میں پناہ مانگتا ہوں /ناصر عباس نیّر

گزشتہ ایک ماہ سے وہ بھیانک قسم کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ دیکھتےکہ وہ آگ کے شعلوں میں گھرے ہیں۔ان شعلوں سے عجب ہیولے بنتے ہیں اور اس کی جانب بڑھتے ہیں۔ کسی وقت وہ دیکھتے کہ ان کے کمرے میں گاڑھاسیاہ دھواں بھر گیا ہے،اور وہ باہر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے پاؤں اٹھتے ہی نہیں۔

وہ خواب سے جاگنے کے بعد آیتہ الکرسی پڑھتے۔ وضو کرتے اور قرآ ن کی تلاوت کرتے۔ اسی دوران انھیں شمس المعارف نے  اپنی گرفت میں لیا۔ کتابیں ،آدمی کے دل کا حال جانتی اور اپنی جانب بلاتی ہیں۔ مُلا نے اپنے شاگرد سے ایک رات ، کھانے کے بعد قہوہ پیتے ہوئے کہا تھا۔
چھٹے دن،عشا کی نماز کے بعد پھر وہ اس سائے سے ٹکرائے۔ ملا اس بار گرتے گرتے بچے۔ انھوں نے مشکل سے اپنا عمامہ سنبھالا۔ تسبیح عمامے میں الجھ گئی ۔ انھوں نے عمامہ اتارا ۔تسبیح الگ کی۔ اس تسبیح سے انھیں خاص نسبت تھی۔ ایک مسافر یہاں سے گزرا تھا، وہ انھیں تحفے میں دے گیا تھا۔ اس کا سر نفیس تھا اور چاندی سے بنا ہوا تھا۔ دھاگہ انافے ریشم سے بنا ہوا تھا۔ دانے قیمتی پتھروں کے تھے۔
جس لمحے مُلانے تسبیح الگ کرکے جیب میں رکھی اور عمامہ سر پر،اسی لمحے اس سائے نے ان کے کان میں جیسے سرگوشی کی۔
’’ ملا ، مجھے ملاقات کا شرف بخشیے‘‘۔ وہ سایہ بولا۔
مُلا سخت خوف زدہ ہوئے۔ انھیں لگا کہ یہ بھوت ہے۔ شاید شمس المعارف سے،یا ان کے خواب سے نکل کر ان کے سامنے آگیا ہے۔ مُلا کو کچھ سوچنے کا موقع نہیں ملا۔
’’آ پ ڈریں نہیں ، ہم ایک دوسرے سے اجنبی نہیں ہیں‘‘۔ وہ سایہ بولا۔
’’آ…..پ کو….ن …ہیں؟ مُلا پر لزرہ طاری تھا۔
’’میں بھوت نہیں ہوں۔ آسیب ،عفریت،بدروح، بیتال بھی نہیں ہوں۔ میں شیطان ہوں،آپ کی روزانہ ملامت کے پتھر کھانے والا‘‘۔ وہ سایہ رسان سے بولا۔
’’ش …ش …شے ..طاااا….ن …..‘‘مُلا کا حلق خشک ہوگیا،اور وہ تیزی سے واپس مسجد میں جانے کے لیے مڑے۔ ان کا پاؤں رپٹ گیا اور وہ گرتے گرتے بچے۔یہ خیال کرکے کہ مسجد خالی ہے ، وہ رک گئے۔ انھوں نے وہیں شیطان کو بھگانے کی کئی آیات پڑھیں۔مُلا تذبذب میں تھے ۔گھر جائیں کہ مسجد میں رکیں۔ تذہذب سے مُلا کو یقین ہوگیا کہ ان کا سامنا شیطان ہی سے ہے۔
’’مسجد میں ملاقات مناسب نہیں۔ آ پ گھر چلیے اور ڈریے نہیں‘‘۔ شیطان کا لہجہ مہذب تھا اور یہ بات مُلا کے اوسان خطا کررہی تھی۔
مُلا مسجد کے دروازے پر ہی رکے اور پوچھا:’’ ت…تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟ ‘‘ شیطان نے اسی نرم لہجے میں کہا: ’’ لوگ آپ سے کیوں ملتے ہیں؟ کچھ جاننے کے لیے، کچھ پوچھنے کے لیے ۔میں بھی …..‘‘ شیطان کی بات کاٹتے ہوئے ، مُلا نے کہا : ’’ مگر میں تم سے نہیں ملنا چاہتا‘‘۔ مُلا کا لہجہ دوٹوک ضرور تھا مگر انھیں لگ رہا تھا کہ جیسے ان کا دل کسی نے مٹھی میں کر لیا ہے،اور ان کے لیے سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے سخت نقاہت محسوس کی اور ماتھے پر پسینہ۔
’’ملا ، آ پ گھبراکیوں رہے ہیں؟ میں آ پ کے لیے اجنبی تو نہیں ہوں۔ آ پ ہزاروں بار میرے بارے میں لوگوں کو بتا چکے ہیں،اور اس تفصیل اور اعتماد سے کہ جیسے میری ایک ایک رگ سے واقف ہیں۔ میری ایک ایک بات سے۔ میری صورت، خصلت، میری ساری بدی سے۔ جیسے یہ سب آ پ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور میرے سلسلے میں آپ کو کوئی شک نہ ہو۔جسے جانتے ہوں، اس سے ڈرکیسا؟‘‘۔شیطان کے لہجے میں اب شکایت تھی۔
’’وہ سب میں نے پڑھا اور سنا ہے‘‘۔ ملا بدستور گھبرایا ہوا تھا۔
’’اس پر ایمان بھی تو رکھتے ہو‘‘۔ شیطان بولا۔’’ یہ بھی ایمان رکھتے ہو کہ عزرائیل جان لے سکتا ہے، عزازیل نہیں۔ا س لیے کیوں ڈرتے ہو؟ ‘‘
’’ت …ت…تم مجھ سے کیا جاننا یا پوچھنا چاہتے ہو ؟ ‘‘ مُلا نے یہ کہنے سے پہلے کئی سورتیں دہرائیں ۔
’’ میں کئی لوگوں کے پاس گیا ہوں۔ کوئی میری مدد نہیں کرسکا۔شاید آ پ میری مدد کرسکیں۔ میں زمانوں سے کیا کیا جھیل رہا ہوں، مُلاشمس الدین۔ آ پ گھر میں بیٹھ کر میری بات اطمینان سے سنیے۔‘‘ شیطان نے درخواست کے انداز میں کہا۔
’’اگر ….میں ..نہ سنوں ‘‘۔ ملا نے کچھ ہمت کی۔
’’تو میں یہ سمجھوں گا کہ آ پ کا علم دین ایک ڈھونگ ہے۔ آ پ کسی گمراہ ،مایوس، دھتکارے ہوئے کی اس وقت بھی مدد نہیں کرسکتے ،جب وہ آ پ کے دروازے پر آیا ہو ۔ابھی گزشتہ جمعے خطبے میں ایک کتاب کاحوالہ دے کر ،آپ کہہ رہے تھے کہ اسلام میں ایسے عالم کا کوئی مقام نہیں جو دوسروں کوفائدہ نہ پہنچائے ‘‘۔ شیطان کے لہجے میں ایک ایسی مایوسی در آئی تھی ،جس سے مُلابالکل واقف نہیں تھا۔
’’لیکن اسی کتاب میں یہ بھی للھا ہے کہ علم کو نااہلوں سے بچانا چاہیے۔‘‘ مُلا نے شمس المعارف سے لائی گئی، شیطان کی دلیل کا ردّ پیش کیا۔اسی لمحے مُلا کو اسی کتاب سے ایک اور بات بھی اچانک یاد آئی۔ عالم علوی سے عالم سفلی کو مدد پہنچتی ہے۔
’’ نااہل کون ہے کون نہیں؟ یہ بحث، مُلا چھوڑیے۔ نااہل ، اہل بننے کی صلاحیت سے محروم ہوسکتا ہے، نیت سے نہیں۔ خیر نااہل اگر اصرار کرے تب بھی …..‘‘ شیطان کے لہجے میں مایوسی پہلے سے بڑھ کر تھی۔
مُلا نے محسوس کیا کہ یہ انسانوں کی مایوسی سے یکسر الگ تھی۔ انسانوں کی مایوسی میں ایک نامکمل پن رہتا ہے؛وہ مکمل ہونے سے پہلے تحلیل ہونے لگتی ہے۔انسانوں کی مایوسی کا رنگ سرمئی ہوتاہے۔ شیطان کی مایوسی اماوس کی رات تھی۔ کامل ، بے داغ، گھنی، گہری … سمندر سے گہری ظلمت۔ مُلا کا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔اسے لگا کہ جیسے یا س کا ایک گھنا ،دبیز ، سیاہ بادل ا س کی جانب بڑھ رہا ہے۔
( زیر اشاعت پانچویں افسانوی مجموعے ’’جب تک ہے زمیں ‘‘ کے ایک افسانے سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply