ادا تیری۔۔۔نصرت یوسف

کوئی معمولی کام تو اس نے بھی نہ کیا۔ گراں ترین خرچہ برداشت کرتے ہوئے ابا جی کے مدرسہ کے لیے سولر پینل  لگوا دیا۔ ابا جی کی خوشی اس روز دیدنی تھی۔ بجلی کی غیر حاضری نے گرمی کی چلچلاتی دوپہر میں بچوں کو بے حال کیا، نہ ہی گرمی کی تپش کا احساس ہونے دیا۔ حساب کے کلیے بچے جلد سیکھ گئے۔ جماعت سے باہر بہانے بہانے سے باہر آنے والے بھی غائب تھے اور تو اور مکرم جیسا شرارتی اور منچلا بھی اتنا سکون سے کام میں لگا تھا گویا یادداشت متاثر ہوچکی ہو۔ یا نیند میں بیٹھے ہوں۔

مجموعی طور پر بجلی پری کی چھڑی کی  مانند بہت کچھ بہتر کر گئی  تھی۔ اباجی بھی نہال ہوئے جارہے  تھے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ طمانیت کا احساس چہرے سے ٹپک رہا تھا۔ بار بار کہتے”یا اللہ میرے بیٹے کو اس سے بھی بڑھ کر ٹھنڈک دینا جیسے اس نے میرے مدرسہ کے بچوں کو دی۔” اسے قیامت کی سخت ترین گرمی سے بچانا۔

امی جی کے کلیجے میں اولاد کے لیے باپ کی دعا بہار بن کر اتر رہی تھی۔ سرشاری کی کیفیت میں بیٹھی تھیں۔ وہ بھی یہ سن رہا تھا۔ وہ تو یہی چاہتا تھا کہ باپ کی ایسی والہانہ دعاؤں میں شامل رہے۔ “لیکن کیا کرتا؟” سوچ ہی سکتا تھا کہ اتنی قدرت اس کے پاس نہ تھی, کچھ ایسا کرسکتا جو اس کے بھائی نے کیا۔

دل کڑھ رہا تھا پر کوئی راہ سجھائی دی ،نہ سبیل نکلی۔بھائی تو اس کے لیے بھی بہت کچھ کرتا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے بہت محبت تھی لیکن یہ دعا کا معاملہ تھا جو اس کی بھی حاجت تھی۔ اور یہ بات بھی نہ تھی کہ اباجی اس کو دعا نہ دیتے تھے۔ ابا کی دعاؤں کی برسات اس پر بھی ہوتی تھی۔ لیکن نہ جانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ اگر ٹھنڈک والی دعا اسے نہ ملی تو وہ محروم رہ جائے  گا۔

اباجی اپنے مدرسہ سے واپس آکر لیٹے ہوئے تھے۔ کمزور سے چہرے پر عمر کی مشقت واضح تھی۔ چہرے کی لکیریں مشقت کی کہانیاں سنا رہی تھیں۔ امی جی  گرم یخنی لائیں اور آواز دی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی جس میں تھکان واضح تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ماں کے ہاتھ سے پیالہ لیا اور ان کو کندھوں سے تھامتا صوفے پر بیٹھ گیا۔

اماں جی کے ہاتھوں میں جھریاں تھیں لیکن ان سے خوشبو آرہی تھی اس نے ان کے ہاتھ تھام کر سانس اندر کھینچا تو وہ ہنس پڑیں۔ ہنہ “بچہ ہے ابھی تک” ہٹ۔ انہوں نے پیار سے چپت رسید کی۔ ہاں بالکل۔۔وہ لاڈ سے کہتا قریب میز پر رکھا زیتون کے تیل کا ڈبہ تھامتے ہوئے بولا “اباجی پیر ادھر لائیں،کتنی خشکی جمی ہے۔”

تیل ہاتھوں میں لےکر اس نے جو مساج شروع کیا تو ابا جی نے ایسے آنکھیں بند کر لیں جیسے سکون ان کی رگ رگ میں اتر رہا ہو۔ درد چلتا بن رہا ہو۔ نہ جانے بند آنکھوں سے ابا جی کے ہونٹ کن الفاظ کے ساتھ ہل رہے تھے مگر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔۔اباجی کی آواز وہ بمشکل سن سکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آبرو رکھ لے ہمیشہ اے رب! میرے بچے کی۔ رکھ لے بس رکھ لے! قطرہ قطرہ ٹھنڈک اس کے اندر اترتی گئی ۔ وہ بھی مراد پا گیا تھا۔ اب اس کے چہرے پر بھی طمانیت کا احساس اُبھر رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply