ختم ہونا شام کا۔۔۔(15)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(1)
ختم ہونا شام کا اک مرحلہ ہے
رات کی اندھی چڑیلیں چیختی ہیں
آسماں کی گیلی رسّی سےبندھے بے بس اندھیرے
کالی قربانی کے بکروں کی طرح گردن بریدہ
نزع کے عالم میں گرتے، ہانپتے ہیں

ختم ہونا آج کی شب کا بھی بھاری مرحلہ ہے
جانتا ہوں، کس جگہ چپکا کھڑا ہوں
بیسویں منزل کے “کانڈو” میں
کُھلے” ٹیرِس” میں تنہا۔۔۔
دور باہر دیکھتا ہوں۔۔۔
اوقیانوسی ہوائیں
دُھند، دھوئیں ، تیل کی بو سے لدی پھندی ہوئی
چہرے سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں
تو یہ احساس ہوتا ہے
کہ میں نیو یارک میں ہوں

(2)
صبح ہے پنجاب کے اس شہر میں
جس کے کسی شہرِ  خموشاں میں
مرا ماضی ابھی تک دفن ہے۔۔۔
یادوں کے کتبے

لا محالہ لوگ پڑھتے ہیں
تو کہتے ہیں ، یہیں پر
ستیہ پال آنند کا بچپن، لڑکپن اور جوانی
اپنی ابدی نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔

صبح ہے پنجاب کے اس شہر میں
اس وقت جس میں سائیکل، رکشے، سکوٹر اور کاریں
دوڑ میں مصروف ہیں ، لوکل بسوں کا
آنا، جانا جاری و ساری ہے ۔۔۔
بچے اپنے اسکولوں کی جانب
تیز قدموں سے رواں ہیں ۔۔۔ زندگی
معمول کی مانند چلتی جا رہی ہے

صبح ہے پنجاب کے اس شہر میں
جس کے کسی اک گھر میں تم بھی رہ رہی ہو

(3)
دیکھ سکتا ہوں کہ تم اپنی تھکانیں
اقتصادی مشکلوں کی داستانیں
رات کی بے خوابیوں کی ڈائریاں
تکیے کے نیچے ٹھونس کر اب اُٹھ گئی ہو

دیکھ سکتا ہوں کہ ٹھنڈا،نیم جاں سا
ٹوسٹ ، اک کپ چائے کا

یہ ناشتہ
اس جسم و جاں کی
آبیاری کے لیے کافی نہیں ہے
جو ضعیف العمر والد
اور سدا بیمار ماں کا بوجھ اپنے
ناتواں کندھوں پہ رکھے چل رہے ہوں۔

دیکھ سکتا ہوں کہ تم اب
آٹھ گھنٹوں تک پڑھاؤ گی کسی اسکول میں ۔۔۔
اور شام کو جب
لوٹ کر آؤ گی ، تو ساری تھکانیں
وسوسے دن بھر کے
اپنی سائیکل کے “کیریئر” پر
بیگ میں پوشیدہ رکھ کر
ہنستے چہرے سے کہو گی
“ماں، تمہارے واسطے انگور لائی ہوں۔۔۔
ذرا دیکھو تو ان کو
ذائقہ کیسا ہے ان کا ”

دیکھ سکتا ہوں، تمہارے
پھول سے ماتھے پہ شکنیں پڑ گئی ہیں
دھوپ نے رنگت کو کچھ سنولا دیا ہے
بال روکھے، ہونٹ نیلے پڑ گئے ہیں
تم زیادہ عمر کی لگنے لگی ہو

(4)
اوقیانوسی ہوائیں
مجھ کو پھر اک بار اپنے
بیسیویں منزل کے “کانڈو” میں اکیلا
لا پٹختی ہیں ۔۔۔جہاں میں
کالی قربانی کے بکرے کی طرح باندھا گیا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم ہونا شام کا اک مرحلہ ہے، جانتا ہوں
ختم ہونا آج کی شب کا بھی بھاری مرحلہ ہو گا یقیناً
ختم ہونا زندگی کا کس قدر آسان ہے
میں بیسویں منزل کی اونچائی پہ ہوں
یہ جانتا ہوں
(1988 )

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply