ اٹھ کر پئیوں مگر یہ پہلو میں دل ناہنجار ہے تو اسی نامراد کے کارن کچھ نہ کچھ کار شاپنگانہ سر انجام دیے چلے جاتے ہیں کہ اس کی تشفی کا سامان بنا رہے-ورنہ یہ بے مصرف رہے تو اس کی حرکت بند ہو جانے کے چانسز پیدا ہو جاتے ہیں – یعنی ہم حرکت میں زندگی ہے والی بات یاد رکھے ہوئے ہیں-

ایں سوچ کر ہم بہت ہوا تو ہر شاپنگ مال کی دکان پر تانکا جھانکی کر لیا کرتے ہیں اور اسی دوران اگر کوئی پری چہرہ نظر آئے تو ایک آدھ شرعی نظر ڈالنے سے قطعاً نہیں چونکتے (چونکتے کو بھونکتے پڑھنے سے گریز کیجیے گا) یا یوں کہیے کہ دل کے نہاں خانوں میں جو ہوکیں اٹھتی ہیں ان کی تسلی کے لیے بس کبھی کبھی یہاں وہاں دیکھا کیے والا معاملہ کر لیتے ہیں-آخر اور ہمارے پلے ہے ہی کیا۔۔۔

ہمارے ایک لنگوٹیے یار ہیں جو اب بحکم زوجہ مقدمہ و مقدسہ مستقل طور پر پاکستان سدھار گئے ہیں ان کا شغل تھا کہ ہر روز بعد از بسیار خوری کے اس کے ہاضمے کو چہل قدمی کرتے (ویسے میرا یہ ماننا ہے کہ چہل قدمی صرف خواتین کے چلنے کو ہی کہا جا سکتا مردوں کے چلنے کو زیادہ سے زیادہ ایک دھرتی کے بوجھ کو گھسیٹنے کے سوا کچھ کہنا مناسب نہیں) بلاناغہ کسی شاپنگ مال میں جا نکلتے اور ہر”آئٹم” کا بغور مشاہدہ کرتے خاص کر جوتوں کے دلدادہ تھے ،خدا جانے زندگی بھر شاید کتنے ہی جوتے کھانے کے بعد ا ن کو اس قدر جوتوں سے الفت ہو چلی تھی کہ خریدنا ہوتا یا نہ خریدنا ہوتا البتہ کسی بھی جوتے کو دست مبارک سے چھوئے بنا نہ رہ پاتے۔۔

جو شاپنگ مال ان کے مسکن کے قریب تر تھا وہاں کے سبھی سیلز مین ان کے کنگلے پن پر ایمان پختہ کر چکے تھے کہ ہر روز یہ صاحب ایک نہ ایک جوتے کو کئی زاویوں سے دیکھنے کے بعد آکر بطور ٹیسٹنگ جوتا پہنتے ہیں اور ایک آدھ تصویر بنوا لیتے بہانے سے اور پھر تصویر بنتے ہی جوتا واپس اپنے مقام پر ٹانکتے جو کہ یقیناً ان کے سر سے کہیں بلند مقام تھا پھر نکلتے ہی فیسبک پر دانشوری جھاڑنے لگتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنتے ہیں کہ حال ہی میں انہوں نےوطن عزیز میں جوتوں کی دکان ڈالنے کی نیت کر لی ہے مگر ان کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔ اور جس قدر انہوں نے ونڈو شاپنگ جوتوں کی دیار غیر میں کی اور ہر بار سیلز مین اپنا منہ اور مالک کا جوتا ہاتھ میں لے کر رہ گئے کہیں ان کے ساتھ بھی اب وہی ہاتھ وطن عزیز کے باشندے و باشندیاں نہ کرنے لگیں۔بس یاد رکھنا کہ
“کیا خوب سودا نقد ہے،
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply