گود(افسانہ)-سلمیٰ کشم

“میرا، بچہ۔۔۔۔میری جان ۔۔۔۔۔۔ میرا چین ”
مُنے کے رونے کی آواز اتنی تیز تھی کہ میں ہڑ بڑا کراسے گود میں لینے کے لیے تڑپ کر اٹھی،
دھیمی لائٹ میں بچہ ٹٹولا اور چیخنے لگی۔

ادھر ادھر ہاتھ مارا تکیہ چادر سب دیکھ لیا، لیکن کہیں نہ ملا ۔ ۔ملتا بھی کیسے ۔۔۔۔ہوتا تو ملتا نا۔
منے کے رونے کی آواز اور میرے چیخنے کی آواز بڑھنے لگی۔

ننھی چڑیا بار آوری کے موسم سے پہلے سخت محنت کر کے تنکا تنکا اکھٹا کرتی اور اپنا آرام دہ گھونسلا جی جان سے سیتی ہے۔ساتھ اس کا ننھا نازک دل امید اور خوف میں الجھا رہتا ہے ایک آنکھ کیفیت پہ ہوتی ہے تو دوسری حالات کی اکھاڑ پچھاڑ پہ،سب اچھا رہے ،سب کچھ مواقف اور متواتر چلتا رہے بالکل قانون فطرت کی چارہ جوئی کی طرح ۔۔۔ننھی چڑیا کی بیتاب دھڑکنیں آس کی کشتی پہ سوار خوف کی لہروں سے مڈبھیڑ کرتی رہتی ہیں ،بار آوری کے ثمر کی دعا تسلسل سے جاری رہتی ہے۔کون جانے موسم مہربان ہوگا یا بے رحم ۔۔۔۔
یہ فیصلے تو قدرت کے ہیں لیکن جو کام جس کے سپرد ہے وہ تو کرے گا ہی ۔ زندگی نہ رکتی ہے نہ ٹھہرتی ہے دم بھرتی ہے اور چلتی رہتی ہے۔نہ زندگی بہت سستی ہے نہ موت بہت مہنگی اصل کمال سودے بازی کا ہے جو بھاری پلڑے میں آگرتی ہے۔

“میری طبیعت صبح سے خراب ہورہی ہے عمر۔۔۔سوچا سنبھل جائے گی اس لیے نہیں بتایا۔۔۔”

میں نے چہرے پہ آئے کھچاؤ اور پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔

عمراس معاملے میں مجھ سے بھی زیادہ احتیاط کا قائل تھا فوری پریشان ہوگیا۔

“چلو اٹھو ڈاکٹر کے پاس چلیں”
بات سنتے ہی کھڑا ہو گیا۔

“نہیں ابھی پینتیس واں ہفتہ شروع ہونا ہے  ۔پورا ایک ہفتہ پڑا ہے ،  اگر ڈاکٹر نے انتظار نہیں کیا تو۔۔ ۔؟ ،
میں ڈرئے ہوئے لہجے میں بولی ۔

میری آنکھوں اور چہرے سے خوف عیاں تھا اڑی ہوائیاں کوئی بھی دیکھ کر سمجھ جاتا۔

مجھ سے اپنا معمول سے زیادہ بھاری بھرکم وجود سنبھالا نہیں جارہا تھا ۔وزن اور تکلیف دونوں بڑھ گئے تھے۔نہ بیٹھ پارہی تھی نہ صحیح سے کھڑا ہوا جارہا تھا۔میرا دل بےشک اپنی دعاوں پر قبولیت کا یقین رکھتا تھا۔ مگر خراب حالت کے باعث شدید وسوسوں اور اندیشوں میں گھرا تھا جن سے نکلنا بس میں نہیں تھا،ذہنی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔

سیاہ بادلوں نے شاید میرے حصے کے نیلے آسمان کو ڈھک دیا تھا ۔تازہ ہوا کے جھونکے کسی اور طرف نکل گئے تھے ۔آکسیجن بھی کم پڑنی لگی سانس لینے میں شدید دشواری اف۔۔۔۔۔ خدایا اتنی تنگی۔۔

جب عمر مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر جارہا تھا میرے جسم میں جان نہیں تھی قدم تھے کہ دروازے کی طرف اٹھتے ہی نہ تھے۔

ڈاکٹر نے تجویز کر دیا کہ ابھی جاکر داخل ہوں ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہے۔

“عمر  ۔۔۔ میرا دل نہیں مان رہا پچھلی بار بھی دن کم تھے تو ۔۔۔۔۔۔ بچہ نہیں بچ پایا۔

لرزتی زباں اور ٹوٹے لفظوں سے کہہ ہی دیا۔

“اللہ خیرکرے گا۔۔۔۔ تم ایسا کچھ بھی مت سوچو ۔ ہم نے ایک اچھے ہسپتال کا انتخاب کیا ہے اس بار۔ ۔۔۔ ڈاکٹر سےبات بھی تو ہوچکی ہے ساری۔  ”

اس نے امید و رجا میں ڈوبی آواز میں کہا۔

بیگ تیار کرتے ہوئے نرم و ملائم چھوٹے چھوٹے کپڑوں پہ بے اختیار ہاتھ پھیرتی رہی ،جی چاہا انہیں چوم چوم کر رکھوں ،آنکھوں سے لگاؤں سینے سے لگاؤں ، محسوس کرتی رہوں۔ بے حساب مامتا امڈ رہی تھی،مگر وقت کم تھا جلدی نکلنا تھا جو سمجھ میں آیا ،رکھ دیا۔

ایک اچھا پرائیویٹ ہسپتال جہاں تھیٹر ورک چوبیس گھنٹے تھا اور نرسری بھی اچھی تھی ،جہاں تسلی کے لیے ہم جانچ کرچکے تھے اسی ہسپتال کا انتخاب کیا گیا۔

ہسپتال کی اتنی روشنیاں برقی قمقمے لیکن پھر بھی اندھیرا اور گھٹن کیوں تھا اس قدر ۔۔

لیبر روم سے آنے والی عورتوں کی چیخ و پکار اور نومولود بچوں کے رونے کی امید نو سبھی کچھ تھا ۔
کچھ شفایاب ہوتے کھلتے چہرے اور کچھ مرجھائے منظر خوف اور امید ساتھ ساتھ ۔۔۔۔

“ماشاءاللہ  سے آپ کے دونوں بچے صحت مند ہیں امید ہے کہ کوئی ایشو نہیں ہوگا، فوری آپریشن کی ضرورت ہے۔۔۔۔فیس جمع کروادیں”

میرا معائنہ کرتے ہی ڈاکٹر نے بیان جاری کیا۔

“چونکہ بچے پری میچور ہیں اس لیے ماں کی حالت بچوں کو متاثر کرسکتی ہے جتنی جلدی آپریشن ہوجائے بہتر ہے ۔”

سینئر  ڈاکٹر نے تشویش ظاہر کی ۔

ہم دونوں نے آپسی مشورے کی غرض سے انجانے خوف کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔گویا ایک دوسرے سے بات کی ہمت ہی نہ ہو ،جو فیصلہ لینا ہے اسی طرح لے لیا جائے۔

“ڈاکٹر صاحبہ بچے پری میچور ہیں خداناخواستہ کوئی مسئلہ نہ ہوجائے ۔۔۔۔ آپ داخل کرلیں اور ٹریٹمنٹ کریں پلیز  ۔ہم انتظار کر لیں گے۔ ”

عمر نے ٹریٹمنٹ پہ زور دیا ۔

“چونکہ بچے جڑنواں ہیں اس لیے ہم رسک نہیں لے سکتے ۔انتظار زیادہ پیچیدگی لا سکتا ہے،
آپ فیس جمع کروایں ابھی آپریشن ہوگا ،نہیں تو کہیں اور چلے جائیں۔”

ڈاکٹر کی بات سننے کے بعد بھی عمر نے کئی بار ٹریٹمنٹ کے لیے کوشش کی مگر بے سود۔۔۔اتنا سفر طے کر کے یہاں پہنچے ،اب کہیں اور جانے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا۔

راستے میں اگر حالت مزید بگڑ گئی تو۔۔۔۔مطلب زیادہ خطرہ۔۔۔

ڈر اور خوف بے یقینی کی کیفیت۔ ۔۔۔۔۔۔ عجیب کشمکش ۔۔۔۔

پہلی بار سی سیکشن تھا حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے خود کو ذہنی طور پہ تیار کرلیا۔۔۔۔

لیکن دل کیوں بجھ رہا تھا ۔۔۔ شاید صورت حال گھمبیر تھی دل پریشان تھا ۔ یا پھر بہت پریشان ۔۔۔۔ لبوں اور دل پہ مناجات تھیں اس وقت کیا الفاظ تھے رب ہی سمجھ سکتا تھا میں بھی نہیں۔ ۔۔۔۔

جڑنواں بچے آٹھ ماہ ہر لمحہ میرے ساتھ رہے ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے ،وہی دل جسے میں نے اپنے خون سے سینچا تھا ۔ وہ آنکھیں جن میں سب سے پہلے میں دیکھنا چاہتی تھی ۔

چھوٹے چھوٹے پیارے ہاتھ۔ ۔۔۔ جن کا لمس مجھے نئی زندگی دان کرتا۔ ۔ ۔
وہ پیاری پیشانی جن پر بوسہ دینے کے لیے میرے لب مچل رہے تھے۔  ۔
چھوٹا سا نرم سیاہ بالوں والا سر جس پہ بارہا ہاتھ پھیرنا چاہتی تھی ۔ ۔۔۔
ننھے ننھے گورے پیر،نومولود بازو، ٹانگیں ۔۔ ۔اُف ۔ ۔۔

بے شک رب نے اپنی تخلیق میں مجھے حصہ دیا۔

ہماری دھڑکنوں اور احساسات کی تال ایک تھی۔ان کی ایک ایک حرکت کو میں نے جس طرح محسوس کیا ، وہ بھی میری ہر نقل و حرکت سے متاثر ہوئے۔۔میں ان کے معاملے میں بےحد محتاط رہی۔

بقول ڈاکٹر میرا غم ،غصہ یا سفر کرنا براہ رادست بچوں کی زندگی پہ اثر انداز ہوسکتا ہے۔میری حالت بہت نازک تھی ،اور ذہنی کیفیت ان دنوں اچھی نہیں تھی ،کسی بھی قسم کے سٹریس سے بچنا بہت ضروری تھا ،میری زندگی امید اور ڈر کے درمیان جھولتا پنڈولم بن گئی ۔

سوائے آرام اور بنا نید لیٹے رہنے کے کوئی حل نہیں تھا ،میں گھنٹوں یونہی پڑی رہتی دن اور رات کا ہر گھنٹہ انگلیوں پہ گنتی کہ اب اتنا وقت رہ گیا ہے دن ختم ہونے میں پھر اگلی تاریخ شروع ہوجائے گی۔ ۔۔

آپریشن ٹیبل پہ لیٹتے ہوئے میں نے پوچھا کیا مجھے بچوں کے پھیپھڑے مضبوط کرنے والا انجیکشن(Dexamethasone)لگادیا۔ ۔
“نہیں بی بی، وقت کم تھا  ۔”

جونئیر ڈاکٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا
اورمیری دنیا گھوم گئی ۔
“یہ تو بےحد ضروری تھا”

اس کے بعد میں بے ہوش ہوگئی۔

اور بچے مجھ سے جدا ،دور اور دور اور پھر بہت دور۔۔۔

جب مجھ ہوش آیا بہار نو میری چوکھٹ تک آ کر،میرا ہی جسم میرے جسم سے کاٹ کر جاچکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہسپتال کا عملہ اپنی جلد بازی اور چالبازی دکھا کر میری گود اجاڑ کر اپنی جیب بھر چکا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply