ہندسوں کے غار۔۔فیصل عظیم

تاریکی میں ہلتے سائے
برفیلے رنگوں پر چاند کی ہلکی، نیلی چادر اوڑھے
جھینگر کی آواز کی سنگت، سانپوں کی پھنکاریں،
سانسوں کی غرّاہٹ
غار، افق، احساس، جبلّت کے سب محضر
اور ہر محضر کا سرنامہ،
بھٹ کے اندر، حدِّ نظر تک حلقہ ڈالے
بارش دیکھے، گرگِ تازہ،
ناطق، باصر، ہندسے
بے اندازہ حلقوں میں سب ہی محصور ہوں جیسے
تیز نگاہیں، چلتی سانسیں اور دانتوں کا جوہر
پنجوں پر سوکھے رنگوں کے دھبّے
چہروں پر یاقوت ہوس کے
ہندسوں کی اشکال کے پیچھے، دانت لگائے
غاروں کی بے اندازہ پہنائیوں میں سب
تاک میں ہیں، کب کوئی اُونگھے
اور لقمہ ہو جائے
حدِّ نظر تک آنکھیں ہیں، چمکیلی بھوکی آنکھیں
حلقہ در حلقہ ہندسوں کا جال بچھا ہو گویا
جن میں پارہ پارہ گھرے سب
نیند کی موجوں میں سانسوں کے تار سمیٹے،
اونگھ سے عاجز، دانتوں اور آنکھوں پر نظریں گاڑے،
شل اعصاب سنبھالے
خیرہ آنکھوں کو جبراً کھولے بیٹھے ہیں
بس اک جھونکا !
اور پل بھر میں
کوئی اُس اک پل کی بھوک مٹا سکتا ہے
تھوڑی دیر کو بھٹ میں جشن منا سکتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply