موت کے سوداگر۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی/قسط2

دس اقساط کی دوسری قسط

ٹیکسی سٹیشن کے حدود سے نکل کر کھلی سڑک پر چلتی اپنے مقام کی طرف بڑھ رہی ہے پیچھے بیٹھا شخص ٹیکسی کے شیشوں سے باہر کے مناظر دیکھ رہا ہے اس کی نگاہیں سامنے کی طرف سڑک پر مرکوز ہوجاتی ہے کچھ دیر بعد وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھ پڑتا ہے اور ڈرائیور کو ٹیکسی کی رفتار تیز کرنے کا کہتا ہے، ڈرائیور اثبات میں سر ہلا کر رفتار میں تیزی لاتا ہے اور کچھ دیر بعد ایک ہوٹل کے بلند و بالا عمارات کے سامنے رکھ جاتا ہے.

بیٹھا ہوا شخص اتر کر ٹیکسی والے کو کچھ نوٹ تھما دیتا ہے اور ہوٹل کے اندر چلا جاتا ہے، وہ داخلے کے بعد دائیں طرف لفٹ کی طرف بڑھتا ہے اور لفٹ کا بٹن دبا کر انتظار کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جانب دیکھتا ہے کچھ لمحے بعد لفٹ کا دروازہ کھل جاتا ہے وہ اندر داخل ہوکر دسویں منزل کا بٹن دبا دیتا ہے، لفٹ دسویں منزل پر پہنچ کر رک جاتی ہے اور دروازہ کھل جاتا ہے وہ باہر آتا ہے اور بائیں طرف مڑ کو کچھ فرلانگ پر موجود ایک کمرے کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، وہ دروازے پر ایک مخصوص انداز سے دستک دیتا ہے کچھ دیر بعد دروازہ کھلتا ہے اور وہ اندر چلا جاتا ہے.

اس کے داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر دیا جاتا ہے، وہ اندر آکر ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے اور اس آدمی کو کہتا ہے جس نے دروازہ کھولا تھا!

“دلاور صاحب کو آگاہ کردو کہ مال پہنچ گیا ہے”

جی سر، وہ آدمی جواب دیتا ہے اور ایک دوسرے کمرے کی طرف چل پڑتا ہے.

کچھ دیر بعد ایک کمرے سے ایک بوڑھا آدمی نمودار ہوتا ہے، سر کے بال سفید ہوتے ہیں اور اس کے بدن پر سفید رنگ کا لباس ہوتا ہے اور گلے میں ایک موٹا سا سونے کا زنجیر لپٹا ہوتا ہے وہ آتے ہی اس آنے والے آدمی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے اور پوچھتا ہے!

“ہاں بولو، کیا ہوا مال کا کوئی دشواری تو نہیں ہوئی یہاں تک پہنچانے میں؟”

دوسرا آدمی نفی میں سر ہلاتا ہے اور وہ بریف کیس کو اٹھا کر اس کے سامنے موجود میز پر رکھ کر آگے کی طرف سرکا دیتا ہے.

سفید لباس والا جس کا نام دلاور ہوتا ہے وہ اس بریف کیس کو وہی میز پر کھولتا ہے اور اس میں موجود سونے سے بنے ہوئے قریباً پچاس بسکٹس کو جگمگاتا دیکھ کر مسکرا دیتا ہے، پھر اس بریف کیس کو بند کرکے اس بریف کیس کو لانے والے سے مخاطب ہوتا ہے!

“ظفر مجھے تم پر خود سے زیادہ یقین ہے، یقیناً تم میرے بہت کام کے آدمی ہو مجھے تم پر ناز ہے بیٹے، ہاں اچھا ہوا یاد آیا تم ایسا کرو کہ مائیکل کے ساتھ آج رات کو ہمارے شوگر مل والے گودام میں ملو باقی وہ وہاں آپ کو سب کچھ سمجھا دے گا”

سفید بالوں والا بوڑھا خاموش ہوجاتا ہے اور پھر وہاں پر موجود ایک شخص کو اشارہ کرتا ہے وہ شخص آگے بڑھتا ہے اور ایک زرد کاغذی لفافہ سفید بالوں والے کی طرف بڑھا دیتا ہے، بوڑھا لفافہ لے کر اسے ظفر کی طرف اچھالتے ہوئے کہتا ہے!

“تمھارا آج کا انعام! اٹھا لو اور مزے کرو رات کو مائیکل کے ساتھ ملنا نہ بھولنا”

سفید لباس والا دلاور اٹھتا ہے اور دوبارہ اس کمرے کی طرف چل پڑتا ہے جہاں سے وہ باہر کو نکلا تھا.

وہ شخص جس کا نام بوڑھے دلاور نے ظفر پکارا تھا وہ لفافہ اٹھا کر کچھ کہے بغیر اٹھتا ہے اور دروازہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے.

سین بدل جاتا ہے

سکندر جب اپنے باپ کو غصے میں چھوڑ کر گھر سے نکلتا ہے تو وہ پھر اسی سڑک پر واپس آتا ہے جہاں سے وہ کھیتوں کی طرف سے گھر کو گیا تھا، سڑک پر آکر وہ نیچھے کچے زمین کو دیکھ رہا ہوتا ہے اس کی ذہنی کشمکش اس کو باقی ماحول سے بےخبر کئے ہوئے ہوتی ہے، تب اچانک وہ ایک جگہ پر رک جاتا ہے اور سر اٹھا کر اپنے اردگرد دیکھتا ہے پھر جیسے اسے کچھ یاد آجاتا ہے وہ واپس گھر کی طرف مڑ کر دوڑ لگاتا ہے وہ گلیوں میں تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے بالآخر وہ اپنے گھر کے دروازے پر آکر رک جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ داخل ہونے کے لئے دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے اس کا ہاتھ رک جاتا ہے وہ کچھ لمحے ایسے ہی کھڑا رہتا ہے تب وہ اپنا بڑھا ہوا ہاتھ واپس کھینچ لیتا ہے، اور گھر میں داخل ہونے کے بجائے پھر سے سڑک کی طرف جاتا ہے اس بار اس کی ہر جنبش قدم میں کچھ لڑکڑاہٹ نمایاں ہوتی ہے، وہ تیز تیز چلتا ہوا اس جگہ پر پہنچتا ہے جہاں سے اس کو شہر جانے کے لئے گاڑی ملنے کی امید ہوتی ہے، وہ بہت دیر تک کھڑا رہتا ہے لیکن کوئی گاڑی اس کے پاس سے نہیں گزرتی وہ سخت دھوپ میں سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹہلتا رہتا ہے کہ اچانک اسے دور سے کسی گاڑی کے آنے کی آواز سنائی دیتی ہے، جب وہ گاڑی قریب آجاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ ایک ٹرک ہوتا ہے وہ ایک ہاتھ آگے کر کے ٹرک والے کو رکنے کا اشارہ کرتا ہے اور مسلسل ہاتھ ہلاتا رہتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ ٹرک کی رفتار میں کمی ہوتی ہے اور بلاآخر ٹرک اس سے کچھ آگے جاکر رک جاتی ہے، وہ دوڑتا ہوا ٹرک کے ڈرائیور والی طرف گھوم کر جاتا ہے اور ڈرائیور سے کہتا ہے!

“بھائی مجھے شہر جانا ہے گاڑی آ نہیں رہی کیا آپ مجھے شہر تک لے جائیں گے؟”

ڈرائیور کچھ دیر اس کی طرف دیکھتا ہے پھر ہاتھ کے اشارے سے ٹرک میں بیٹھنے کا کہتا ہے، سکندر دوسری سیٹ کی طرف چل کر ٹرک میں چڑھ جاتا ہے اور ٹرک چل پڑتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply