عجائب خانہ/انجینئر ظفر اقبال وٹو

“شکیل عادل زادہ “سب رنگ” ڈائجسٹ کے مدیر اور معروف ناول “بازی گر” کے مصنف ہیں۔ اُن کے سر پر قارئین کو اعلیٰ ادب اور عمدہ اردو زبان سے متعارف کروانے کا سہرا ہے۔دل چسپ بات تو یہ ہے کہ انھوں نے میٹرک ہندی زبان میں کیا تھا اور جب وہ 1957 میں پاکستان آئے تو اردو پر دسترس نہ رکھتے تھے۔ بعد میں اردو پر ان کی قدرت کا یہ عالم ہوگیا کہ ان کی لکھی زبان کو حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہو گئی۔”

مجھے عجائب خانے دیکھنے کا زیادہ شوق نہیں ۔ تاہم بیرون ملک جب بھی جانے کا موقع ملے تو ضرور جھانک لیتے ہیں۔ تاہم ایک عجائب خانہ ایسا بھی ہے جس کی تعمیر میرے سامنے ہوئی ہے جس کو اینٹ اینٹ بنتے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اپنی نوعیت کے اس منفرد عجائب خانے میں داخل ہوں تو پہلا سیکشن ہی زندگی سے سیکھے سبق، پُرلطف احکامات، نکتہ خیز قصے اور علم و دانش کے نگینوں سے بھرا پڑا ہے۔ اوپر درج کیا گیا قصہ محض ایک نمونہ ہے۔

اگلے سیکشن میں داخل ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ “درخت آدمی ہیں” ۔درخت ایک کالونی کی شکل میں رہتے ہیں۔پرانے اور بڑے درخت اپنی جڑوں کے ذریعے اپنے قریب اُگنے والے ننھے بچے درختوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ بعد میں یہ بچے بڑے درخت بن کر پرانے بوڑھے درختوں کو خوراک فراہم کرنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ اگر کوئی قدیم درخت قدرتی طور پر گر جائے تو آس پاس کے درخت اس کے زمین میں گڑےتنے کو سینکڑوں برس تک شکر آمیز خوراک دے کر زندہ رکھتے ہیں۔

پیٹھے کی مٹھائی کی ترکیب کے ڈانڈے تاج محل کی تعمیر سے کیوں ملتے ہیں؟ دوران حمل چاکلیٹ کھانے والی خواتین کے ہاں خوش مزاج مسکرانے والے بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟سترھویں صدی سے پہلے ہندوستان میں ٹماٹر، آلو، سبز ، چینی اور سبزوسرخ مرچ نہیں ہوتی تھی۔ بیسویں صدی تک موٹے شخص کو رئیس اور خوش حال سمجھا جاتا تھا۔ چاولوں کو دنیا میں پھیلانے کا سہرا مسلمانوں کے سر جاتا ہے۔ باسمتی کا مطلب “باس” یعنی مہک اور “ملتی” یعنی مٹی ہے۔خوراک اور کھانوں کے حوالے سے یہ سیکشن “اسیر شکم “ کے نام سے ہے جو بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب کے آثاروں میں کھانے سے متعلق دو اشیا کا سراغ ضرور ملتا ہے۔ ایک توا اور دوسراتنور۔حتی کہ جان ینگ جیسا خلا باز اپنے چٹورے پن کی وجہ سے خلا میں بھی سینڈ وچ چھپا کر کے گیا تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ نارڈِک لوگ سب سے پہلے امریکہ پہنچے اور امریکہ انہوں نے دریافت کیا۔ کرسٹوفر کولمبس نے کبھی بھی سر زمینِ امریکہ پر پیر نہ دھرے تھے۔مسکراتے بُدھا کی شبیہہ میں فربہ ہنستا ہوا شفیق آدمی بُدھا کی بجائے دسویں صدی عیسوی کا داستانوی کردار “بدائی” ہے۔ حضرت عیسیٰ کا یوم پیدائش 25 دسمبر نہیں۔ انسان اور بن مانس جینیاتی اور حیاتیاتی طور پر بالکل مختلف مخلوقات ہیں۔ یہ باتیں آپ کو سفیدکوے نامی سیکشن میں پتہ چلتی ہیں جو دنیا میں حق سچ تسلیم کئے جانے والے مغالطوں کے بارے میں ہے۔

کسی خیال کو عمل کا جامہ پہنا کر ہی اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے وگرنہ فقط دماغ میں پیدا ہو کر اسی میں رہ جانے والا خیال “ناکارہ” ہوتا ہے۔ایمازون کے بانی جیف بیزور کہتے ہیں کہ ایمازون کی جدت اور وسعت میں کسی منتظم یا تکنیک کار کا اتنا اہم کردار نہیں جتنا “غیر مطمئن صارفین” کا ہے کہ جن کے شکوے نئے خیال ، منفرد سوچ ، مثبت ردعمل اور نظام میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ عجائب خانے کے اس سیکشن کا نام ہے “خیال کہاں سے آتا ہے؟”

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں ہی زمانہ ہوں۔ اگلا سیکشن ہمیں “وقت” یا زمانے کے بارے میں بتاتا ہے۔ہر قلیطس تین ہزار سال قبل بول اٹھا تھا”کوئی شخص ایک دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتا کہ نہ وہ دریا پہلے سا رہتا ہے اور نہ ہی بندہ وہی رہتا ہے”۔آئن سٹائن کے نظریہ اضافے کے مطابق کے ٹو کی چوٹی پر وقت سطح سمند سے سالانہ پندرہ ملی سکینڈ کے فرق سے گزرتا ہے۔ٹیگور کہتا ہے کہ “تتلی مہینوں کو نہیں گنتی بلکہ لمحات میں زندہ رہتی ہے، سو اس کے پاس بہت وقت ہوتا ہے”۔ اصحاب کہف تین سو برس غار میں سونے کے بعد جب جاگے تو یہی سمجھے کہ ایک آدھ دن سوئے ہیں۔

البرٹ آئن سٹائن جب اپنی تحقیق سے وقت پاتا تو اسے رومان اور جنس میں گزار دیتا۔ اس نے دو بیاہ اور دس معلوم معاشقے کئے۔ اس نے اپنی بیوی سے ایک معاہدہ کر رکھا تھا جس کی ایک شرط یہ تھی کہ وہ آئن سٹائن سے “جذباتی قربت کی توقع نہ رکھے اور نہ ہی وفا کی”۔ ایک نیم برہنہ عورت اگر مرد کے لئے فحش ہے تو نیم برہنہ مرد بھی عورت کے لئے فحش ہے۔ فحاشی کو مرد کی نظر سے ہی کیوں دیکھا جائے۔ یہ سیکشن انسان کی جبلت “جنس” کے بارے میں ہے جس کا عنوان ہے”اخبار میں لپٹی بوتل”۔

فکشن کیوں پڑھا جائے؟ کوئی حقیقت مکمل سچ نہیں ہوتی اور کوئی فکشن مکمل جھوٹ نہیں ہوتا۔ فکشن جادو اور اُمید پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو درگاہوں، نجومیوں اور فقیروں کے ہاں ازل سے جاری ہے۔ فکشن یہی کام تخلیقی طور پر اور خاص سلیقے سے کرتا ہے۔ایک اچھا ناول انسان کو اس کی موجودہ دنیا سے دوسرے عالمِ رنگ و بُو میں لے جاتا ہے بعینہٖ موسیقی، فلم ، رقص اور مراقبے کی طرح۔مغرب میں بچوں کو فکشن کا مطالعہ ان کی ذہنی سطح کو وسیع کرنے کے لئے کروایا جاتا تاکہ امکانات کی نئی دنیا کھُلے۔تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ فکشن کا مطالعہ قاری کے دماغ پر حقیقت کے مماثل ایسی تصویر چلاتا ہے جیسے کمپیوٹر “ سمولیشن” ایک کمپیوٹر پر چلتی ہے۔مغرب میں بہت سے ناول اور افسانے سائنسی ایجادات کا باعث بنے۔سائمن لیک نے فرانسیسی مفکر جولزون کے سائنس فکشن ناول سے متاثر ہو کر آبدوز ایجاد کی۔جولزون نے ہی 1865 میں ایک ناول میں انسان کے چاند پر اترنے کی تفصیلات حیران کن طور پر درست انداز میں تصویر کش کر دی تھیں۔عجائب خانہ کا سیکشن ہمیں بتاتا ہے کہ یقیناً فکشن شخصیت پر اثر انداز ہوکر معاشرے پر اثرات مرتب کرتا ہے۔

ایک شخص ادیب کیوں بنتا ہے؟ کیا ادیب پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہوتی ہیں جو ایک کسی تخلیق کار کو ادیب بننے کی طرف مائل کرتی ہیں۔پیدائشی صلاحیت اور جذبے سے ہٹ کر پہلی وجہ انا پرستی یعنی دانش مند و ذہین نظر آنا، شہرت پانا ہے۔ دوسری وجہ ایک گرم جوش اور متحرک حسِ لطیف ہے۔ تیسری وجہ تاریخی پس منظر میں واقعات کو درست تناظر میں دیکھنے اور پیش کرنے کی خواہش ہے۔ سیاسی مقاصد یا خیالات بھی انسان کو قلم اُٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ کسی ادیب کی   اپنی تخلیق کو سامنے لانا کسی زچہ کے بچہ جننے کے مترادف ہے۔یہ سیکشن ہمیں بتاتا ہے کہ ادیب کو لکھنا ہے تو مطالعہ اس کی تربیت کرے گا اور جذبے اور تخیل کو مہمیز کرے گا جب کہ مشق اس کی تربیت کرے گی۔

اس دلچسپ عجائب خانے کا اختتام منگل مور پر ہوتا ہے یعنی ایک حقیقی اور خود مست شاعر کیا ہوتا ہے؟ سابق امریکی صدر بارک اوباما باقاعدہ مطبوعہ شاعر ہیں۔ کلام و کردارِ شاعر میں ہمیشہ فرق رہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ اپنی تعلیم پر عمل کرنا پیغمبری شیوہ ہے، شاعر پر لازم نہیں۔ موٹر کار کے موجد پر لازم نہیں کہ وہ عمدہ ڈرائیور بھی ہو اور طیارہ ساز کمپنی کے مالک پر اعلیٰ پائلٹ ہونے کی شرط عائد کرنا درست نہیں۔ شاعر خیال کا خالق ہوتا ہے مگر روزمرہ زندگی میں سرشت کا غلام۔نامعلوم کی جستجو انسانی خمیر میں ہے۔تجسس اسے قیاس وامان کی پگڈنڈیوں سے یقین کی شاہراہ پر لے آتا ہے۔اچھی شاعری کا مثبت پہلو ہی ایک تجربے سے گزر کر نئے تجربے کی بنیاد رکھنا ہے۔ یوں فہم کو وسعت عطا ہوتی ہے۔جدید نسل انسانی بد نصیبی سے شاعری ایسی لطیف حس سے فاصلہ اختیار کرتی جارہی ہے۔ گوگل کے مطابق انٹر نیٹ پر شاعری کے شوقین افراد میں روز بروز تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عجائب خانہ کے نام سے ترتیب دی گئی اس کتاب کا خاص پہلو یہ ہے کہ مصنف نے ہر سیکشن کے اختتام پر ان تمام کتابوں کی فہرست بھی فراہم کردی ہے جن سے ریسرچ کرکے یہ کتاب تخلیق ہوئی یوں قاری کو اس کتاب میں کوئی سو سے اوپر دنیا بھر کی بہترین تخلیقات کا ریفرنس اور عرق بھی مل جاتا ہے جنہیں کھوجنے میں عرفان جاوید صاحب کو شائد کئی دہائیاں لگیں۔یہ کتاب 2021 میں سنگ میل پبلی کیشنز والوں نے شائع کی ہے۔ عرفان جاوید صاحب میرے انجنئیرنگ یونیورسٹی کے کلاس فیلو اور بہت عزیز دوست بھی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply