• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ / آئی ایم ایف پروگرام کی تکلیف کا تدارک(22 )-حامد عتیق سرور

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ / آئی ایم ایف پروگرام کی تکلیف کا تدارک(22 )-حامد عتیق سرور

موضوع پر بات کرنے سے پہلے ایک بار پھر اس سلسلے کے عنوان کے پس منظر کی بات ہوجائے۔ استاد یوسفی اپنی آخری کتاب ” آب گم ” میں یوں رقم طراز ہیں کہ ” بشارت کے سُسر کو کراچی شہر کسی طور اور کسی طرف سے اچھا نہیں لگا۔جھنجھلا کر باربار کہتے ”اماں“ یہ شہر ہے یا جہنم؟
ایک دفعہ ان کے ایک بےتکلف دوست نے ان سے کہا کہ تمہیں معاشرے میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں تو بیٹھے بیٹھے اُن پہ کُڑھنے کی بجاٸے ان کی اصلاح کی فکر کرو۔ارشاد فرمایا”سنو!میں نے ایک زمانے میں پی ڈبلیوڈی کے کام بھی کیے ہیں مگر دوزخ کی اٸیر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ نہیں لے سکتا“۔
استاد تو کوزے میں دریا بند کر دیا کرتے تھے اور یہاں معاملہ دریا کو کوزے سے نکال کر حسب_ تشنگی پیاسوں تک پہچانے کی بے سود کوشش کا ہے کہ بہرحال ہماری تمام بات کی حیثیت صرف رائے کی ہے اور دیگر آرا اس سے زیادہ صائب ہو سکتی ہیں ۔
ایک سو چالیس ارب ڈالر کے بیرونی قرض اور پانچ سے دس ارب کے زر_ مبادلہ کے ذخائر کی بدولت یہ تو طے ہے کہ ابھی ہمیں کم از کم ایک سے تین آئی ایم پروگرامز کی تکالیف سے گزرنا ہے ۔ تکلیف اس لئے کہ اس قسم کے پروگرام کے سنگ_ میل اور ان کو عبور کرنے کا وقت ہماری مرضی کا نہیں ہوتا اور مستقبل کی uncertainity کی وجہ سے برا وقت آنے پر ان اقدامات کی تکلیف اور بڑھ جاتی ہے ۔ یعنی ایک ایسا ملک جو کسی بین الاقوامی اصلاحاتی پروگرام سے نہ گزر رہا ہو ، یہ سہولت رکھتا ہے کہ آئیندہ کے کسی رسد یا طلب کے shock سے نبرد آزما ہونے کے لئے حکومتی اقدامات میں سختی یا نرمی کی گنجائش پیدا کرے ، مگر آئی ایم ایف پروگرام میں ممالک اس خود مختاری سے محروم رہتے ہیں ۔یہی rigidity عوام میں تکلیف کا احساس بڑھاتی ہے اور نتیجتا” عوام اور سیاسی پارٹیاں حکومت اور آئی ایم ایف کو ہر دم مطعون کرتے نظر آتے ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ conspiracy تھیوریز سے قطع نظر آئی ایم ایف ہمیں حکم دینے نہیں آتا بلکہ ایک ضرورتمند کاروباری فرد کی طرح ہم اس ادارے یا بینک سے قرض لینے جاتے ہیں ۔ آئی ایم ایف ایک قسم کا
Lender of last resort
ہے یعنی آئی ایم ایف کے پاس تب جایا جاتا ہے جب دیگر تمام قرض کے ذرائع یا تو مفقود ہو جائیں یا ہمارے credit risk کی وجہ سے ہمیں ناقابل برداشت سود ہی پر قرض دستیاب ہو ۔ یوں سمجھ لیں کہ جب آئی ایم ایف ہماری معاشی نگرانی کرے اور مطمئن ہو تو ہمیں دنیا بھر سے قرض کی شرائط اور شرح سود میں قدرے آسانی ہو جاتی ہے ۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ قرض کی مے پیتے ہی کیوں ہیں تو اس کی دو ہی وجوہات ہیں کہ ہمارے ہاں بین الاقوامی اشیا اور خدمات کی طلب ہماری برآمدات کی رسد سے کہیں زائد ہے ۔ اور دوسرے یہ کہ حکومتی اخراجات اس کی آمدن سے بہت زیادہ۔
اس کا سب سے آسان حل تو یہ نظر آتا ہے کہ درآمدات ، زرمبادلہ کی بیرونی ترسیل اور غیر ملکی قرض پر سود اور اصل کی واپسی کو برآمدات اور بیرون_ ملک پاکستانیوں کی ترسیل_ زر سے نہ بڑھنے دیا جائے ۔ یعنی سمجھ لیں کہ اس سال اگر 35 ارب ڈالر کی برآمدات اور اتنی ہی foriegn renittance آئیں تو حکومت درآمدات کو ایسے محدود کرے کہ کل 70 ارب میں سے 25 ارب کے قرض اتارے اور 5 ارب کی بیرونی ادائیگیاں ہونے دے اور درآمدات کو بچنے والے 40 ارب تک محدود رکھے ۔ اب اس اپروچ کے دو مسائل پیں ۔ ایک یہ کہ درآمدات پر یک طرفہ پابندی بین الاقوامی نظم میں ہمارے لیے دوسرے ممالک میں برآمد کے مواقع محدود کر دیتی ہے اور دوسرے یہ کہ درآمدات کو روکنے کا کنٹرول بے حد مشکل اور costly ہے ۔ سو 2023 میں انتہائی پابندیوں کے باوجود درآمدات کی منڈی میں رسائی میں کمی بہت فارمل سیکٹر کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئی ۔
کریں بھی تو کیا کہ ہمیں آمدو رفت کے لئے پٹرول چاہئیے ، بجلی کے لئے گیس ، صنعت کے لئے لوہا ، تانبا ، ایلومینیم۔ ادویات ، شریانوں میں ڈالنے کو سٹنٹ ، رابطے اور کاروبار کے لئے موبائل فون ، گاڑیاں اور ٹرک ، چائے ، خوردنی تیل ، دالیں ، سینے کا دھاگا ، بٹن ، پلاسٹک کا دانہ اور معلوم نہیں کیا کیا۔ یہ نہ ہوں تو لوگوں کا زندگی کا معیار اتنا ابتر ہو جائے کہ سماج میں order برقرار رکھنا مشکل ہو جائے ۔
حکومتی اخراجات کو ٹیکسوں کی آمدن تک محدود رکھنا بھی فوری اور وسط مدتی بندوبست میں ممکن نہیں ۔ کیا وفاق اور صوبوں کے پچاس لاکھ ملازمین کو برطرف کر کے بغیر پنشن کے گھر بھیجا جا سکتا ہے ؟ کیا بجلی پیدا کرنے کی تمام لاگت بل دینے والے صارفین پر ڈالی جا سکتی ہے ۔ کیا حکومت گندم خریدنا یا کم قیمت پر اس کی فراہمی ختم کر سکتی ہے ؟ کیا تمام سرکاری ہسپتال اور سکول بند کئے جا سکتے ہیں ؟ کیا سڑکوں کی تعمیر و مرمت ، صاف پانی ، آبپاشی ، سیوریج ، انکم سپورٹ، دفاع ، بجلی کی ترسیل کے نظام سے حکومت کو باہر نکالا جا سکتا ہے ؟ اگر یہ سب فوری طور پر ممکن نہ ہو تو بات وہیں قرض پر آجاتی ہے ۔
ان حالات میں قرض دینے والے اداروں کے کیا مطالبات ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ یعنی برآمدات بڑھائیں ( جو مشکل ہیں ) ورنہ ڈالر کی قیمت کو اس حد تک لے جائیں کہ درآمدات خودبخود ہماری اصل مالی حیثیت کے مطابق ہو جائیں ۔ حکومتی اخراجات کو کم کریں ( جو مشکل ہے ) ۔ لوگوں کو بچت اور سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے اور ملک میں اشیا اور خدمات کی طلب کم کرنے کے لئے interest rate کو بلند رکھیں ۔ ٹیکس زیادہ اور زیادہ لوگوں سے لیں ۔ حکومتی اخراجات میں اس بار بجلی ، گیس کی قیمت کی وصولی اور نقصان میں چلنے والی حکومتی کمپنیوں سے چھٹکارا تو دیوار پر لکھا ہے ۔
اس کا نتیجہ پٹرول کی قیمت میں کچھ پچپن روپے اضافے ، بجلی اور گیس کی قیمت میں بتدریج پچاس فیصد اضافے ، انٹرسٹ ریٹ کی بیس سے بائیس فی صد کی شرح ، مہنگائی کی پچیس فی صد سالانہ شرح اور ایکسچینج ریٹ میں بتدریج اضافے کا باعث بن سکتا ہے ۔ مزید ٹیکس بھی لگیں گے ۔ ان اقدامات کے نتائج میں بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا امکان بھی ہے اور معاشی شرح نمو کم رہنے کا اندیشہ بھی ۔
اسی قسم کی خوفناک صورتحال 1990 کے ارد گرد بھارت کو بھی درپیش تھی ۔ ان چیلینجز سے نمٹنے کے لئے تین لوگ بھارت کے بہت کام آئے ۔ نرسیمہاراو، من موہن سنگھ اور ایک ٹیکنوکریٹ مونٹیک سنگھ آہلو والیہ ۔ انہوں نے انہی رکاوٹوں کو ایسے initiatives کے لئے استعمال کیا جنہیں عام حالات میں کئے جانے کا امکان یکسر ناپید تھا ۔ یہ ٹیم کچھ وقفوں اور تبدیلیوں سے 2014 تک اقتدار میں رہی اور ان اقدامات کی تاریخ پنڈی کی جنم بھومی والے آہلو والیہ نے اپنی کتاب Back Stage میں رقم کی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ اقدامات اس وقت کے threats اور opportunities کے سیاق میں تھے سو ان کو دوہرانے کا فائدہ نہیں لیکن ان تین لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر دور اندیشی ، فہم اور tact ہو تو آئی ایم کی سخت شرائط کو ترقی کے زینے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ورنہ صرف شرائط پورا کرنے سے مہنگائی ، بیروزگاری ، سیاسی چپقلش اور آئی ایم ایف کا ایک نیا پروگرام ہی آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک والجہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ / چند اچھے آدمی(21 )-حامد عتیق سرور

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply