آٹے دال کا بھاؤ۔۔عزیز خان

میرے ملازم کو رخصت پر گئے آٹھ دن ہو گئے تھے ،ابھی تک اس کے آنے کی کوئی اطلاع نہ تھی، یہ ملازم بھی عجیب ہیں جاتے تو ہماری مرضی سے ہیں آتے اپنی مرضی سے ہیں۔میرا بیٹا کار لیکر یونیورسٹی گیا ہوا تھا بیگم نے فرمایا گھر میں سبزی ختم ہو گئی ہے کچھ کریں آپ ہی چلے جائیں، عسکری الیون کے گیٹ کے ساتھ ہی تو سبزی کی دوکان ہے۔

پولیس کی ملازمت میں رہ کر دماغ کافی خراب ہوجاتا ہے ،ایک اشارہ پر ہر چیز حاضر ہو جاتی تھی ہر شخص آپ کو پکڑ پکڑ کر بوتل چائے پوچھ رہا ہوتا ہے ایک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ مُرغی کی ٹانگ اور بس یا ویگن کی فرنٹ سیٹ صرف تھانیدار کے لیے ہوتی تھی۔

ایک لمحہ کے لئے خیال آیا سبزی اور میں ؟پھر دوسرے لمحے سوچا خان صاحب آپ ریٹائیر ہو چُکے ہیں ۔
پھر مجھے اپنے ایک محسن پولیس آفیسر کا قول بھی یاد آیا “ریٹائرڈ پولیس آفیسر اور چلا ہوا کارتوس ایک برابر ہوتا ہے”
اب مسئلہ سواری کا تھا عسکری الیون کا باہر والا گیٹ بھی کم از کم دو کلومیٹر دورہے یہ مُشکل بھی بیگم نے حل کی بولیں ریاض والے موٹر سائیکل پر چلے جائیں۔( ریاض میرے ملازم کا نام ہے)

ہم عسکری الیون کے فلیٹس میں رہتے ہیں اور میرا فلیٹ دوسری منزل پر ہےیہ بلڈنگ آٹھ منزلہ ہے اور ہر بلڈنگ میں بتیس فلیٹس ہیں ۔بلڈنگ کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی پارکنگ بھی ہے ہر پارکنگ پہ فلیٹ کا نمبر ہوتا ہے اور فوجی بھائیوں نے میرے فلیٹ کی پارکنگ تقریبا ً ایک فرلانگ دور رکھی ہوئی ہے ۔

بلڈنگ سے باہر آنے کے بعد میں اپنی پارکنگ میں پہنچا جہاں ریاض کا موٹر سائیکل بھی کھڑاہوتا ہے ۔میں نے موٹرسائیکل میں چابی لگائی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی ۔بڑی مشکل سے موٹر سائیکل اسٹارٹ ہوئی ۔اسٹارٹ ہوتے ہی موٹر سائیکل کے انجن سے خوفناک قسم کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔موٹر سائیکل کے اشارے ، پیچھے دیکھنے والے شیشے بھی غائب تھے ۔میں حیرانگی سے اس موٹرسائیکل کو دیکھ رہا تھا جو کچھ عرصہ پہلے بہت ہی اچھی حالت میں لے کردیا گیا تھا۔

میں اللہ کا نام لے کر موٹرسائیکل پر بیٹھ گیا ۔زمانہ طالب علمی میں موٹرسائیکل کی بہت سواری کی کبھی ہم دوست مل کر موٹرسائیکل پر چولستان میں شکار کھیلنے بھی جایا کرتے تھے ۔پھر میں نے بطور ٹریفک سارجنٹ بہاولپور بھی ہیوی موٹرسائیکل چلائی مگر ریاض کی موٹرسائیکل چلانا میرے لیے ایک خوفناک تجربہ تھا ۔

بڑی مشکل سے اللہ اللہ کر کے عسکری الیون کے گیٹ پر پہنچا جہاں سبزی کی دوکان ہے ۔راستہ میں مجھے پہلی دفعہ احساس ہواکہ کاروں میں بیٹھے ہوئے لوگ موٹرسائیکل اور سائیکل سوار کو کتنے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سبزی کی دوکان تک پہنچتے پہنچتے میراحلیہ مٹی اور گرد کی وجہ سے خراب ہوچکا تھا، بریک مارنےکے باوجود بھی ایسا لگا کہ میرا موٹرسائیکل سبزی کی دوکان کے اندر گھس جائے گا۔ جوں ہی میں نے موٹرسائیکل کا کلچ چھوڑا موٹرسائیکل ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہوا اور وہاں پر کھڑے ہوئے گاہک پریشان ہوگئے۔

سبزی کی دوکان پر کافی رش تھا کافی کاریں کھڑی ہوئی تھیں ۔جن میں صاحب اور بیگمات موجود تھیں ۔سبزی والے کے دو تین لڑکے بھاگ کر کار میں بیٹھے ہوئے گاہکوں سے آڈر لے کر آتے اپنی مرضی سے سبزی اٹھاتے ، لفافوں میں ڈال کر کارمیں پہنچا دیتے نہ کوئی ریٹ پوچھ رہا تھا نہ مہنگائی کا رونا رو رہا تھا۔

جب کافی دیر دوکاندارنے میری طرف توجہ نہ دی تو میرے اند ر کا پولیس والا جاگا ۔میں نے بڑے غصیلے انداز میں اسے کہا میں بھی یہاں سبزی لینے آیا ہوں ۔دوکاندار نے مجھے جواب دیا بھائی رک جاؤ! دیکھ نہیں رہے میں مصروف ہوں ۔۔۔تھوڑی دیر بعد میں نے دوکاندار سے دوبارہ کہا تو اس نے مجھے غصے سے دیکھا اور بولا “کیا لینا ہے ؟” میں نے کچھ سبزیوں کے نام لیے جو اس نے مجھے تول کر دے دیں ۔

اتنی دیر میں گھر سے مجھے فون آیا کہ ٹماٹر بھی لیتے آئیں ۔۔۔۔میں نے دوکاندار کو کہا کہ مجھے ٹماٹر بھی چاہیے دوکاندار نے میری طرف دیکھا اُسکی نظروں سے مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہا ہو “بھائی یہ تمہاری اوقات سے باہر ہیں “بولا میرے پاس ٹماٹر نہیں ہیں شاید اسے میرے موٹرسائیکل کے حُلیے اور میرے حلیہ سے ایسا لگا کہ میں ٹماٹر لینےکی استطاعت نہیں رکھتا ۔

بہاولپور میں پوسٹنگ کے وقت،ٹریفک سارجنٹ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے

جب میں نے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے ایک گاڑی والے کو ٹماٹر دیے ہیں تو ساتھ کھڑے ہوئے ایک شخص نے دوکاندار کو میری سفارش کی ” دے دو یار اپنے ہی بھائی ہیں ” اس شخص نے اپنا تعارف کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ ایک کرنل کا خانسامہ ہے ۔اس نے  مجھ پورعب جھاڑتے ہوئے مزید  کہا  کہ اس کے صاحب کہتے ہیں کے “ہانڈی میں ایک ٹماٹر ڈالنا چاہیے اور باقی دہی ڈالنی چاہیے”۔

آخر کا ر بڑی منت سماجت کے بعد دوکاندار مجھے ٹماٹر دینے پر راضی ہوا ۔جب میں نے ریٹ پوچھا تو اُس نے 360 روپے کلو بتایا میں بڑے زور سے بولا “کیا” اتنے زور سے بولنے پر سب میری طرف متوجہ ہو گئے جیسے کہہ رہے ہوں جب ٹماٹر لینے کی سکت نہیں تو مت لو۔۔۔

میں نے اُس سے آدھا کلو ٹماٹر لیے اور اُنہیں بڑی حفاظت سے موٹر سائیکل پر لٹکا دیا مجھے اس دن معلوم ہوا کہ کتنی مہنگائی ہے مگر یہ مہنگائی صرف سفید پوش اور غریب لوگوں کے لئیے ہے امیروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

ندامت کا احساس دل میں ہوا کہ میں نے عمران خان کو کیوں ووٹ دیا؟دراصل ہمارے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے نواز شریف ،آصف زرداری اور اب عمران خان ۔۔۔پرنتیجہ وہی۔

میں نے دوکان سے تھوڑی دور جاکر موٹرسائیکل اسٹارٹ کیا اور پھر آہستہ آہستہ واپس روانہ ہوگیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم سب صرف انسان کی ظاہری بود و باش کو دیکھتے ہیں اگر میں بھی کارمیں آتا تو اسی دوکاندار کا رویہ بہت مختلف ہونا تھا سائیکل سوار ، موٹرسائیکل سوار اور پیدل چلنے والے لوگ بھی اسی عزت و تکریم کے مستحق ہیں جتنا کار پر بیٹھنے والے انسان۔

بیرون ملک سفر پر میں نے دیکھا کہ جب پیدل چلنےوالے سٹرک کراس کرتے ہیں تو کاروں والے انھیں عزت کے ساتھ راستہ دیتے ہیں مگر ہم پاکستانی اس کے بالکل الٹ ہیں کار والوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ سائیکل سوار یا پیدل چلنے والوں کو روند دیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش ہمارے لیڈر ان اور ان کے بچے بھی ایک دفعہ (ریاض والے )موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بازار سے ایک کلو ٹماٹر لا دیں تو انھیں بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply