• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /ہم اور ہمارے خرچے(2)-حامد عتیق سرور

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /ہم اور ہمارے خرچے(2)-حامد عتیق سرور

ہندوستان میں انگریز سرکار کی صوبائی حد بندی زیادہ تر ان کی فتح سے ذرا پیشتر کے سیاسی انتظام پر مبنی تھی۔ برطانوی راج میں حکومت کرنے کا چار قسم کا نظم تھا۔ اوّل صوبے (جہاں انگریز نے جنگ کے ذریعے قبضہ کیا یا جہاں کے لوگ غدر میں انگریز کے خلاف لڑے ) ، دوم شاہی ریاستیں (جنہوں نے غدر میں انگریز کا ساتھ دیا اور بعد میں انگریز سرکار کے باج گزار رہے ) سوم، کچھ لوکل انتظام کے علاقے (جہاں کے زعما کو انگریز پولیٹیکل ایجنٹ یا اس سے ملتے جلتے کسی انتظام سے چلایا کرتے تھے ) اور چہارم برما، سیلون اور نیپال وغیرہ جن کو عمومی طور پر ہندوستان کے انتظام سے الگ رکھا گیا۔

یہ انتظام ایک قسم سے برطانوی نو آبادیاتی نظام کو least resistance کے اصول پر چلانے کا ذریعہ تھا اور عوام کی فلاح کا خیال اس کا غالب محرک ہرگز نہیں تھا۔ البتہ سرکار انگلشیہ کے ہاں حکومت کرنے کے لئے divide and rule کی پالیسی ایک communal tension پیدا کیے رکھتی تھی جو آگے چل کر دو قومی اور اس سے ملتے جلتے بہت سے نظریوں کو بڑھنے کی جگہ دیتی گئی۔ انگریز دور میں صوبوں کی rearrangment میں موجود یہ ٹینشن لارڈ کرزن کی بنگال کی تقسیم کے واقعات اور قائد اعظم کے چودہ نکات ( سندھ کو بمبئی سے الگ کیا جائے اور دوسرے کسی صوبے کی حدود میں ایسی تبدیلی نہ کی جائے کہ اکثریت اقلیت میں بدل جائے ) سے عیاں ہے۔

ہمارے مشرقی ہمسائے کو آزادی کے بعد یہ بات بہت جلد سمجھ آ گئی تھی کہ نئے معروضی حالات میں صوبائی حدود، وفاقی وسائل کی صوبوں کو منتقلی اور صوبائی خودمختاری کی اس legacy کو ایک نئے آزاد سیاسی تناظر  میں کیسے دیکھنا ہے۔

1949 میں  جب ہمارے سیاسی اکابر نہایت عرق ریزی سے قرارداد مقاصد تشکیل دے رہے تھے، عین اسی وقت ہمارے ہمسائے میں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں آئین کی منظوری کا عمل جاری تھا جس تک پہنچنے میں ہمیں علامتی طور پر سات مزید سال اور حقیقت میں 24 سال انتظار کرنا پڑا۔

انڈیا کی اس دستور ساز اسمبلی میں آئین ڈرافٹ کرنے کی کمیٹی کے انچارج ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے جنہیں گاندھی کے اصرار پر کانگریس نے یہ ذمہ داری تفویض کی  تھی۔ مجوزہ آئین کی پہلی ہی شق پر ( جہاں انڈیا کو صوبوں اور ریاستوں کو یونین قرار دیا گیا تھا) پر ایک ممبر کے ٹی شاہ نے اعتراض کیا کہ یہاں لفظ یونین کی بجائے فیڈریشن استعمال ہونا چاہیے۔ اس پر امبیڈکر بولے کہ  میں نے یہ لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کہ ہم آئین میں کسی ریاست یا صوبے کو ملک سے الگ ہونے کا حق نہیں دے رہے اور وفاق کا لفظ اس صورتحال کو cover نہیں کرتا۔

ابھی پارٹیشن کا صدمہ گہرا تھا اور کانگریس اور ہندوستانیوں کے ہاں مزید تقسیم کا چرکہ سہنے کا یارا نہ تھا سو آج تک انڈیا کی مرکزی حکومت یونین آف انڈیا کہلاتی ہے۔ اسی آئین کی شق 3 میں بھارت کی مقننہ کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی وقت سادہ اکثریت سے  صوبائی حدود میں ردّو بدل کر سکتی ہے۔ قانونی طور پر صدر صاحب ایسے بل کو دو تین مہینے کے لئے متعلقہ صوبے / ریاست کو مشورے کے لئے بھیجنے کے پابند ہیں مگر کسی صوبائی حکومت کی مخالف رائے اس بارے میں کوئی binding حیثیت نہیں رکھتی۔

چنانچہ اسی اصول پر سب سے پہلے بمبئی صوبے کے دو ٹکڑے کر کے مہاراشٹر اور گجرات کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس پر واویلا بھی ہوا اور بات سپریم کورٹ تک بھی گئی جہاں مرکزی پارلیمنٹ کے اس اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت جہاں 1947 میں تقسیم سے پہلے عملی طور پر 11 صوبے  565 شاہی ریاستیں اور 6 مرکزی علاقے تھے، 1956 میں 14 صوبے اور 6 مرکزی علاقے بن گئے اور 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 29 صوبوں اور 7 مرکزی علاقوں میں بدل گئی۔

وسائل کی تقسیم کی بات چلی تو وفاقی وسائل میں صوبائی حصہ 30 فیصد مقرر ہوا ،جو اَب بڑھتے بڑھتے 41 فی صد کو پہنچا ہے۔ یہ درست ہے بھارت میں اشیا پر سیلز ٹیکس کا اختیار صوبوں کے پاس ہے مگر یونین اور سٹیٹس کے مجموعی تخمینوں کا جائزہ لیں تو ان کے ہاں وفاق کسی صورت سے تنگ دست نہیں۔ ان کا دفاع کا خرچ بھی ہم سے زیادہ ہے اور وفاقی سبسڈی بھی ہم سے بہت بڑھ کر۔ اختیار اور انتظام کی صورت دیکھیں تو وفاقی اور صوبائی محکموں کی تقسیم قریب ہم سے ملتی جلتی ہے مگر یونین/ وفاق نہ تو ہماری طرح دارالحکومت تک محدود ہے نہ اپنے کسی کام کے لئے صوبے کا دست نگر۔

جب انڈیا بہتر انتظام اور مرکز گریز قوتوں سے نمٹنے کے لئے انتظامی اور لسانی / قومی صوبے بڑھا رہا تھا۔ اختیارات اور محاصل کے تقسیم کا نظام بہتر کر رہا تھا وہاں ہمارے ارباب حل و عقد ایک دوسری ہی راہ پر چلتے ہوئے 1955 میں ہمارے حصے آئے چار چھے صوبوں کا ون یونٹ بنا رہے تھے۔ معکوس سمت کا یہ سفر ہماری قومی زندگی کو ایسے موڑ پر لے آیا جہاں ہمارا ریاستی وجود بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ جس بھارت کو ہمارے دور بیں رہنما 15 حصوں میں ٹوٹنے کا خواب دیکھ رہے تھے وہ تو قائم رہا مگر دسمبر 71 میں ہمارے قومی وجود کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اس دلیل سے قطع نظر کہ پاکستان کے ہزار میل دور وجود کے دو حصوں پر مشتمل ہونا غیر فطری تھا یا یہ گمان کہ چند غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر مادر وطن کے ٹکڑے کیے ، اگر بہ نظر غایت دیکھیں تو انتظامی تقسیم سے بے زاری اور ذیلی قومیتوں کا انکار شاید پاکستان ٹوٹنے کا سب سے بڑا سبب تھا۔

بھارتی پنجاب میں مرکز گریز رجحان، سکھوں کی جداگانہ مذہبی شناخت اور پاکستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے بہت زیادہ تھا۔ ہر چند کہ اس کو عملی طور پر ختم کرنے میں آپریشن بلیو سٹار، اندرا کی موت اور نتیجتاً سکھوں کی اَن گنت لاشوں کا کردار رہا ہو گا۔ مگر اگر غور سے دیکھیں تو مشرقی پنجاب کی علیحدگی پسندی کی بیخ کنی نومبر 1966 ہی میں کر دی گئی تھی جب پنجاب کو ہریانہ اور پنجاب میں تقسیم کیا گیا ( مزید برآں پنجاب کے کچھ علاقے ہماچل پردیش کو بھی دے دیے گئے تھے ) ۔ کچھ ایسا ہی انتظام (چین، برما اور پاکستان/بنگلہ دیش کے ڈر سے ) بھارت کے بنگلہ دیش سے پرے کے شمال مشرقی علاقوں میں بھی کیا گیا جہاں آسام کو میزورم، اروناچل پردیش، ناگا لینڈ اور میگھالیہ میں بانٹا گیا۔

ہر چند کہ ہماری درسی کتب میں اس کا ذکر نہیں مگر  مجیب کے چھ نکات 1966 میں منظر عام پر آ چکے تھے جس میں دفاع اور کچھ شرائط کے تحت کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ سب کچھ دو حصوں میں بانٹا جانا تھا۔ ایک طرف تو یہ نکات مشرقی پاکستان میں علیحدگی کو ہَوا دے رہے تھے تو دوسری جانب یہی نعرے سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی قوم پرست جماعتوں کو پاپولر کر رہے تھے۔ چنانچہ اسی دباؤ نے نہ صرف 1970 میں ون یونٹ کے خاتمہ کروایا بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973 کے آئین کی تشکیل میں، حد درجہ بڑھی ہوئی صوبائی خودمختاری اور صوبائی حدود کی sanctity اسی مومینٹم کا شاخسانہ ہے۔

دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کے بعد بقیہ پاکستان میں شاید ایک unitary حکومت بھی کام دے جاتی۔ مگر یوں لگتا ہے کہ مشرقی حصے کی علیحدگی کا guilt ہمارے نئے آئین بنانے والوں کے ذہنوں میں بہت سے ان دیکھے اور انجانے خوف طاری کرتا رہا اور ہماری قومی سوچ ایک بار پھر امبیڈکر کی سالمیت، نسبتاً مضبوط مرکز اور فعال صوبوں سے ہٹ کر کمزور مرکز اور کسی حد تک خود مختار صوبوں کی طرف چل پڑی۔

ہر چند کہ آگے چل کر بہت سی جمہوری اور غیر جمہوری ترامیم نے 2010 تک ایک مضبوط مرکز کو ہی قائم رکھا مگر ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہماری عمرانی معاہدے میں صحیح وقت پر مناسب فیصلے نہ کرنے کی fault lines بہت نمایاں ہو کر دکھنے لگی ہیں۔

اب یہ عالم ہے کہ ہمارے آئین کی فیڈرل لسٹ کے پہلے حصے کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہیں۔

وفاقی محاصل کا قریب 60 فی صد صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو جاتا ہے اور وفاق کے حصے صرف 40 فی صد آتا ہے۔ صوبوں کے پاس اپنے ٹیکس لگانے کا اختیار ہے مگر آئین کی شق کے مطابق کوئی بھی وفاقی ٹیکس صوبوں کو 60 فی صد حصہ دیے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ ایک اور ترمیم کے تحت صوبوں کا وفاقی محاصل میں حصہ کم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف نئے صوبے بنانے کے عمل پر 1973 سے ہی وہ قدغنیں ہیں کہ متعلقہ صوبے کی super majority کے بغیر صوبائی حدود میں تبدیلی ناممکن ہے۔

صوبائی حدود کی اس قید کو ہٹا دیں تو شاید مستقبل قریب میں پنجاب سے تین، سندھ، کے پی اور بلوچستان سے دو دو صوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس سے شاید پنجاب کی مرکز پر اجارہ داری بھی نہ رہے اور بقیہ تین صوبوں میں موجود لسانی اور ethnic کشمکش کا رجحان بھی کم ہو جائے۔ مگر ہماری تاریخ کا بوجھ، جمہوری روایات کا فقدان اور صوبوں اور قومیتوں کا باہمی mistrust ہمیں اس راہ پر کبھی بھی جانے نہیں دے گا۔

موجودہ vertical تقسیم کا NFC ایوارڈ اس انداز کا ہے کہ وفاق کا وجود اور اس جڑے ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ وفاق کا موجودہ سال کا خرچ 9500 ارب ہے اور ٹیکس آمدن میں حصہ صرف 2850 ارب ( جس میں صوبوں کی ترقی کے لئے لئے گئے قرض کا سود ہی 3900 ارب ہے ) ۔ اس کے مقابلے میں صوبے نسبتاً زیادہ خوشحال ہیں۔ مثلاً سال 2021 کے اعداد و شمار دیکھیں تو بلوچستان کا خرچ 400 ارب جس میں وفاق سے حصہ 376 ارب اور اپنی آمدن 24 ارب۔ پنجاب کا خرچ 2182 ارب، وفاق سے حصہ 1762 ارب، صوبائی آمدن 420 ارب ( زرعی انکم ٹیکس صرف اور صرف ڈھائی ارب روپے ) ۔ سندھ کا خرچ 1306 ارب، وفاق سے حصہ 933 ارب، صوبائی آمدن 283 ارب۔ خیبر پختونخوا کا خرچ 804 ارب، وفاق سے حصہ 727 ارب صوبائی آمدن 85 ارب۔

ان تمام صوبوں کے 2010 سے پہلے اور بعد کے اخراجات کو دیکھیں تو قریب وہی Ratios ہیں جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے پہلے تھیں۔ ہونا تو یہ تھا کہ صوبوں کو دیے گئے اضافی وسائل، اضافی ذمہ داریوں کی طرف جاتے مگر اگر تفصیلات میں دیکھیں تو انتظامیہ، امن امان، تعلیم، سڑک اور صحت پر بیشتر وسائل خرچ ہو جاتے ہیں۔ زراعت، صنعت، خاندانی منصوبہ بندی، غریبوں کی کفالت پر اخراجات ابھی بھی نہایت کم ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان میں سے خاص کر پنجاب میں اجناس کے حوالے سے سرکلر قرضہ حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے رجحان کا شکار ہے۔

اب یا تو ہمارے اجتماعی تاریخی فیصلے غلط تھے یا ہم سے اپنے نیک ارادے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچائے گئے مگر حالت یہی ہے کہ جلد یا بدیر کم ازکم وفاق کی debt servicing کا بوجھ صوبوں اور وفاق میں تقسیم کرنا پڑے گا وگرنہ ملک کے دفاع، خارجہ امور، بین الاقوامی تجارت، خزانے اور کرنسی کا نظام چلانا دن بدن مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ ہونا تو شاید یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہونا، مگر میری رائے میں موجودہ راستے پر چلتے ہوئے ہمارا حال ونڈر لینڈ والی ایلس سا ہو گا جس نے جب کسی سے راستے کے بارے میں پوچھا تھا کہ ؛

Alice: ”Would you tell me, please, which way I ought to go from here?“
The Cheshire Cat: ”That depends a good deal on where you want to get to.“
Alice: ”I don’t much care where.“
The Cheshire Cat: ”Then it doesn’t much matter which way you go.“
Alice: ”…so long as I get somewhere.“
The Cheshire Cat: ”Oh, you’re sure to do that, if only you walk long enough.“

سو اس ”somewhere“ تک پہنچنے کا انتظار جاری رکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply