مجھے یاد ہے(قسط نمبر 7)-حامد یزدانی

والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں
قسط نمبر 7

اردو بازار میں مجلس ِسیرت کا ماہانہ فرشی نعتیہ مشاعرہ ختم ہوچکا ہے۔ چائے کا انتظار ہے۔ والد صاحب آج صدرِ مشاعرہ ہیں۔ کچھ نوجوان بوجوہ تاخیر سے پہنچے ہیں۔ ابھی ابھی آئے ہیں۔ والد صاحب  انہیں بھی نعتیں پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ خالدبزمی صاحب کے سفرِ حرمین کے باعث عابد نظامی صاحب جو نظامت کے فرائض پر مامور ہیں کہتے ہیں یہ بات حفظ ِ مراتب کے منافی ہے۔ صدر کے علاوہ جناب علیم ناصری، جناب حفیظ تائب، جناب خالد بزمی،جناب صوفی افضل فقیر، جناب انور فیروزپوری، جناب عبدالعزیز خالد،جناب جعفر بلوچ،جناب قربان نظامی،جناب یونس حسرت امرتسری، منظور سعید احمد، جناب حسرت حسین حسرت،جناب خالد شفیق،جناب راجا رشید محمود،جناب منیر قصوری،جناب خالد علیم سبھی شعرا اپنا کلام پیش کرچکے ہیں  اور ویسے بھی صدرِ مشاعرہ کے کلام کے بعد مشاعرہ ختم ہوچکا ہے ۔ہاں، یہ نوجوان اب چائے کے دور میں بخوشی شریک ہو سکتے ہیں۔

والد صاحب مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ناظم ِ مشاعرہ کی رائے کا احترام کرتے ہیں تاہم سرِ دست اپنے ’’خصوصی صدارتی اختیارات‘‘استعمال کرتے ہوئے دیر سے آنے والے نوجوان شعرا کو پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں تاکہ ان کی نعتیں سننے کی سعادت سے محفل محروم نہ رہے۔
“آپ نے صدر ضیا الحق صاحب کے “خصوصی صدارتی اختیارات” کے معمول کاکیا  عمدہ استعمال کیا ہے۔” واااہ۔”جعفر بلوچ صاحب کہہ رہے ہیں۔بھرپور اجتماعی قہقہہ۔ سب محظوظ ہورہے ہیں ۔چائے کا دور مؤخر کرکے تاخیر سے آنے والوں سے بھی نعتیں سُنی جارہی ہیں۔
٭٭٭
مشاعرے کے بعداب چائے کا دورآغاز ہوا ہے۔ سب کے سامنے ایک ایک پیالہ اوررکابی رکھ دی گئی ہے ۔ ایک نوعمر لڑکا چائے دانی لیے ایک طرف سے باری باری سب کے پیالوں میں چائے انڈیل رہا ہے۔ چائے کا ایک دور مکمل ہوا۔  لڑکا بڑے مؤدب انداز میں چائے دانی تھامے پھر سے ایک ایک شاعر کے سامنے جاکر ان کے پیالوں میں چائے ڈال رہا ہے۔ ایک صاحب  اپنے کپ پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ مزید چائے نہیں چاہتے۔ چائے پر مامور لڑکا کہتا ہے:
’’ دیکھئے، میں حال ہی میں عرب سے لوٹا ہوں۔ وہاں یہ روایت ہے کہ جس کا پیالہ سیدھا پڑا ہو اسے مزید قہوہ چاہئے ہوتاہے۔ اگر آپ کو نہیں چاہیے تو پیالے کو اوندھا کر کے رکابی پر رکھ دیں۔ میں سمجھ جاؤں گا کہ آپ کو اور چائے نہیں چاہیے‘‘۔
حاضرین جلدی سے اپنے پیالے حسبِ خواہش سیدھے یا اوندھے کردیتے ہیں۔ والد صاحب اپنا پیالہ نہ سیدھا رکھتے ہیں نہ اوندھا بلکہ ترچھا کر کے رکابی پر رکھ دیتے ہیں۔ چائے دینے والا لڑکاٹھٹھک جاتا ہے۔ پوچھتا ہے:’’ اس کا کیامطلب ہوا؟ آپ کو چائے چاہئے یا نہیں؟‘‘۔ والد صاحب مسکراتے ہوئے  کہتے ہیں: ’’

برخور دار، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چائے دانی میں چائے بچی ہے تو پیالے کو سیدھا کرو اور انڈیل دو اور اگر نہیں ہے تو اوندھا کردو۔ میں خود تو’’ انکارِ چائے‘‘  کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ سن کر ساری محفل زعفران زار بن گئی ہے۔ حسرت صاحب بولتے ہیں: ’’ یزدانی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں انہیں ویسے بھی پیاس تو لگتی نہیں بس ’’ چیاس‘‘ لگتی ہے ’’چیاس‘‘۔۔۔‘‘ ایک اور بھرپور قہقہہ۔

٭٭٭
مشاعرہ گاہ سے پیدل گھر کا سفر جاری ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ والد صاحب مشاعرے کے بعد بہت دیر دوستوں سے خوش گپیوں میں مصروف رہے ۔ میں،یونس حسرت امرتسری اور کچھ دیگر احباب ان کا انتظار کرتے رہے۔ اللہ اللہ کر کے واپسی کا سفر شروع ہواہے۔ اردو بازار سے، اورینٹل کالج، چرچ روڈ،پرانی انارکلی، جین مندر سے ہوتے ہوئے مزنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اچانک حسرت صاحب ازرہِ تفنن کہتے ہیں : ‘‘ وہ کیا مصرعہ ہے حامدؔ؟۔۔۔ آج رہ رہ کر یاد آیا۔۔۔حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے۔‘‘ والد صاحب جو ہم سے دو قدم آگے چل رہے ہیں فوری مُڑتے اورمسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ وہ حضرتِ داغ کی بات تھی۔ میرے حوالے سے  پڑھنا ہو تو یوں پڑھئے: حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے،لیٹ گئے۔‘‘  مجھے لگتا ہے جیسے ارد گرد بکھر ی شب بھی ہمارے ساتھ مل کر کھلکھلا اٹھی ہو۔
٭٭٭
دلّی دروازے والے، دلّی  دروازے والے۔۔۔!‘‘ “
لوہاری گیٹ کے باہر کھڑاتانگے والا آوازیں لگا رہا ہے۔ میں والد صاحب کے ساتھ مزنگ اڈے سے ابھی یہاں پہنچا ہوں۔سڑک سے پار حامد حسن حامد صاحب کی کتابوں کی دکان اس وقت بند ہے۔وہ بھی شاہ محمد غوث لائبریری میں ہوں گے مجلسِ اردو کے ماہانہ مشاعرے میں شرکت کے لیے۔
تانگہ چل پڑا ہے۔ آج موسم کچھ اچھا نہیں۔ میں والد صاحب سے کہتا ہوں:’’ یہ مشاعرہ تو ہر ماہ ہوتا “ہے۔ ایک بار نہ بھی جاتے تو۔۔۔”
“ارے، نہیں۔ آج بہت ضروری ہے جانا۔ خالد شفیق صاحب نے بتایا ہے کہ جھنگ سے ہمارے پرانے دوست شیر افضل جعفری صاحب آرہے ہیں۔‘‘ والد صاحب قدرے جوش سے کہتے ہیں۔”


اچھا، اچھا وہی جعفری صاحب جو نثر بھی مقفٰی لکھتے ہیں! آپ کو خط کے آغاز میں یوں مخاطب کرتے ہیں: یزدانی، میرے دل جانی، فضائے شعر کی شادمانی ۔۔۔‘‘ میں کہتا ہوں۔
“ہاں، ان کا انداز ایسا ہی ہے۔ فطری ہے بناوٹی نہیں۔ بہت مخلص دوست اور عمدہ شاعر ہیں وہ۔۔۔اورپھر مشاعرے میں علیم ناصری صاحب، خالد بزمی صاحب، حافظ امرتسری صاحب اور کتنے اور احباب بھی تو مل جائیں گے۔”
٭٭٭
رات کے دس بج رہے ہیں۔ ہم لاہور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہیں۔مسافر راولپنڈی جانے والی پیسنجر ٹرین پر سوار ہو رہے ہیں۔خالد بھائی ٹکٹ لینے گئے ہیں۔ہم شاعری میں والد صاحب کے شاگرد زہیر کنجاہی صاحب کی دعوت پر مشاعرہ پڑھنے پنڈی جارہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مشاعرے میں شرکت کے لیے جو مختصر سا قافلہ تیار ہوا ہے اس میں والد صاحب اور میرے علاوہ  میرے بڑے بھائی سیّد خالد یزدانی، میرے عزیز دوست خالد علیم اورافضل اقبال اور سینئیرز میں سے ڈاکٹر تبسم رضوانی،یونس حسرت امرتسری، انور ملک اور راز کاشمیری شامل ہیں۔ طے ہوا ہے کہ رات والی ریل گاڑی سے سفر کیا جائے کہ ایک تو دن ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور دوسرے بھیڑ بھاڑکم ہوگی۔ایسا ہی ایک قافلہ گزشتہ ہفتے گوجرانوالہ گیا تھا راسخ عرفانی صاحب کی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کے لیے اور دوہفتہ قبل راز کاشمیری صاحب کی دعوت پر یومِ اقبال کا مشاعرہ پڑھنے۔ مرید کے میں نقش ہاشمی صاحب کے ہاں مشاعرہ غالباً پچھلے مہینے کی بات ہے ۔لاہور میں تو مشاعرے ہوتے ہی رہتے ہیں۔فیصل آباد، جڑانوالہ، ساہی وال اور اوکاڑہ بھی ادبی تقریبات میں پیچھے نہیں۔
لیجئے،خالد بھائی کے آتے ہی ہم سب سامنے کے ڈبے میں سوار ہوگئے ہیں۔گاڑی چل پڑی ہے۔ عجیب ریل گاڑی ہے یہ۔ چلتی کم اور رکتی زیادہ ہے۔ ہر دوسری گاڑی کو پہلے گزرنے کا حق دے رکھا ہے اس نے۔ ہم نوجوان تو جہاں گاڑی رکتی ہے، نیچے اتر جاتے ہیں اور چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں اور بڑے لوگ  والد صاحب کو گھیرے  رہتے ہیں۔ تازہ ترین اشعار سنے سنائے جارہے ہیں مسلسل اور متواتر۔ والد صاحب سے مشورۂ ِسخن ہورہا ہے۔گاڑی چلتے چلتے بلکہ یوں کہیے کہ رکتے رکتے صبح کے قریب پنڈی کے قرب و جوار تک پہنچی ہے۔ اب ایک باوردی ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہواہے اور ٹکٹ طلب کررہا ہے۔ خالد بھائی سارے ٹکٹ اس کے حوالے کردیتے ہیں، ٹکٹ دیکھ کر وہ کہہ  رہا ہے کہ یہ تو فرسٹ کلاس کے ٹکٹ نہیں ہیں۔
“اوہو، تو ہم رات بھر جس قدرے آرام دہ ڈبے میں مصروفِ سفر رہے وہ درجہ اول میں شمار ہوتاہے؟۔ویسے بھی ہم بیٹھے کہاں ہیں۔ ادھر ادھر گھومتے رہے ہیں یا پھر رُکی ہوئی گاڑی کے چلنے کا انتظار کرتےرہے ہیں۔” افضل نے قدرے شوخی سے کہا ہے۔
ٹکٹ چیکر کے استفسار پر پوری دیانت داری سے بتا دیا ہے کہ یہ قافلہ لاہور سے آرہا ہے۔اس پر ٹکٹ چیکر کہہ رہا ہے کہ ٹکٹ کی قیمت کا فرق بھی ادا کرنا ہوگا اور جرمانہ بھی ہو گا۔ والد صاحب کچھ خفا ہیں کہ بیٹھنے سے پہلے یہ بات یقینی کیوں نہ بنائی گئی کہ ٹکٹ کس ڈبے کے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ قانونی طور پر واجب الادا رقم فوراً  ادا کردی جائے۔حسرت بھائی نے اس معاملہ کو نمٹانے کی ذمہ داری لے لی ہے ۔وہ  ہم سب کوآرام سے بیٹھنے کا کہہ کر ٹکٹ چیکر سے کچھ تبادلۂ خیال میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔بس ہاتھ کے اشارے اور نگاہیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ٹکٹ چیکرنے ان سے کچھ کہاہے اور ساتھ والے ڈبے میں چلا گیاہے۔ حسرت بھائی واپس ہمارے پاس آبیٹھے ہیں۔ والد صاحب کو بتاتے ہیں کہ معاملہ بطریق احسن نمٹ گیا ہے اور یہ کہ فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں والد صاحب سے کچھ دُور لے جا کر پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کتنی رقم ادا کی یا ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے تو وہ کہتےہیں ہیں کہ  ٹکٹ چیکرواپس آکر بتائے گا۔
حیرت ہے کہ پنڈی کا سٹیشن آگیاہے  اور ٹکٹ چیکرواپس ڈبے میں نہیں آیا۔ ہم ریلوے اسٹیشن سے باہر آکر ٹیکسی میں سیٹلائٹ ٹاؤن روانہ ہورہے ہیں جہاں سلطان صبروانی صاحب کے ہاں ناشتہ کا اہتمام ہے۔ راستے میں حسرت بھائی سے ٹکٹ چیکرکے ساتھ ہونے والے مکالمہ کی تفصیلات پوچھتے ہیں تو  وہ ہنسنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’اچھا، سنو، میں نے اسے کہا کہ بھائی دیکھو، پیسے ویسے تو آپ کوہم دے نہ سکیں گے۔ ہم شاعر لوگ ہیں اور ایک مشاعرہ پڑھنے پنڈی جارہے ہیں۔ جب سے گاڑی میں بیٹھے ہیں بس شعر کہہ رہے ہیں۔کسی نے ایک غزل کہی ہے رات بھرمیں، کسی نے دوغزلہ مکمل کیا ہے اور ہمارے استاد صاحب تو سہ غزلہ لکھ کر فارغ ہوئے ہیں۔ شاعری ہی ہماری اصل دولت ہے اور ہم آپ کو جرمانے کے طور پر اپنی ساری تازہ غزلیں سنانے کو تیار ہیں۔ یہ سن کر وہ بولا کہ وہ دوسرے ڈبے میں سے ٹکٹ چیک کر کے آئے گا۔۔۔لیکن آیا ہی نہیں۔۔۔شاید بھول گیا ہو بے چارہ۔۔۔یا پھر۔۔۔۔!‘‘ ان کی بات کو ایک مشترکہ قہقہے نے مکمل کردیاہے۔
“اچھا، یار۔ یزدانی صاحب کو یہ سب مت بتانا۔’
حسرت صاحب اس قدر آہستگی سے مجھے کہہ رہے ہیں جیسے والدصاحب سُن لیں گے حالاں کہ وہ تو دوسری ٹیکسی میں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply