• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ 9 مئی کی حساسیت 16 دسمبر سے بھی زیادہ ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

سانحہ 9 مئی کی حساسیت 16 دسمبر سے بھی زیادہ ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

سولہ دسمبر کو ہماری معصوم جانوں کا نقصان ہوا تھا جس نے ہمارے بدنوں کو جیتے جی چیخا میں پھینک دیا تھا مگر نو مئی نے پوری قوم کے بچوں کے مستقبل تاریک کرنے کی کوشش کی ہے جس نے ہمارے بدنوں کو ہی نہیں ہماری روحوں کو بھی تڑپا دیا ہے۔ یہ ریاستی املاک، فوجی تنصیبات اور دفاعی یادگاروں کے مالی نقصانات کا معاملہ نہیں بلکہ ہمارے قومی تشخص اور سلامتی پر اٹھنے والے سوالوں کا معاملہ ہے جس نے ہمارے دشمنوں کی اس پاک سرزمین کو مٹانے کی سوچوں کے مسکن کو چراغاں کیا ہے۔

ان واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اپنی قومی بیوقوفیوں، غلطیوں اور کمزوریوں پر بھی نظر ڈال کر ان کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ میں یہاں تفصیل میں نہیں جاؤں گا بلکہ ایک اشارہ دیتے ہوئے صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے بنیادی سٹرکچر کی بھی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ ہمارے اداروں کے اندر کہاں آمریت اور شوق سیاست کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ ان کے سدباب کے ساتھ ساتھ ان کی اصطلاحات کے ذریعے سے مثبت تبدیلیوں کا بندوبست کرنا ہوگا۔

دوسرا ان مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے اور عبرت کی مثال بنانے کے ساتھ ساتھ اس تباہ کن شعور کے نام پر انقلابی سوچ کو پیدا کرنے کے پیچھے کار فرما سوچوں اور عوامل کو بھی سمجھنے اور بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ ملزموں کو ایک نفسیاتی ماہرین کے پینل کے سامنے پیش کرکے ان کی سوچوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سوچوں کی سمت کو درست کیا جا سکے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتا جاؤں کے ہمیں یہ فیصلے جذبات میں نہیں کرنے بلکہ ہوش و حواس میں کرنے ہیں۔ معاشرے کی نبض کو پرکھتے ہوئے بیماری کو ڈھونڈھ کر اس کا علاج دریافت کرنا ہے۔

ان مظاہریں میں ہمارے وہ نوجوان بھی ہونگے جن کو ان املاک، تنصیبات اور یادگاروں کا علم تک نہ ہوگا جن کو شائد یہ علم بھی نہ ہو کہ لاہور میں جلنے والا بنگلہ وہاں کے کور کمانڈر کی رہائش تھا یا وہ جناح ہاؤس تھا۔ ہمیں تمام پہلوؤں کو دیکھنا اور اس کی حساسیت کے ساتھ ساتھ ہمارے عوامل کے نتائج پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کی سوچوں کو جاننا ہوگا، ان کی اس نفرت اور انتقامی جذبے کے پیچھے کارفرما سوچوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔ جہاں ایسی سوچوں کو پیدا کیا جا رہا ہے ان منبوں کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا۔

ہمیں نفسیاتی حوالوں کو زیر بحث لا کر تشخیص کرنا ہوگی۔ ہم کب تک ایسے سیاہ ایام کو مناتے رہیں گے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ترقی اور منزلت کی طرف بڑھتی راہوں کے مواقعے تلاش کرنا ہیں۔ ہم کب تک اپنے قومی افرادی و مالی وسائل کو حفاظتی انتظامات پر جھونکتے رہیں گے۔ پہلے ہی ہم نے بہت سارے ریڈ زون، حساس علاقے اور محفوظ ایریاز ڈیکلیئر کئے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے ہی ملک کے کئی علاقوں میں رسائی کے لئے اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سے بڑھ کر ہمارے قومی تشخص کی رسوائی کیا ہوگی کہ ہم نے دوست ملکوں کے اتاشیوں کے دفاتر کے گرد حفاظتی حصار کو قائم کرکے ان کو احساس تحفظ تو دیا ہوا ہے مگر اس سے ابھرنے والے عدم تحفظ کے نام پر پوری دنیا کو عدم تحفظ کا تاثر بھی دیا ہوا ہے کہ وہ یہاں ان حصاروں کے بغیر غیر محفوظ ہیں، یہاں پر دہشت گردوں کے ڈیرے ہیں۔ جی میرا اشارہ ڈپلومیٹ انکلیو کی طرف ہے۔ ہمیں وہاں رسائی کے لئے سخت حفاظتی انتظامات سے گزرنے اور گویا ویزہ کے حصول کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان نوجوانوں کو آزادانہ طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ دیں گے اور ان کی اس سوچ اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو قوم کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہونگے۔ عوامی ہمدردیاں، پشت پناہی اور آراء بھی چاہیں تاکہ قوم ہمارے فیصلوں پر عوامی رضامندی اور قبولیت کی مہر بھی ثبت ہو۔ اور قومی پشت پناہی حاصل ہو۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے میں بھی فوجی عدالتوں کے حق میں تھا مگر اب چونکہ اس میں سیاسی لوگوں کی مداخلت کے خدشات ہیں جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان واقعات میں ملوث سول لوگوں کو ہماری سول عدالتوں کے اندر ہی ٹرائل ہونا چاہیے تاکہ عالمی سطح پر کوئی غلط تاثر نہ ابھرے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انگلی اٹھ سکے۔ ہر کسی کو کھلے عدالتی نظام کے تحت کاروائی میں فری ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے۔

ہمیں ہو سکے تو سول عدالتوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوششوں بارے بھی غور کرنا ہوگا کیونکہ ملک محض فوجی عدالتوں کے سہارے نہیں چل سکتے۔ گو کہ ہماری عدالتوں کے انتظامی امور عدالتی آراء پر حاوی نظر آنے کا تاثر مل رہا ہے مگر اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہوگا نہ کہ ان کو نظام انصاف سے علیحدہ کر دیا جائے۔ اس تاثر کو ابھارنے والے کرداروں کو بھی اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے پورے نظام عدل پر عدم اعتماد کی فضاء پیدا ہو رہی ہے۔ انصاف وہ ہوتا ہے جس کی گواہی فیصلوں سے متاثر ہونے والوں کا دل دے رہا ہو۔

ان مظاہرین میں وہ لوگ جو ان تنصیبات، املاک اور یادگاروں سے لاعلم تھے اور ان کا کوئی مجرمانہ موٹو نہیں تھا، کے ساتھ بھی رعائتی معاملہ برتنا چاہیے تاکہ ان کو شر پسندانہ عناصر کے مقاصد سے آگاہ کرکے انکی اصلاح کے ذریعے سے اچھے شہری بنا کر ان کو عملی طور پر ان کی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرکے ترقیاتی عمل کا حصہ بنایا جا سکے اور جو ان سادہ ذہن لوگوں کو استعمال کر رہے تھے کو سخت سزا دینی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور جو ان برباد کن قومی جرائم کے پیچھے منصوبہ ساز تھے ان سے کوئی رعائت نہیں ہونی چاہیے اور مستقبل کے خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے ان کے قلع قمع کے لئے حکومت کو کوئی جامع پالیسی بنا کر لائحہ عمل بھی ترتیب دینا ہوگا۔ اور اس معاملے کو جتنی جلد ہو نمٹا دینا چاہیے اور اس کو میڈیا پر زیادہ ہوا دینے سے بھی گریز کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک قوم بن کر دنیا میں یہ تاثر دینا ہوگا کہ پاکستان نے جیسے دہشت گردی کو اپنے ملک سے ختم کرکے دنیا کو حیران کر دیا تھا ایسے ہی فسادی عناصر کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کو بھی ایک مثال بنانا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply