زاہدہ حنا!رقصِ بسمل کے آئینے میں۔۔دیپک بُدکی

”عورت ہونا، کہانیاں لکھنا، اختلاف کرنا , یہ ہمارے معاشرے کی تین خرابیاں ہیں۔ اور میں ان کا مجموعہ ہوں۔“
(زاہدہ حنا)
افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا کی نگارشات عصری حسیت کی آئینہ دار ہیں۔ان کاسیکولر مزاج، عقابی نظر اور تجزیاتی ذہن سونے پر سہاگا کا کام کرتے ہیں۔عمیق مطالعہ کی تو شوقین ہیں ہی،پیشے کے سبب انھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں تاریخی تنوع اور جغرافیائی بوقلمونی ملتی ہے۔ ادب، بغاوت اور انحراف ان کو ورثے میں ملے ہیں۔ پر دادا، مرزا عبدالستار بیگ نے تین جلدوں میں ضخیم تذکرہ صوفیا بعنوان’سالک السالکین فی تذکرہ الواصلین‘ رقم کی تھی۔ تصوف، تاریخ اور تہذیب کے موضوعات پر مضامین لکھنے کی تحریک والد کی دین ہے جبکہ داستان طرازی اور کہانی کا شوق انھوں نے اپنی ماں سے پایا ہے۔ان کے خاندان میں خواتین بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں۔زاہدہ حنا کا آبائی پیشہ منصفی اور سپہ گری ہے، خاندان کے کچھ افراد کو دربار تک رسائی تھی لیکن چند ایک نے بغاوت کا پرچم اٹھاکر سرکاری عتاب کو دعوت دی۔ ان ہی میں سے ایک ان کے والد ابولخیر تھے جن کو ۴۱/ برس قید بامشقت کی سزا ملی تھی حالانکہ خاندانی اثر و رسوخ سے سزا کی معیاد کم کر دی گئی۔ بعد میں انھوں نے ویدانت فلسفے سے متاثر ہوکر سنیاس لے لیا مگر وہ بھی راس نہ آیا۔

اگست ۶۰۰۲ء میں ملٹری ڈکٹیٹر کے ہاتھوں صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی (Pride of Performance) لینے سے انکار کرکے بچپن کی اس ڈرپوک لڑکی نے ادبی حلقے میں تہلکہ مچادیا باوجودیکہ اس سے کچھ سال قبل ہی انھوں نے صدر جمہوریہ ہند سے سارک لٹریری ایوارڈ لیا تھا۔ موصوفہ کی کئی کتابیں منصہ شہود پر نمودار ہوچکی ہیں جن کی تفصیل یو ں ہے: ’عورت زندگی اک زنداں‘(مضامین کا مجموعہ، 2004ء)؛ ’امید سحر کی بات سنو‘(کالموں کا مجموعہ 2011ء)؛ ’شہر زاد مغرب میں‘ (عربی سے ترجمہ 2011ء): ’ہلاکت گریز عالمی سیاست‘(ترجمہ، 2005ء)؛ قیدی سانس لیتا ہے (افسانے،1983ء)، راہ میں اجل ہے (چھ افسانے اور ایک مختصر ناولٹ1993ء)، ’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘ (افسانے 2007 / 2008ء)،رقصِ بسمل ہے (۳۱/ افسانے، 2011ء)؛ ’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘(ناولٹ، ہندی 2004ء، انگریزی2011ء)۔
زاہدہ حنا کا اصلی نام زاہدہ ابوالخیر ہے اور وہ ہندوستانی ریاست بہار (قدیم مگدھ)کے تاریخی شہر سہسرام میں ۵/ اکتوبر 1946ء کو پیدا ہوئیں۔1958ء تک گھر میں تعلیم حاصل کی، 1962ء میں کاسموپولیٹن گرلز سکول سے میٹرک پاس کیااور 1966ء میں اسلامیہ کالج فار ویمن، کراچی سے گریجویشن کی ڈگر ی لی۔ نویں جماعت میں قلم ہاتھ میں اٹھایا اور زاہدہ حنا کے قلمی نام سے لکھنے لگیں۔ بقول ان کی اردو معلمہ، حمراء خلیق،بارہ برس کی زاہدہ نے نویں جماعت میں سکول میگزین ’اِرم‘کے لیے ایک خوبصورت اور پختہ کار مضمون لکھا جس کے لیے انھیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کا پہلا باضابطہ مضمون ماہنامہ انشا،کراچی میں بعنوان ’دور جدید کا پیشرو یونان‘1962ء میں شائع ہواجبکہ پہلا افسانہ ماہنامہ ہم قلم، کراچی میں بعنوان ’فردوس گشتہ‘ 1963ء میں شائع ہوا۔دہلی، امروہہ، جہلم اور کراچی شہروں سے ان کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ 1970ء میں وہ مشہور شاعر جون ایلیا کے ساتھ ازدواجی رشتے میں بندھ گئیں۔زاہدہ حنانے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز 1962ء میں بطور کیشر کیا اور پھر 1964ء میں نیشنل بنک آف پاکستان میں ملازم ہوگئیں۔ اس کے بعد وہ صحافت سے وابستہ ہوگئیں اور تقریباًڈھائی برس تک وائس آف امریکہ سے منسلک رہیں۔1970ء سے 1972ء تک عالمی ڈائجسٹ کی مدیر رہیں۔ 1987ء میں بی بی سی کے ساتھ سوا سال کے لیے جڑ ی رہیں۔ پھر روزنامہ جنگ اور روزنامہ ایکسپریس کے لیے کالم نگاری کرتی رہیں۔ان کے کالم سندھی اخبار ’عبرت‘ اور ہندی اخبار ’دینک بھاسکر‘ میں بھی ترجمہ ہوکر چھپتے رہے۔

ہندوستان زاہدہ حنا کی جنم بھومی ہے اور پاکستان ان کی کرم بھومی مگر ان کے علاوہ وہ بنگلہ دیش، افغانستان،ایران، سری لنکا،میانمار، روس،امریکہ، چلّی اور دیگر ممالک سے اپنی کہانیوں کے پلاٹ اور کردار چنتی ہیں۔ وہ اپنی جڑوں سے شدید طور جکڑی ہوئی ہیں جس کے باعث ان کے بیشتر افسانوں میں ہندوستان کے قصے کہانیاں اور مناظر ملتے ہیں، ملک کے بٹوارے کا کرب ملتا ہے اور پھر ہجرت زدہ لوگوں کی غیر یقینیت اور عدم تحفظ کی تصریح ملتی ہے۔ اسی ناسٹلجیا کے سبب ان کے افسانوں میں داستانوی رنگ بھی پیدا ہوا ہے۔ وہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر مسلمانوں کے عظیم ماضی کی نشاندہی کرتی ہیں، ابن رشد جیسے مفکروں کی حصولیابیوں سے روشناس کراتی ہیں اور ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے تعمیر کیے ہوئے قلعوں،مقبروں،عمارتوں اور باغات کا ذکر کرتی ہیں۔ ان کے کئی افسانوں جیسے ’معدوم ابنِ معدوم۔۔۔‘،منزل ہے کہاں تیری‘، ’رانا سلیم سنگھ‘، کُم کُم بہت آرام سے ہے‘ اور ’ہوا پھر سے حکم صادر‘ میں ناسٹلجیا کی جذباتی مثالیں ملتی ہیں۔ نجیبہ عارف،صدر شعبہئ اردو (خواتین) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ان کے بارے میں فرماتی ہیں:
”زاہدہ حنا اس عالمگیر انسانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جو اپنی فکری و روحانی اقلیم کے اثبات سے اپنی شناخت حاصل کرتا ہے۔ انھوں نے مستعار لیے ہوئے خیالات اور ورثے میں ملنے والے تصورات کو صیقل کرکے اپنا نام روشن کرنے کا سہل راستہ نہیں اپنایا بلکہ خود اپنی ذات اور تجربات کی سنگلاخ زمینوں سے اپنے گوہر مراد کھود نکالے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ زاہدہ حنا ہمارے عصر کی آبرو اور ہمارے سماج کا قابل فخر اثاثہ ہیں۔“

زاہدہ حنا کا افسانوی کینوس بہت وسیع ہے۔ وہ اس کو فطرت کے ہر رنگ سے مزیّن کرنے کی کوشاں رہتی ہیں۔آرٹ اور موسیقی سے ان کی دلچسپی ان رنگوں میں مزید نکھار پیدا کرتی ہے۔ انسانیت کی علمبردار، سوشلسٹ فکر و سوچ،غریب و پسماندہ طبقوں سے ہمدردی اورعالمی امن کی خواہاں زاہدہ حنا کا نڈر اور بے باک قلم کسی تعصب کے بغیر انسانی مسائل پر روشنی ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں امن کے پیغامبر، گوتم بُدھ اور ان کی تعلیمات کاذکر بار بار آتا ہے۔ وہ تحریک نسواں کی زبردست حمایتی ہیں اور خواتین پر لگی پابندیوں جیسے گھر سے نہ نکلنے یا تعلیم حاصل نہ کرنے کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ بقول ادیب سہیل:
”زاہدہ حنا کے یہاں تاریخ و اساطیر سے آگہی اور اس کا گہرا شعور کہانی کو آگے بڑھاتا رہتا ہے بلکہ اس کی تعمیر میں جا بجا مضبوط ستون فراہم کرتا جاتا ہے۔ اس کے بیشتر افسانے کی خوبی یہ ہے کہ یہ تمثیلی اور علامتی فضا رکھنے کے باوجود اپنے کہانی پن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔“

’رقص ِ بسمل ہے‘ کا دوسرا ایڈیشن الحمد پبلی کیشنز لاہور نے 2017ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں 13/ طویل افسانے شامل ہیں۔ پہلا افسانہ ’آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کر ے کوئی‘ ِسوویت روس کے بکھراؤ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جس میں ایک بیلے ڈانسر کو قلب میں سوراخ ہونے کے باعث بچہ پیدا کرنے کی ممانعت ہوتی ہے پھر بھی وہ ایک پاکستانی سے شادی کرکے، اس کے ہمراہ جاکر سسرال میں بچے کو جنم دیتی ہے اور خود راہ ِعدم اختیار کرتی ہے۔دراصل ایک عورت کے اندر ماں بننے کی خواہش لامحدود ہوتی ہے اور وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس تخلیق کو حقیقت کا روپ دینا چاہتی ہے۔ ’پانیوں پر بہتی پناہ‘بنگلہ دیش کی ایک باغی قلم کار اور جرنلسٹ کی کہانی ہے جس کو مذہبی ٹھیکیداروں کے فرمان پر زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے انعام رکھا گیا ہے لیکن ایک غریب کشتی بان، جس نے ماضی میں اپنی بیٹی کو نرینہ عصبی سماج کی بلی چڑھا یا ہوتاہے،اس کو اپنی چلتی پھرتی کشتی میں پناہ دیتاہے اور لوگوں کی نظروں سے بچاتا ہے۔ کئی دوست احباب اس کو وہاں سے نکال کر مغربی ممالک بھیجنے کا ارادہ ظاہرکرتے ہیں مگر وہ اپنے ملک سے باہر نہیں جاتی ہے۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بنگلہ دیشی رائٹر تسلیمہ نسرین ذہن میں ابھر آتی ہے۔ ’معدوم ابنِ معدوم۔۔۔‘ بہت ہی دلسوز افسانہ ہے جس میں ایک حب الوطن کرنل معصوم حسین، جس نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کے آئی این اے(INA) میں ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جان داؤ پر لگائی تھی،کے مہاجر پوتے کو کراچی میں ہندوستانی سراغ رساں ایجنسی’را‘کا مخبر ہونے کی تہمت لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جاتاہے۔ ایک جانب مہاجرخوب دولت کماکر اپنے آبا و اجداد پر یوں طنز کرتے ہیں کہ ”آپ لوگ سو برس پرانے مکان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جس کی بنیادوں میں دیمک لگ چکی ہے۔“ مگر دوسری جانب خود ان کی قومیت اور وطن پرستی پر ہر لمحے سوال کھڑے کیے جاتے ہیں اور انھیں اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت ہر بار دینا پڑتا ہے۔ اپنا موروثی جاہ و جلال دیکھ کر پوتے علی اکبر کے منہ سے مندرجہ ذیل الفاظ ابل پڑتے ہیں:
”اس لیے کہ دادا میاں آپ چھہ سو برس سے اس زمین پر ہیں۔ تو آپ اس برگد کی طرح ہوئے جو زمین سے جتنا اوپر نظر آتا ہے۔۔۔اس سے کہیں زیادہ گہرائی میں اور کہیں زیادہ دور تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ آپ کو اور دادی بیگم کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ یہاں گڑے ہوئے ہیں، اور ہم؟ ہم سبز شیشے میں سانس لیتے ہوئے منی پلانٹ کی طرح ہیں۔۔۔ جن کا زمین سے کوئی ناتا، کوئی رشتہ نہیں۔“

افسانہ ’منزل ہے کہاں تیری‘ میں مدن کی معشوقہ عالیہ امریکہ سے اوشا کی شادی کے لیے تحفے لے کر کراچی پہنچتی ہے جہاں اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں انہدامِ بابری مسجد کے ردِّعمل میں کراچی کے مقامی ہندوؤں پر حملے کیے گئے،غریب اوشا کا باپ مارا گیا جبکہ اوشا نے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔غرضیکہ ہندوستان میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کا خمیازہ پاکستان کی اقلیت کو اٹھانا پڑا۔’رقص مقابر‘ میں افغانستان کی تباہی کو اجاگر کیاگیا ہے کہ کیسے پڑھے لکھے لوگ وہاں سے بھاگ نکلے اور پاکستان میں پناہ لے کر وہاں کی زمین کے پیوند ہوگئے۔ طالبان نے نہ صرف خواتین کی تعلیم پر روک لگائی بلکہ ان کو گھر سے باہر نکلنے پر بھی پابندی لگائی جبکہ مرد کونسی کتابیں پڑھیں گے اس کا فیصلہ بھی وہی کرنے لگے۔ افغانستان کی اس شورش نے وہاں کے تابناک ماضی کو خاک میں ملادیا یہاں تک کہ بے ضرر بدھ کے مجسموں کو بھی مسمار کردیاگیا۔بقول افسانہ نگار،”شہر میں اناج عنقا، دوائیں ناپید، شہر یخ دان، گھر برف دان۔باپ اور بھائی جہاد کا لقمہ، مائیں اور بہنیں گھروں میں جبراً و حکماً قید۔ یہ بچے کہاں جائیں؟“اس پس منظر میں لوگ انسانی ہڈیوں کا کاروبار کرنے لگے تاکہ کچھ کمائی ہو اور پیٹ کی آگ بجھ سکے۔ افسانہ ’بہ ہر سو رقص ِ بسمل بود‘ میں ناہید نجف دھمکیوں کے باوجود اقلیتوں خاص کر ایران کے بہائیوں پر ہوئے ظلم و تشدد پر تحقیق کرنے نکلتی ہے جبکہ اس کا بھائی انسانی بہیمیت کی تصویر کشی کرتا ہے، انجام کار دونوں لقمہئ اجل بن جاتے ہیں۔

’رانا سلیم سنگھ‘ کہانی ہے ایک راجپوت پینٹر کی جو ایک تھیٹر سے وابستہ بنگالی رقاصہ میرا سین سے والہانہ پیار کرتا ہے۔ اس کی معشوقہ راجستھان کی مشہور حسینہ ’بنی ٹھنی‘ جیسی لگتی ہے۔ بدقسمتی سے میراسین ہندوستان کے سفر کے دوران حادثے میں مر جاتی ہے جس کے سبب وہ بھی خود کشی کرلیتا ہے۔ اس افسانے میں فنی اظہار اورمختلف ادوار میں اظہار کے بدلتے طریقوں سے متعلق رانا سلیم اپنے پاکستانی دوست اور سرکاری افسر احمد مسعود سے ان حادثات کا ذکر کرتا ہے جن سے وہ گزرا ہوتا ہے۔ بقول احمد مسعود بٹوارے کے بعد سب کچھ یعنی آثار قدیمہ، تعمیرات،باغات یہاں تک کہ شہیدبھی ترکے میں ہندوستان کو مل گئے اور پاکستان کی جھولی میں کچھ بھی نہ آیاجس کے جواب میں رانا سلیم کہتا ہے ”تم تاریخ کا کیک بھی کھانا چاہتے ہو، اسے رکھنا بھی چاہتے ہو۔اتہاس تو دھرتی سے جڑا ہوتا ہے، ہم جب دھرتی سے ناتا توڑ لیں تو اتہاس سے ناتا خود ہی ٹوٹ جاتا ہے۔“ افسانہ ’کُم کُم بہت آرام سے ہے‘ خط کی شکل میں لکھا گیا افسانہ ہے جس میں چائلڈ ہیلتھ ڈاکٹر کُم کُم اپنی دادی ماں کو ٹیگور کے کابلی والا سے لے کر آج تک کے افغانستان کا ارتقابیان کرتی ہے۔ چشم دیدہونے کے باعث ڈاکٹرکابل میں ہوئی قتل و غارت کا حقیقی منظرنامہ پیش کرتی ہے۔اپنی صعوبتوں کے باوجود وہ طنزاً کہتی ہے کہ ”یہی کہیے گا کہ کابل میں کُم کُم بہت آرام سے ہے۔“وہ کابل کا منظر یوں بیان کرتی ہے:

یہاں ہر گھر کی دیوار پر موت کا سایہ ہے، ہر گلی اور ہر بازار میں خون کی لکیریں ہیں۔رحمت بابا تو جانے کب کا رخصت ہوا، اس کی بیٹی بھی اب کہیں نہیں رہی ہوگی۔اس کی اولادیں جانے سوویت سینکوں کی گولی سے چھلنی ہوئیں یا امریکی بمباری سے، یا شاید فاقے سے مر گئی ہوں۔یہاں ہر طرف تباہی کا راج ہے، اس ملک کا ہر شہر کھنڈرہے۔۔۔۔۔ہمیں تو نوالہ کھانے اور نیند لینے کی فرصت نہیں تھی۔ ہندوستانی، جرمن اور جاپانی ڈاکٹروں کی ہماری ٹیم شہر شہر پھرتی رہی ہے۔ ہم صبح سے شام تک اور رات کو جنریٹروں کی روشنی میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے بدن سے کلسٹر بم کے ٹکڑے اور ریزے چنتے رہے، بارودی سرنگوں سے اڑ جانے والے ہاتھوں اور پیروں کے گھاؤ سیتے رہے۔ خون کی بُو میرے اندر بس گئی ہے۔“

’جاگے ہیں خواب میں‘میں عراق سے لوٹ آئی جرنلسٹ لالہ دانیال دہلی پہنچ کر بھی امریکہ کی بر بریت کے باعث عراق کی تباہی کے مناظر خواب میں دیکھ کر سہم جاتی ہے۔ہرطرف بمباری، عورتوں کی بے حرمتی اور بھوک سے تڑپتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں۔لالہ دانیال کو جمنا و دجلہ دونوں لہو رنگ دکھائی دیتے ہیں کہ اسے ماضی میں انگریزوں کے ہاتھوں دہلی کی غارت گری یاد آتی ہے۔نتیجتاً وہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ افسانہ ’تنہائی کا چاہِ بابل‘ میں9/11 کے بعد عرب اور ایشیائی نژاد شک و شبہ کے گھیرے میں آجاتے ہیں۔ کل تک سچ بولنے والوں کو فیلسوف کہہ کر اور اب انھیں دہشت گرد کہہ کر مار دیا جاتا ہے۔سمیر جو یہودی تھا اور کئی زبانیں جانتا تھا کو بھی شبہ کی بنا پر سیل میں بند کیا جاتا ہے۔ ’نیند کا زرد لباس‘ ایک تیرہ برس کی افغانی لڑکی کی کہانی ہے جو تعلیم پانے کی شوقین ہے مگر اسے یہ شوق پورا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ افسانہ افغانی قبائیل کی کٹّر پنتھی سوچ و فکر کی عکاسی کرتاہے اور ساتھ ہی امریکا کی تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ افسانے میں حقوق ِنسواں اور تعلیم نسواں پر فوکس کیا گیا ہے۔ افسانہ ’تقدیر کے زندانی‘ برما (میانمار) میں فوجیوں کی بہیمیت اور بربریت کی داستان ہے جس کے خلاف ایک نحیف خاتون، آنگ سانگ سو چی، کی رہنمائی میں برما کے بودھ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرکے سینہ سپر ہورہے تھے۔یانگون(رنگون) میں عرفان مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور اپنے فوجی دادا جو وہیں شہید ہوا تھا، کی قبر یں دیکھنے کا تمنائی ہے حالانکہ اس کو دوسری قبر ملنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔آخری افسانہ’ہوا پھر سے حکم صادر‘حاصل مجموعہ ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا یہ فکر انگیز افسانہ ایک ہندوستانی لڑکی کی کہانی ہے جو آکسفورڈ میں ایک پاکستانی کو دل دے بیٹھتی ہے، اس سے شادی کرکے اپنوں سے دور ہوکر پاکستانی شہریت قبول کرتی ہے مگر وہاں نہ صرف ہندوستانی و بہاری ہونے کے سبب ہدف ملامت بن جاتی ہے اور گھریلو تشدد کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ اس کی شادی بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ دو ملکوں کے تناؤ کی وجہ سے وہ اپنے والد کے آخری درشن نہیں کر پاتی اور بھری دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ ہاتھ میں لیے تنہا ہوجاتی ہے۔افسانے میں پاکستانی فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں بنگلہ دیشیوں پر ہوئی قتل و غارت اور بہیمیت کو بڑی ہنروری سے اجاگر کیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسانہ نگار نے اپنے افسانوں میں کئی زندہ کردار پیش کیے ہیں جیسے ’پانیوں پر بہتی پناہ‘ کی کندن حسین اور رحیم چاچا،’بہ ہر سو رقصِ بسمل بود‘ کی ناہید نجف‘ اور ’ہوا پھر سے حکم صادر‘ کی نادرہ اور مائیکل والکاٹ وغیرہ۔یہ کردار انسانیت، روشن ذہنی اور حوصلہ مندی کے پیکر ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے یہاں مختلف ممالک اور غیر وابستہ ماحول کی منظر نگاری کی بہترین مثالیں بھی ملتی ہیں۔چند اقتباسات ذیل میں درج ہیں:
٭”کراچی اس مرتبہ اسے کچھ زیادہ ہی بدلا ہوا لگا۔ سڑکوں پر سلاخ دار دروازے اُگ آئے تھے۔ ہواؤں میں دہشت گردی تھی اور فضاؤں میں وحشت۔ شہر اب گولیوں کی دھن پر رقص کرتا تھا۔ وطن کو ترک کردینے والاہجرت کا تمغہ اب گلے کی طوق بن چکا تھا۔(منزل ہے کہاں تیری)
٭”وہ اندر داخل ہوا، یہ ایک بڑا کمرہ تھا، بے ترتیب، تازہ رنگوں کی خوشبو درودیوار سے پھوٹتی ہوئی، کئی کینوس دیواروں پر آویزاں تھے، کئی دیوارسے ٹکا کر رکھ دیے گئے تھے۔ ایک کینوس ایزل پر تھا اور ادھورا تھا، وہ شاید اسی پر کام کر رہا تھا۔ فرش پر، تپائیوں پر کتابوں کے ڈھیر تھے۔ ایک کونے میں ایک زنگ آلود ہاون دستہ رکھا تھا، شیشے کے مرتبان تھے جن میں سے خشک پھول اور جڑی بوٹیاں جھانک رہی تھیں، کسی عطار کی دکان کا منظر تھا۔ (رانا سلیم سنگھ)
٭”۔۔۔ایراوتی ایک دریا ہے جو برما کے گھنے جنگلوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس کے راستے میں اُگے ہوئے ٹیک اور پاڈوک کے پیڑ جب کٹتے ہیں تو ہاتھی ان سینکڑوں من بھاری لٹھوں کو کھینچ کر ایراوتی کے کنارے لاتے ہیں جہاں انھیں شہتیروں سے بنے ہوئے بجروں پر لاد دیا جاتا ہے۔ دریا کی لہروں پر ڈولتے ہوئے یہ بجرے منڈالے تک آتے ہیں اور جہازوں پر چڑھا دیے جاتے ہیں پھر سات سمندروں کا سفرکرتے ہیں۔ برما کے جنگل دور دراز شہروں میں صوفوں، الماریوں،مسہریوں، میزوں اور کرسیوں کا روپ دھار کر سانس لیتے ہیں۔(تقدیر کے زندانی)
کہیں کہیں پر افسانہ نگار طنز کا بھی بڑی ہنر مندی سے استعمال کرتی ہیں۔ان کے یہ نشتر سیدھے نشانے پر لگ جاتے ہیں۔مثلاً:
٭”ہیون سانگ اور فاہیان اور ابن بطوطہ ہمارے زمانے میں ہوتے تو دیکھتے کہ سی آئی اے یا کے جی بی کے ایجنٹ کیسے نہیں کہلاتے۔ان دونوں کے لیے کام کرنے کے الزام سے بچ نکلتے تو انھیں ’را‘ کا ایجنٹ ثابت کرنا تو بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ (رقص مقابر)
٭”یہ سر زمین قابیل ہے، آدم کے قاتل بیٹے کی بسائی ہوئی۔شاید اسی لیے اس کی خاصیت ہوچکی ہے کہ تادیر کسی کی حکومت برداشت نہیں کرتی۔“(رقص مقابر)
٭”جب میں نے میڈیکل کالج میں پہلی مرتبہ Heart Dissection کیا تو اس میں بے اختیار اللہ ایشور، ہندو مسلمان کو ڈھونڈا تھا لیکن وہاں تو صرف مسلز، وینز اور آرٹریز تھیں۔ (کُم کُم بہت آرام سے ہے)
٭”۔۔۔یہاں تاریخ پڑھانا بھی کیسا عجیب مرحلہ تھا۔ یہ تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہوکر جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ پر ختم ہوجاتی ہے۔“(ہوا پھر سے حکم صادر)
زاہدہ حنا کے افسانے مقصدی اور فکر انگیز ہیں۔ وہ قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور یہ سوچ قارئین کو اندھیرے سے اجالے کی طرف لے جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ افسانہ نگار باہمی رواداری اور سیکولر سوچ کی علم بردار ہیں اس لیے ان کے افسانے بھی اسی نظریے کے عکاس ہیں۔ اس حوالے سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
٭”اللہ اکبر۔۔۔بجرنگ بلی۔۔۔ست سری اکال۔۔۔سارے خدا گڈمڈ ہوگئے تھے اور تمام مذاہب ایک دوسرے سے گتھے ہوئے تھے۔ان کے درمیان کوئی ریفری نہیں تھا اور ان کے درمیان ایک نہیں کئی گیندیں تھیں۔ وہ ان کے پیچھے دوڑ رہے تھے اپنی تلواریں، ترشولوں اور کرپانوں سے اچھال رہے تھے۔“(منزل ہے کہاں تیری)
٭”جلا دو، جلادوکتابوں کو جلا دو، گرا دو، گرادو تہذیب افرنگ کی ہر نشانی گرادو۔ کھرچ دو، کھرچ دوہر تصویر کو، ہر تحریر کو کھرچ دو۔ کچل دو، کچل دو ہر ساز کو، ہر آواز کو کچل دو۔ موسیقی حرام ہے اور مصوری شرک، ٹیلی وژن شیطان کا چرخہ۔ گھر گھر بت کدے ہیں۔ اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ۔“(رقص مقابر)
٭”ہاں میں تمام بڑے شہروں کو ظالم کہتا ہوں۔ ان میں آدمی زیادہ دنوں رہ جائے تو انسان نہیں رہتا، جزیرہ بن جاتا ہے۔ دوسروں سے کٹا ہوا۔اپنے بدن کا، اپنی خواہشوں کا قیدی۔ دوسروں سے اس کی روح کا مکالمہ ختم ہوجاتا ہے۔
(رانا سلیم سنگھ)
٭”آپ خود سوچیں دادی ماں کہ جنھوں نے اپنے جیتے جاگتے لوگ، اپنی پوری نسل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردی، ان سے اس بات کی کیا شکایت کہ انھوں نے مہاتما بدھ کی وہ مورتیاں ڈائنامائٹ سے، توپ کے گولوں سے کیوں اڑا دیں۔
(کُم کُم بہت آرام سے ہے)
مجموعی طور پر مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامّل نہیں کہ زاہدہ حنا بر صغیر ہندو پاک کے مشترکہ گنگا جمنی کلچر کی بے باک نسائی آواز ہے جن کی رگوں میں اس دھرتی کی تاریخ بہہ رہی ہے۔ان کا بیانیہ تاریخ کی ریشہ دوانیوں سے مخلوط رہتا ہے تاہم کبھی کبھار یہ افسانوں کو بوجھل بناتا ہے۔ انھیں مذہبی بنیادوں پر تقسیم وطن کے کرب نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔وہ ہندوستانی موسیقی، پرانے فلمی گانوں اور ہندوستانی آرٹ خاص کر منی ایچر آرٹ کی دلدادہ ہیں اور پاکستان میں میٹھی اور شیریں اردو زبان بولنے والوں کی کمی محسوس کرتی ہیں۔ زاہدہ حناکے افسانے دنیا کی ہر اس جگہ کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں جہاں سرکاری یا فوجی دہشت گردی کے سبب رعایا ظلم و جبر سہنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور ان کی یہی خاصیت انھیں ہم عصر افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام عطا کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنے انقلابی فکر و خیالات سے اردو ادب کی آبیاری کرتی رہیں گی۔

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply