گزشتہ اقساط کا لنک
ماسکو سے مکّہ -ڈاکٹر مجاہد مرزا
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اور درست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسر انکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرور کریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اور ہمارے گروپ کو ” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطر کہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اور چراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طور پہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کو مکہ میں جا کر پورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیض کچھ اور زیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔
مسجد نبوی کے پہلو میں بازار کی نکڑ پہ ہی “صراف” یعنی منی ایکسچینجر کا بوتھ تھا۔ میں نے اسے بھنانے کی غرض سے دو سو ڈالر دیے تھے۔ اس نے مجھے ان کے عوض سات سو چھیالیس ریال دے دیے تھے۔ رسید وسید دینے کا تردد نہیں کیا تھا۔ اس کے سامنے ہی بازار کے برآمدے میں ایک عرب نژاد زمین پہ ایک صندوقچی رکھے بیٹھا تھا، جس میں مختلف کمپنیوں کے ٹیلیفون کارڈ تھے۔ میں نے اس سے اردو میں ہی پوچھا تھا کہ پاکستان اور روس کے لیے کون سی کمپنی کی سم بہتر رہے گی۔ تمام عربوں کی طرح اردو سمجھ لیتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بہر حال کمپنی “موبیلی” کی سم نکال کر دکھائی اور کہا “بہتر”۔ پچاس ریال کی سم خریدنے پہ بیلنس میں اڑتیس ریال جمع ہوتے تھے۔ دے دو بھائی اور ڈال بھی دو۔ آدمی دلچسپ تھا، میں نے اسے سو ریال کا نوٹ دیا تھا جو اس نے جیب میں ڈال لیا تھا اور بڑے انہماک سے میرے فون میں سم ڈالنے لگا تھا۔ سم ڈالنے کے بعد بولا “فلوس” لیکن چہرے پہ مذاق کرنے کی مسکراہٹ کا نقطہ جما ہوا رہ گیا تھا۔ میں نے کہا “استاد! ہم پاکستانی تم عربوں کے بھی استاد ہیں، مسخرے مت بنو باقی کے پچاس ریال نکالو”۔ وہ ہنس دیا تھا اور باقی پیسے دے دیے تھے۔ اب ہم نے بلکہ میں نے راہ چلتے لوگوں اور دوکانوں کے باہر کھڑے سیلز مینوں سے پاکستانی ریستوران کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا تھا۔ نزدیک کسی ایسے ریستوران کی شنید نہیں تھی۔ کسی نے ہمیں ایک راستے پہ ڈال دیا تھا۔ پل کے نیچے سے گذر کر سڑک کے دوسری طرف جانا تھا۔ پھر ایک مزدور نما شخص سے پوچھا تو اس نے عمارت کے کونے سے اندر جانے کو کہا۔ آگے بڑھے تو کئی دکانوں کے بعد ایک ڈھابا ٹائپ تھا اور ایک پنجابی جٹ باہر جھاڑو لگا رہا تھا۔ پوچھا “بھائی کیا پکا ہے؟” “دال ہے، چھولے ہیں اور سادہ گوشت بھی ہے” اس نے جھاڑو لگاتے ہوئے زمین سے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا تھا۔ “مرچیں نہیں” جمشید نے اپنی گلابی اردو میں دریافت کیا تھا۔ “مرچیں تو ہیں” جٹ نے سیدھا ہو کر کہا تھا۔ سامنے سے ہمارے گروپ کا ایک فرد مظفر ازبک آ رہا تھا، جس نے صافی کو بتایا تھا کہ آگے جا کر ترک ریستوران ہے وہاں “جگر” بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ گوشت کا رسیا افغان جگر کھانے کے درپے ہو گیا تھا۔ مجھے بھی کھانے کے لیے یہ ڈھابا کوئی مناسب جگہ نہیں لگی تھی اس لیے آگے بڑھنے لگے تو مظفر نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ احرام خرید چکے ہیں؟ جمشید تو احرام افغانستان سے منگوا کر ہی ساتھ لائے تھے البتہ مجھے خریدنا تھا۔ مظفر نے کہا یہ سامنے ایک ازبک کی دکان ہے ، آؤ لے کر دیتا ہوں اور ہمیں ازبک لڑکے کے حوالے کرکے آگے نکل گیا تھا۔ میں نے پینتیس ریال کا احرام اور دس دس ریال کے چار مدینہ کے بنے ہوئے جائے نماز لے لیے تھے۔ ابھی ترک ریستوران نہیں پہنچے تھے کہ صافی کو ایک کابلی نان بائی کا تنور دکھائی دے گیا تھا۔ شاید ان کا ناستلجیا ان پر قابو پا چکا تھا، وہ تنور والے سے “تڑا ماشے” کرکے محو گفتگو ہو گئے تھے اور میں ترک ریستوران میں چلا گیا تھا جو ریستوران کم، ایک فاسٹ فوڈ جوائینٹ زیادہ تھا۔ معاملہ ‘زبان یار من ترکی‘ کا تھا۔ صافی بھی پہنچ گئے تھے۔ کھانوں کی تصویریں دیکھ کر پوچھتا رہا “وٹ، کیا، چہ” لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ بہر حال ایک جگر اور ایک گوشت کی فرمائش کر دی۔ صافی نے اشارے سے کہا کہ وہ نان خود لائیں گے۔ جوائینٹ سے آگے ایک چبوترے پر کرسیاں میزیں دھری تھیں۔ ہم آخری والی میز کے گرد بیٹھ گئے تھے۔ صافی جا کرایک آدھ نہیں بلکہ تین نان لے آئے تھے۔ جگر اور گوشت کی تھالیاں بھی آ گئی تھیں۔ میں نے جگر میں موجود کولیسٹرول سے بچنے کی خاطر گوشت کی خواہش کی تھی لیکن گوشت پھیکا تھا اور جگر واقعی خوش مزہ۔ یوں ایک نان اور جگر کھا کر ہی ہم سیر ہو گئے تھے ۔ لیکن جب میں نے گردن گھما کر اپنے پیچھے چبوترے کے نیچے نگاہ ڈالی تو وہاں ڈرم نما کوڑا ڈالنے کا برتن تھا، یعنی ہم گند کے اوپر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے جمشید کی ناگواری کے باوجود گوشت پیک کروا لیا تھا۔ جب ہم ریستوران میں پہنچے تھے اور کھانے کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہاں فوج کی یا محافظ کی وردی پہنے ہوئے ایک شخص موجود تھا جو ہنس ہنس کر کچھ کہہ رہا تھا۔ بعد میں بھی وہ کھانا کھانے کے چبوترے کے شروع کی میز کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہنستے ہوئے ہمیں کچھ کہتا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ کوئی پنجابی جوان ہے جو مذاقاً عربی بول رہا ہے۔ میں بھی اسے پنچابی میں کہتا رہا ،” تو ہیں تے پنجابی، اینج ای بن رہیا ایں”۔ لیکن وہ بیچارا پنجابی نہیں تھا بلکہ مشابہ تھا۔
واپسی پہ میں نے صافی سے پوچھا تھا کہ کیا سارے عرصے کے لیے ایک احرام کافی رہے گا تو ان کا جواب تھا کہ دو تو ہونے چاہئیں۔ صافی ایک اور دکان سے جائے نماز لینے کے لیے رکے تو میں نے ایک اور احرام خرید لیا تھا۔ دکان پہ کام کرنے والا ادھیڑ عمر شخص گورکھپور ہندوستان سے تھا۔ میں نے پیک کیا ہوا گوشت کھانے کے لیے اسے دے دیا تھا۔ ہم ہوٹل واپس آ گئے تھے۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ بجے تھے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ تھوڑی دیر استراحت کی تھی پھر ظہر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی چلے گئے تھے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں