عورتوں کا شہر/مسلم انصاری

ایک طویل سفر کے بعد مجھے جس شہر میں داخلے کی اجازت ملی وہاں کی بوڑھیاں بتاتی ہیں : “پہلے پہل یہاں بہت سے مرد تھے مگر خلوص اور چاہت کی طلب میں دھیرے دھیرے اپنی جنسیت بدل بیٹھے سو اب وہ سب عورتیں ہیں!”

یہ ایک قصبہ نما شہر ہے، جہاں ہر سمت عورتیں اور لڑکیاں ہیں!
عورتیں ہی بچے جنم دیتی ہیں، عورتوں کا جرگہ ہے، فیصلے عورتوں کے حق میں ہوتے ہیں، عورتوں نے جنسِ مؤنث سے جڑی تمام گالیاں متروک کردی ہیں، کوئی عورت زندہ ہونے کی حالت میں دفنائی نہیں جاتی، قریب سبھی لڑکیاں چوکیدار ہیں جو اپنے حمل (جو انہیں کبھی نہ کبھی ٹھہرے گا)، گھر، رشتے اور اپنی شرمگاہ کی رکھوالی کرتی ہیں!
عورتیں ہی عورتوں کے ساتھ سوتی ہیں، یہاں کی عورتیں اپنے رحم سے عورت جننے پر تنقید و ستم سے نابلد ہیں جیسے اِس شہر کے باہر، جہاں سے میں سفر کرکے پہنچا تھا (جہاں فقط مذکر جنس کی پیدائش کے لئے انہیں بے لباس کیا جاتا ہے)

اس بستی میں فقط لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں، بانجھ عورت کو سرکاری فنڈ ملتا ہے، سرکار عورتوں کی ہے، ایوان پر عورتوں کا علَم بلند ہے، یہاں فاحشہ ہونا گالی نہیں کیونکہ یہاں کوئی عورت طوائف نہیں!
خوبصورت یہ ہے کہ یہاں بھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں مگر سب کی پسندیدہ لیکھکھ ایک ایسی عورت ہے جس کے بچپنے میں اس کے بھائی اس کا استحصال کرتے رہے، اس کی کتابوں سے اتارے گئے جملے دیواروں پر چسپاں ہیں!

اندورنی مسائل کی جانچ پڑتال پر میں اس امر پر واقفیت پا گیا کہ :
شہوت و طلب مٹانے کے لئے مکین عورتیں کسی مخصوص سفید پھول کی کچی کلیاں اپنی شرم گاہوں کے بیچ چاندنی راتوں میں اڑسا لیتی ہیں جس سے ان کے جسم معطر ہوجاتے ہیں، وہ تذبذب کے بجائے مہکتی ہیں پھر یہ لمحہ سچا تصور کیا جاتا ہے، شنید ہے کہ اس دوران ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، بانجھ عورتیں سب سے معزز ہیں، ان کے زیر ناف بالوں کی جگہ چھوٹے چھوٹے سیاہ پھولوں کی بیلیں ہیں جو ہر ہر روز اگتی ہیں، وہ عورتیں قابلِ احترام گردانی جاتی ہے، گوکہ وہ چنندہ ہیں مگر انہی سے فیصلے لئے جاتے ہیں! ماہواری میں لڑکیاں خوبصورت دکھتی ہیں، ان کے چہروں پر لالی آجاتی ہے اور ہونٹ گلابی مائل ہوتے ہیں، ان کے لباس ان تند مزاج دنوں میں سرخ نہیں ہوتے بلکہ ان کے جسموں سے تتلیاں راحت پاتی ہیں، پرندے ان سے باتیں کرتے ہیں، معلوم نہیں یہ کیا کھیل ہے مگر ہر شجر ان کے لئے اپنے پھلوں کی تعداد بڑھا دیتا ہے، کم عمر بچیوں کو گھروں کے باہر کھیلنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کے ساتھ کسی مرد کی زیادتی کا تصور دم توڑ چکا ہے!

میں نے جانا : “ہر لڑکی یہ چاہتی ہے کہ اس کے جسم کو فقط وہی مرد چھوئے جو اپنے پیار اور خلوص میں سچا ہے،
اور پھر وہ کچھ بھی ظاہر نہ کریں مگر دکھتا ہے کہ مردوں کی کمی سب کو کَھلتی ہے، پر مردوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا گو کہ وہ ہنس رہی ہوں یا اپنے تمام تر ہوش و حواس میں تنہائی لئے بیٹھی ہوں، مردوں کا تصور یہاں کی ہر ذی روح شے/بشر میں موجود ہے، لڑکیاں سونے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتی ہیں مگر کوئی دعا نہیں کرتیں کہ مبادا مردوں کی بارش ہی نا برسادی جائے!

آخر کو ایک روز ۔۔ایک عورت ضرور مذکر بچہ جنے گی!
(ایسا ان کی  سب سے معتبر کتاب میں لکھا ہوا ملتا ہے) انفرادیت کی بنا پر ہر لڑکی اس بچے کے ننگے جسم کو دیکھنا چاہے گی، پھر وہ فرق تلاش کریں گے، جس روز یہ ہوگا، یہ شہر زرد پھولوں کی طرح ہو جائے گا، زرد پھول جو بس صبح کے وقت کھلتے ہیں، جب سورج اگتا ہے اور جب شام ہوتی ہے وہ پھول بند ہو جاتا ہے!

یہ سچ ہے کہ میں اس قصبے میں مزید رکنے کا خواہاں تھا، پھر ایک روز ایک ننھی بچی نے میرے ساتھ کھیلتے ہوئے میری چھپی شناخت کو پالیا، میرے بالوں کی نقلی لٹیں کھینچی گئیں تو اندر سے ایک مرد ابھر آیا، میرے ابھرے سینے سے ہوا چاک کردی گئی، لمبی اور لپٹی چادر کے خول سے مجھے صحیح سلامت نکالتے اور میری پہچان کرتے ہوئے بوڑھیاں رو دیں، لڑکیاں اور جواں سال عورتیں گھروں میں دبک کر بیٹھ گئیں، آخر کو ایک مرد نے اپنی چالاکی سے ان کے تقدس میں قدغن لگا دیا تھا، میں نے کئی لمحوں تک کواڑوں کے بند ہونے کی چرچراہٹ سنی، پھر ہر گھر کے دروازے بند ہوتے گئے، میں جانتا تھا کہ اگلے کئی برس وہ لوگ میرے بارے میں چہ میگوئیاں کرنے والے ہیں!
خیر سب سے آخر میں وہی بانجھ عورتیں مجھے کھینچتی ہانکتی داخلی دروازے تک لے آئیں اور مجھے باہر دھکیل کر بڑے بڑے قفل تان دیے!

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس و ملامت نے میرے خواب کی آنکھ کھول دی
میں نے دیکھا، بستر پر میرے ساتھ ایک اجنبی عورت خوب  روکے سو رہی ہے، میں اس لمحے اسے پہچاننے سے قاصر تھا، تذلیل و حقارت نے میری پانی کی طلب تڑپادی،
(ظاہر ہے سب کو رات کے اس پہر آنکھ کھلنے پر پیاس کی ہی طلب ہوتی ہے!) میں چاہتا تو اٹھ کر خود پانی پی سکتا تھا مگر ایسے میں میری حاکمیت کی انا مر جاتی، میں نے اس اجنبی عورت کو کچوکے مار کر جگایا، وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی اور ایک جانا پہچانا خوف آنکھیں ملتے ہوئے اس کے چہرے میں پلٹ آیا، اُس اجنیہ نے کچھ نہیں کہا، بس دھیرے سے اپنے ننھے بچے کا منہ اپنے پستان سے الگ کیا اور تابعدار لونڈی کی طرح کچن سے پانی لینے چلی گئی!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply