عدیل برکی: محبت کا سفیر/آغر ندیم سحر

آواز کی دنیا میں عدیل برکی نے انتہائی کم وقت میں جو مقام حاصل کیا،اس تک پہنچنے کے لیے لوگ عمریں لگا دیتے ہیں۔عدیل برکی خوش قسمت ہیں کہ وہ ہمہ وقت اپنے مداحوں کی دعائوں میں رہتے ہیں،دوستوں میں پھول ،محبت اور مسکراہٹیں بانٹنے والے عدیل برکی اپنی آواز کی طرح تعلقات میں بھی منفرد ہیں،وہ خود بھی خاص اور خوبصورت ہیں اور ان سے جڑے ہوئے لو گ بھی خاص اور خوبصورت۔ عدیل بھائی سے محبت کرنے والوں کی فہرست ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘‘تک پھیلی ہوئی ہے،آپ دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں،وہ قومیں جو پاکستان کو ایک انتہا پسند ملک سمجھتی ہیں،ان کے لیے عدیل برکی کا نام کافی ہے۔آپ پاکستان کے سچے سفیر ہیں یعنی سفیر ِمحبت۔عدیل برکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ موسیقی کے میدان میں انھیں  سب سے پہلی مزاحمت گھر سے برداشت کی،والد نے گھر سے نکال دیا تو دوست کے گھر جا کر ریاضت شروع کر دی مگراپنے مقصد اور خواب سے پیچھے نہیں ہٹے،اس خواب نے انھیں پوری د نیا میں پاکستان کا سفیر بنا دیا۔

شاعری ہو یا موسقی،دونوں میں عدیل برکی اپنی مثال آپ ہیں،جس محفل میں ہوں،ماحول کوہپناٹائز کر لیتے ہیں ،آپ کے چٹکلے،لطائف اور محبت بھری آواز کا ایک زمانہ معترف ہے،آپ اچھے فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے انسان بھی ہیں۔ کسی شخص کو عدیل برکی سے محبت نہ ہو،ان سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،جس شخص نے زندگی محبت کی تبلیغ کے لیے وقف کردی ہو،اس سے کوئی کیسے نفرت کر سکتا ہے،عدیل برکی خوش قسمت ہیں کہ وہ بے برکت نہیں ہیں۔ہمارے ہاں تو جس فن کار یا شاعر کو دو چار لوگ سننے لگ جائیں،وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھنے لگتا ہے،عدیل برکی ایسا نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ دن بدن ان سے محبت کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ایک اور خوبی سے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں،وہ عدیل برکی کی میزبانی ہے۔دوستوں کے لیے خوبصورت محافل کا انتظام کرنا،اپنے گھر پہ فن کاروں اور شاعروں کو اکٹھا کرنا،زندگی اور ادب پر مکالمے کا اہتمام کرنا،سردیوں میں سوپ کے ساتھ موسیقی کا تڑکالگانا کوئی عدیل سے سیکھے۔

گزشتہ ہفتے بھی دوستوں کے لیے ایک سنڈے برنچ کا اہتمام کیا تو امریکہ سے بینا گوئندی اور گلوکارہ طاہرہ علی بھی محفل کی جان تھیں،ہم سب کی پسندیدہ شاعرہ رخشندہ نوید اور اداکار راشد محمود بھی مدعو تھے،بات بہترین کھانوں سے چلتی ہوئی شاعری اور موسیقی تک پہنچی،عدیل برکی نے امریکہ و یورپ کے سفر کی روداد سنائی۔اورسیز پاکستانی ،اپنے ملک کے فن کاروں سے کتنی والہانہ محبت کرتے ہیں،جان کر بے حد خوشی ہوئی۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنی زبان،ثقافت اور موسیقی کے فروغ کے لیے بہت محنت کی ہے،وہاں موجود اردو تنظیمیں ہمہ وقت تقریبات میں مصروف رہتی ہیں،پاکستان سے ادبی و ثقافتی سفیروں کی آمدورفت دونوں خطوں میں امن کے فروغ کے لیے ناگزیر ہے،یہی وجہ ہے کہ میں نے عدیل برکی کو سفیر ِمحبت کہا۔آج کے ڈرامہ نگار کے پاس جو کہانیاں ہیں،وہ کم از کم ایک مہذب معاشرے کی کہانیاں نہیں ہو سکتیں ،ہمارے بچوں کو ڈراموںاور فلموں کے نام پرجو دکھایا جا رہا ہے یا جدید شاعری کے نام پر جو سنایا جا رہا ہے،وہ ہماری تاریخ نہیں ہے،ہم اپنی تاریخ سے دور کیا ہوئے تاریخ نے ہمیں خود سے دور کر دیا۔رخشندہ نوید نے نہ صرف اپنی پنجابی شاعری سنائی بلکہ پنجابی ادب پر بھی بات کی۔پنجاب کی بات چلی تو یاد آیا کہ ان دنوں لاہور انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس بھی چل رہی ہے جو پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کے فروغ کے لیے انتہائی ناگزیر تھی مگر یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ پنجابی کے فروغ کی بات،اردو کی مخالفت سے کیوں جڑی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جب اردو کانفرنسوں اور مشاعروں میں پنجابی مخالف بیانیہ کبھی زیربحث نہیں آیا تو پنجابی محافل میں ایساکیوں ہوتا ہے؟،کوئی اردو ادیب یا شاعر پنجابی زبان یا پنجابی ثقافت کا مخالف نہیں اور اگر کوئی ادیب یا قلم کار،پنجابی یا کسی بھی علاقائی زبان کی مخالفت کرتا ہے،وہ ایک سچا ادیب نہیں ہوسکتا۔علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کو آپس میں لڑا کرہم کبھی بھی ایک مہذب معاشرہ قائم نہیں کر سکتے،ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کی تمام زبانیں ور ثقافتیں ہماری اپنی ہیں۔پنجابی زبان سے وابستہ ادیبوں کو یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ اردو والے،پنجابی زبان یا ثقافت کے بالکل بھی مخالف نہیں،ہر زبان کا اپنا حسن ہے اور ہر زبان کی اپنی چاشنی ،لہٰذا اردو اور پنجابی فن کاروں اور قلم کاروں کو معاشرے میں امن کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، زبانیں اور ثقافتیں کبھی بھی مسلط نہیں ہوتیں،یہ اپنا راستہ خود بناتی ہیں، ہم جتنا بھی کسی زبان یا ثقافت کے سامنے بند باندھ لیں،ہم انھیں ترقی سے نہیں روک سکتے۔ عدیل برکی کی محفل اس لیے خوبصورت اور یادگار ہوتی ہے کہ وہاں زبانوں،ثقافتوں،موسیقی اور ادب پر بھرپور مکالمہ ہوتا ہے،ان محافل میں اردو ادیب بھی ہوتے ہیں اور پنجابی بھی،گلوکار بھی ہوتے ہیں اور اداکار بھی،سماجی کارکن بھی ہوتے ہیں اور جامعات کے سٹوڈنٹس بھی۔ہم سب کو ایسی محافل کا اہتمام کرنا چاہیے جہاں انتشار کی بجائے امن اوربھائی چارے کی بات ہو،ادب و ثقافت کے فروغ کی بات ہو،خدا! عدیل برکی کی توفیقات میں اضافہ فرمائے کہ ان کے توسط سے بہت کچھ سیکھا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply