کَشف الاسرار۔۔۔۔۔ کاشف علی

ہُن دَسو کی لِکھاں؟۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتنے ہی مضمون خیالات سوالات اور سوالات کے جوابات ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں، کبھی کوئی مضمون ذہن میں ترتیب دے رہے ہوتے ہیں تو کوئی نیا کٹا کھل جاتا ہے۔ ابھی ذہن ادھر متوجہ نہیں ہو پاتا کہ کچھ نئے مسائل جنم لے چکے ہوتے ہیں ابھی ان سے نبرد آزما نہیں ہو پاتے کہ کوئی نیا فتنہ منہ کھولے نگلنے کو تیار کھڑا ہوتا ہے۔
سیاسی منظر نامہ بدلتا ہے، کبھی مثبت خبروں سے دل بہلا رہے ہوتے ہیں تو اک دم منفی خبروں کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ شام و کشمیر پہ رنجیدہ دل طالبان کی امریکہ ٹھکائی پہ خوش ہونے ہی لگتے ہیں کہ فلسطین پر مظالم دیکھ کر آنسو نکل آتے ہیں۔
ریاست مدینہ کی گونج سن کر خوشی سے نہال ہو رہے ہوتے ہیں تو آسیہ کیس آجاتا ہے۔ سیاستدانوں کی پکڑ پہ اک دم جوش میں آتے ہیں کہ ان کو   ملنے والی معمولی سزا واپس ہوش میں لے آتی ہے اور ہم سوچ رہے ہوتے ہیں اس سامراجی نظام سے نہ تو دولت واپس آتی نظر آرہی ہے اور نہ ہی ان مگرمچھوں کو کوئی خاص سزا۔ وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ جیل میں بیٹھے ان ملک لوٹنے والے چوروں کو محض چند سال کی قید اور دولت ساری ہڑپ ہوتی نظر آتی ہے۔
ایمانیات پہ لکھنے بیٹھیں تو اخلاقیات، احکامات، اور فرائض و نوافل کے سوالات اٹھنے لگتے ہیں ان پہ بات مکمل نہیں ہوتی تو ظاہر اور باطن کی بحث درازے پہ دستک دے رہی ہوتی ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے کہ ہم کسی خاص فرقہ وارانہ معاملات پہ نہیں لکھتے ورنہ روز اک نیا مناظرہ اور پھر اس اک مناظرے پہ نہ جانے کون کون سے مسائل پہ مزید کتنے مناظرے اور بحثیں جنم لیتیں۔ اور ہم ملک و ملت اور امت کے مسائل پر بہت کچھ اور ہر روز نیا دیکھ رہے ہیں۔
مڈل ایسٹ کے مسائل، چین میں اسرائیل کے معاملات، معاشی جنگیں، سیاسی تبدیلیاں، بدلتے نظام، اور دنیا پریشان۔ ڈالر کی بربادی امریکہ کی پسپائی تو اسرائیل کی چڑھائی، فرانس میں مظاہرے ٹیکسیشن کانظام ، سامراجی غلام، سعودیہ کے مسائل ، پاکستان کے میزائل ،ترکی کے حالات ، برما کے واقعات ، فواد چوہدری کے نت نئے انکشافات اور پھر بوکاٹا کی آوازوں میں تڑپتی لاشیں ، خون کے چھینٹے ، بم دھماکے ، دہشت گردوں کاحملہ، کلچرل وار اور کبھی ٹک ٹاک کافتنہ تو نت نئے ایپ، اک ہی وقت میں کئی اہم ترین ٹوئیٹر ٹرینڈ ، بھانت بھانت کی بولیاں بولتے نت نئے بیانات دیتے سیاستدان، ہر کوئی انقلاب کے نعرے مارتا اک موقع اور دو اور پھر دیکھو تو ہر کوئی چہرہ بدلے نئے نام کے ساتھ آن دھمکا، کبھی ڈیم کی باتیں تو کبھی فوج کو باتیں ، مجاہدوں کے دیس میں، تحریک آزادی کشمیر ، چین کے مظالم ، امریکہ کی درندگی ، روس کی سفاکی ، اسرائیل کی ہولناکی ، فرانس کی پابندیاں ، ہالینڈ ناروے کی شان رسالت میں گستاخیاں، خوارج کے حملے اور فرقوں، پارٹیوں، تنظیموں، ملکوں ، نسلوں، علاقوں اور ذاتوں میں بٹے مسلمان ہی ہر طرف لہولہان ، ترقی کی امیدیں، تبدیلی کی خواہشیں مگر نظام وہی رہے گا تو تبدیلی کیسی ؟ امت ،جہاد، قتال، خلافت ، وحدت حدوداللہ جیسے الفاظ تو ہمیں اوپرے اوپرے لگتے ہیں۔ تو کیا برطانوی سامراجی نظام کی جگہ ہم فرانسیسی سسٹم لائیں یاسعودی ماڈل یا پھر کوئی میڈ اِن چائنہ نظام چلے گا۔ کس نےکتنا لوٹا؟؟ بڑا چور کون؟ بیورو کریسی غلط ہے یا بنیاد ہی ٹیڑی ہے؟؟ گوادر سے چاہ بہار تک گھوم آئیں انڈیا کی دھمکیاں ، این ڈی ایس کا رونا ، ایران سے معاملات ، تو پی ٹی ایم کا فساد۔
ساری امت مسلمہ اور خاص طور پہ عرب اور سارا مِڈل ایسٹ بربادیوں اور جنگوں کی اڑتی دھول دیکھ کر اہل پاکستان کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ سربراہی کرے کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہے ایٹمی قوت اور مضبوط فوجی طاقت ہے۔ عربوں پہ فوج کا خوف طاری رکھا گیا جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت فوج ہی نہیں بنا سکتے تھے صدام حسین اور قذافی کے تجربات نے ان کو فوج نہ بنانے پہ مجبور کیا۔
خیر’ افریقہ میں بھوک ہے شام میں سردی سے ٹھٹھرتے لوگ اور برما کے بھوکے لوگ آج بھی بھوکے ہیں اور ویسے ہی مجبور جیسے شروع دنوں میں تھے اس سارے منظر نامے میں فلاح انسانیت فاونڈیشن یا جماعت الدعوہ جوکہ تھر بلوچستان ہو یا کشمیر کا میدان، امریکہ اور ہندوستان ان سے پریشان ہیں، اس کی وجہ کشمیر، شام و برما کے مظلوموں کا دکھ بانٹتے فلسطینیوں کے آنسو پونچھتے فرقہ واریت سے دور اُمت و مِلت کی بات کرتے پارٹی بازی سے بچتے سلف صالحین کے راستوں پہ چلنے والوں کا جوں ہی نام لیں یا حافظ سعید صاحب کی پکچر فیس بک پر اَپ لوڈ کر بیٹھیں تو آئی ڈی بلاک اب بتائیں کیا لکھیں؟ مشکل سے 5000 فرینڈ مکمل کئے یا کبھی نہ بھی کر پائے تو بلاک۔ کبھی کسی حکومت پہ تنقید کی تو کسی کو برا لگا تو آئی ڈی بلاک۔ فیس بک پہ تو چلو مسئلہ تھا ہی اب ٹوئیٹر نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ہُن دَسو کی لِکھاں۔۔؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply