گونجتی سرگوشیاں کا تخلیقی رویہ۔۔منیر احمد فردوس

زندگی کی سنگین ترین حقیقتوں سے گندھے ہوئے آج کے جدید افسانے میں ہمیں منشی پریم چند کے اُس صدارتی خطبے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو انہوں نے 1936 میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس کے موقع پر دیا تھا۔ جس کی بدولت اردو افسانہ درباروں، محلوں اور رجواڑوں کی مصنوعی شان و شوکت سے دامن چھڑا کر پہلی بار کسی غریب کی کٹیا کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اندر جھانک کر گھاس پھونس کی چھت کے نیچے تنہائی کی زنجیروں میں جکڑے سسکتے ہوئے لاچار انسان کا ایک ایسا گمشدہ منظر دریافت کیا جس کے لیے اردو افسانہ شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی کٹیا اور اس کے اندر کا سسکتا ہوا انسان ایک بگ بینگ ثابت ہوا اور اردو افسانہ کسی تحریک کی صورت خطے کے گلی کوچوں میں پھیل کر عام انسان کے آنگن کا طواف کرنے لگا، جہاں سے کچلی ہوئی انسانی نفسیات کے ایسے ایسے کنویں برآمد ہوئے کہ جن کی گہرائی دیکھ کر سماج لرز اٹھا۔ یہاں سے عام آدمی اردو افسانے کا مرکزی کردار اور موضوع بنا۔ اس ارتقائی سفر میں کئی اہم موڑ آئے، افسانے نے کئی شکلیں بدلیں، نئے مفاہیم دیئے، نئے سکول آف تھاٹس متعارف کروائے، کئی طرح کی نئی آوازیں ابھریں، جن میں نسائی آوازوں نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور اردو افسانے کو بہت توانا کر دیا۔

آج کی گونجتی افسانوی سرگوشیاں اپنے ذہین قاری سے پورے اعتماد کے ساتھ مکالمہ کر رہی ہیں کیونکہ اس کے پیچھے دیگر نسائی لہجوں کے ساتھ ساتھ ابصار فاطمہ، معافیہ شیخ، فاطمہ عثمان، سمیرا ناز، صفیہ شاہد، فرحین خالد اور ثروت نجیب جیسی پر اعتماد لکھاری شامل ہیں، جن کے پاس قلم کی تیکھی کاٹ ہے، کہانی کا خدائی معجزہ ہے، اعتماد کی روشنی ہے، لفظوں کے لشکر ہیں، سچ کی روشنائی ہے اور سب سے بڑھ کر معاشرے کے تعفن زدہ کونوں کھدروں کو کریدنے والا وہ تخلیقی رویہ ہے جن کی مدد سے وہ سماج کے نو گو ایریا میں بھی جھانک سکتی ہیں جہاں بے یقینی کی اتنی گہری دھند چھائی رہتی ہے کہ اُس پار دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ مگر گونجتی سرگوشیاں کی افسانہ نگاروں نے اجتماعی سطح پہ اپنے فن کے زور پر ایک ایسے امیجنری dystopia (ڈِسٹوپیا) کے خدوخال دریافت کیے ہیں جہاں رہتے ہوئے بھی سوسائٹی کا عام فرد مکمل طور پر بے خبر ہے۔ گونجتی سرگوشیاں کے ڈبل ایم اے مجید، مومنہ، لچھی، ایلے سارینا، ایمل، لیاقت حسین، ولی محمد، انار کلی، طیب، پھوپھی جان، اجالوں کے اندھیروں میں ڈوبا شوہر، سلکی، بے ڈھب بڑھیا اور منال جیسے بیسیوں کرداروں سے قاری کی ملاقات دھند کے اُس پار اپنے اندر کے سماجی ڈِسٹوپیا میں ہوتی ہے جس کا اُسے ادراک تک نہیں ہوتا کہ ریاستی بدحالی نے اُسے ایک ڈسٹوپین معاشرے کا فرد بنا دیا ہے۔

دراصل افسانے میں تخلیقی رویہ ہی وہ جادوئی ٹول کہلاتا ہے جس کے استعمال سے ایک ایسا حیران کن جھوٹا سچ تخلیق کرنا ممکن ہو جاتا ہے جس سے قاری کو یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ ایسا ہوا تو نہیں مگر ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ اِس معاملے میں مجھے خالقِ کل کا تخلیقی برتاؤ بہت پسند ہے جس نے تین کرداروں پر مشتمل کائنات کی پہلی متحرک کہانی لکھی مگر اُن کی باکمال تخلیقیت دیکھیے کہ اُنہوں نے کہانی کے بنیادی کرداروں سے قبل انکار کو تخلیق کیا اور اُسے عزازیل کا آتشیں وجود پہنا کر کہانی کا پہلا کردار مرکزی کرداروں سے قبل ہی کہانی میں داخل کر دیا۔ جب آگ میں لپٹے ہوئے اِس انکار ( عزازیل ) کا ٹکراؤ کہانی کے دونوں خاکی کرداروں سے ہوا تو کہانی آفاقیت اوڑھ کر کائنات میں پھیل گئی اور روئے زمین کہانیوں سے بھر گئی۔ یہ انکار اتنا بڑا محرک اور تخلیقی وسیلہ ثابت ہوا کہ کہانیوں کا لامتناہی سلسلہ آج تک نہیں تھما بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایلومیناتی ایسا خفیہ معاشرہ بھی اِسی انکار کے بطن میں ہی کہیں چھپا ہوا تھا۔

گونجتی سرگوشیاں میں بظاہر سات افسانہ نگار شامل ہیں مگر تخلیقی رویئے سات سے زیادہ تشکیل پا گئے۔ ابصار فاطمہ کا تخلیقی برتاؤ حقیقت اور خواب کے مابین ہے، وہ اپنی کہانی کے خدو خال حقائق کی دھجیاں اکٹھی کر کے بناتی ہیں اور فینٹیسی کی مانوس گزر گاہوں سے ہوتی ہوئی اپنی کہانی خوابناک فضا کی دہلیز پر جا کے ختم کر تی ہیں۔ ان کی کہانی کہیں کہیں کیلکولیٹڈ محسوس ہوتی ہے مگر سٹیٹمنٹل نہیں ہے البتہ مکالمہ ان کا ایک مضبوط ایلیمنٹ ہے۔
ثروت نجیب جادوئی حقیقت نگاری کے رتھ پر سوار اساطیر ی کرداروں کے ساتھ اپنے پیش رو سماجی منظر نامے میں اترتی ہیں اور وہاں سنائی دینے والی چیخ و پکار اور بکھری حقیقتوں کو جوڑ کر اپنی کہانی کا انتہائی منفرد چہرہ مکمل کرتی ہیں، بظاہر ان کا افسانہ افغانستان کے معروض کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے مگر ان کے افسانوں کی فضا افغانستان کے مقامی لوکیل سے نکل کر آفاقی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ وہ جس طرح کردار اور ان کی نفسیات کو پینٹ کرتی ہیں اس سے ان کے افسانے کرداری افسانوں کی باکمال سطح کو چھونے لگتے ہیں۔

سمیرا ناز کا افسانہ مرکب پلاٹ کے مقابلے میں منظم پلاٹ کے سنگم پر احساس کی گہری پرتیں لیے کھڑا ہے اور بقول حمید شاہد صاحب یوں لگتا ہے جیسے جھیلنے والے کا دم لے کر ٹلے گا۔ ان کے افسانوں میں تخیل کی پرواز بلندیوں پر ہے جبکہ ان کی کہانی دوسری لیئر میں سفر کرتی ہے۔ ان کے افسانے کا موضوع آج کا الجھا ہوا وہ انسان ہے جو اتنا ناخوش دکھائی دیتا ہے کہ وہ نفسیاتی سطح پر ڈسٹوپین معاشرے کا فرد محسوس ہوتا ہے۔

صفیہ شاہد کا افسانہ سچوئیشنل ہے یعنی پہلے وہ اپنے سامنے کی سماجی اذیتوں کو جھیلتی ہیں اور پھر اپنے لوکیل سے جڑی ہوئی ایک ایسی صورتحال تخلیق کرتی ہیں جو قاری کو اُس کے طلسم سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب وہ تخلیقی واردات کے بل بوتے پر افسانوی سچوئیشن سے قاری کو چونکا کر اُس کی آنکھوں پر حیرت تحریر کرتی ہیں۔

فاطمہ عثمان کا یہ کمال ہے کہ ان کا افسانہ اکہری سطح میں بھی اپنے متن میں کئی طرح کی سطحیں رکھتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں کی فضا تشکیل دینے کے لیے مکالمے کے ساتھ ساتھ کولاج کی تیکنیک بھی استعمال کرتی ہیں جبکہ بلیک ہیومر بھی ان کے ہاں ایک افسانوی ٹول کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے ان کے افسانوں کی فضا pessimist (قنوطی) ہونے کی بجائے ایک شگفتگی سی اوڑھ لیتی ہے اور اسی شگفتگی کے اندر سے ہی کرداروں کا انفرادی و اجتماعی دکھ رسنے لگتا ہے۔ عورت ان کی کہانیوں کا بنیادی محرک ہے جبکہ وہ کولاج اور مکالموں کو مرج کر کے اپنی کہانی کا چہرہ جوڑتی ہیں۔ یقیناً فاطمہ عثمان جب اکہرے سے تہہ دار افسانے کی طرف مراجعت کریں گی تو ان کے افسانوی کینوس میں کئی رنگ بکھر جائیں گے جو فکری سطح پر قاری کو کچھ نئے علاقوں کی طرف لے جائیں گے۔

فرحین خالد کا افسانہ اپنے میچیور اندازِ بیاں اور متنوع موضوعات کی بدولت احساس سے ادراک تک کا سفر قرار پاتا ہے۔ ان کا تخلیقی منظر نامہ انفراد کا حامل ہے، انسان چاہے مرد ہو یا عورت، کہیں نہ کہیں وہ اجنبی لمحوں سے ضرور لڑ رہا ہوتا ہے۔ اُن کے افسانوں میں ایسے لمحوں کی افسانوی تجسیم اتنے فنکارانہ اور فکری انداز میں ہوئی ہے کہ قاری ان کے کرداروں سے اپنا دامن نہیں چھڑا پاتا اور جب ان کے افسانوں کی فضا سے باہر نکل کر اپنی سماجی فضا میں داخل ہوتا ہے تو وہ فکری سطح پر اتنا میچیور اور توانا ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے اپنے آس پاس فرحین خالد کے کرداروں کا ادراک ہونے لگتا ہے۔

معافیہ شیخ نے جو افسانہ لکھا ہے وہ منظم پلاٹ کی اچھی مثالیں ہیں اور مختصر مختصر افسانہ ہونے کے باوجود اپنے متن میں کئی کہانیاں سنا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کہنے کے لیے مختلف تیکنیکوں کو برت کر اپنی کہانی کا چہرہ مکمل کیا ہے۔ مونتاج، مونو لاگ اور علامت کو مرج کر کے انہوں نے ایک ایسی تثلیث بنائی ہے جہاں سے ان کی کہانیوں کی مانوس فضا تشکیل پاتی ہے، البتہ اُن کے افسانوی کینوس میں علامت ایک ایسا ٹول ہے جنہیں وہ اپنا لیں تو یہ ان کا ایک مضبوط حوالہ بن سکتا ہے۔

سارتر نے سچے اور خالص ادب کے لیے کہا تھا:
“ایک ایسی داخلیت جو خارجیت کے جلو میں آئے، تقریر ایسے انداز میں بیاں ہو کہ اُس پر خاموشی کا شائبہ ہو، خیال جو اپنے آپ پر حیران ہو، عقل جو جنون کا لبادہ ہو، ابد جو تاریخ کا ایک لمحہ معلوم ہو، تاریخ کا لمحہ جو اپنی راہوں سے انسان کو ابد تک لے چلے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

گونجتی سرگوشیاں میں بلاشبہ مجھے سارتر کہیں کہیں سے جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔ میں اِس امید کے ساتھ گونجتی سرگوشیاں کی تمام افسانہ نگاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ یقیناً اُن کا اگلا افسانوی پڑاؤ اِس سے بھی زیادہ بھرپور اور منفرد ہو گا جہاں ہمیں متنوع موضوعات کے ساتھ ساتھ مرکب پلاٹ کی حامل تہہ دار کہانی کے انوکھے جہانوں میں رہنے کا موقع ملے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply