ورغلایاہواآدمی /ناصر عباس نیّر

اوائل سردیوں کی شام کی ایک چھینک ، رات تک بدترین زکام میں بدل سکتی ہے،اور زکام آدمی کو کئی دنوں کے لیے نکما اور قابل رحم بناسکتا ہے۔ یہ زندگی کی عام سچائی ہے اور اسی لیے مسلسل نظر انداز کی جاتی ہے۔
شعیب کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ جو ایک لفظ بھولتا ہے، وہ پوری زبان بھول سکتا ہے۔
وہ لفظوں کی اچانک فراموشی کو اپنی مصروف زندگی کی ایک معمولی مگر ناگزیر بیماری سمجھا کرتا ۔لوگوں کے ساتھ ہی نہیں، وقت اور تقدیر کے ساتھ بھی کچھ لو اور کچھ دو کا اصول چلتا ہے۔ وہ سوچتا۔
کسی کسی وقت تو اسے لگتا کہ یہ پوری کائنات ہی سرمایہ دارانہ اصولوں پر چلتی ہے۔
اسے یہ احساس رہتا اور اس کے دوست ،رشتہ دار بھی اسے یہ احساس دلائے رکھتے کہ ایک مصروف شخص کئی باتیں بھولتا چلا جاتا ہے ۔وقت پر کھانا،پرسکون نیند، آرام،پرانے دوست، قریبی رشتے، تنہائی میں چیزوں کو سمجھنے کی عادت، ٹھہراؤ، کتاب، موسیقی۔
یہ سب چیزیں بہ ظاہر اس کی زندگی میں شامل ہوتی ہیں، مگر خیال اور عادت کے طور پر،خود اپنےطور پر نہیں۔اس کی نیند میں جو سب سے اہم چیز غائب ہوتی ہے،وہ نیند ہی ہے ۔ لیکن آدمی عجب مخلوق ہے۔ وہ نیند کی بھی اداکار ی کرکے ،خود ہی کو یقین دلانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ وہ گہری نیند سویا۔
یہ توآج صبح اسے معلوم ہوا کہ آدمی کی اپنی زندگی کی کوئی بات عام بات نہیں ہوتی؛ عام بات ہمیشہ دوسروں کے لیے ہوتی ہے۔ایک چھینک بھی عام بات نہیں ہے، وہ ایک عام سچائی ہے،اور سچائی کے پورے بوجھ سمیت۔وہ بیدا ر ہوا تو اس نے وقت دیکھنے کے لیے اپنا سیل فون اٹھانا چاہا۔ اسے سیل فون کا نام ہی بھول گیا۔سیل فون سامنے پڑا تھامگر اسے کوسوں دور محسوس ہوا۔ نام یاد تھا تو وہ غائب ہوکر بھی اس کی دسترس میں محسوس ہوتا تھا ۔
گیارہ بج کر چودہ منٹ ہوئے تھے، مگر وہ ان کے لیے ذہن میں ہندسے اور لفظ تلاش نہیں کرسکا۔وہ بس لکیریں اور دائرے تھے۔ اس نے کمرے کی کھڑکی سے آتی روشنی کے دھارے کو دیکھا۔ اس نے اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کی۔ ناکام رہا۔
دائیں جانب تپائی پر پڑی کتابیں تھیں۔ سامنے صوفے پر کپڑے بکھرے تھے۔پچھلے ہفتے کے اخبارات پڑے تھے، جنھیں پڑھنے کا وقت اسے نہیں مل پارہا تھا۔ مطالعے کی میز پر بھی کتابوں ، نوٹ بکس،ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ ، پرنٹر اور ڈائریوں کا ڈھیر تھا۔ پنسلیں تھیں ۔ٹیبل لیمپ تھا ،جس کا بلب فیوز ہوچکا تھا،اور وہ خلیفہ سے کہنا بھول جایا کرتا تھا کہ نیا بلب لے آئے۔ اس نے کمرے کی ایک ایک چیز پر نگاہ کی۔ کسی شے کا نام یاد نہیں کرسکا۔ اس نے خود کو انبار تلے دبتا محسوس کیا۔
سب سے خوف ناک انکشاف یہ تھا کہ ذہن میں وہ سائے بھی غائب تھے، جو پہلے کسی لفظ کے غائب ہونے پر اس کی مدد کو آیا کرتے تھے۔ ابتدا میں وہ جانگلی زبان کے الفاظ بھولنے لگا تھا۔ شروع میں اس نے اسے ایک عام سی بات سمجھا۔ وہ دل کو تسلی دیتا کہ جو زبان بولی نہیں جاتی ، وہ مرنے لگتی ہے،اور اس کی موت سب سے پہلے بولنے والے کے ذہن میں ہوتی ہے۔دل کی یہ تسلی بس چند دن ہی کارگر ہوتی۔ اسے ایک قلق گھیر لیتا۔
وہ جانگلی زبان کی شاعری سنتا۔ اس کے لطائف سنتا۔ اس نے جانگلی ہی کے ایک قصہ گو کی ویڈیو تلاش کی۔ اسے ٹکڑوں میں دیکھتا۔ ایک پرانے دوست کو فون کرتا، اس سے جا نگلی میں دیر تک بات کرتا۔اس کا دوست کہتا کہ تم پورے جنگلی بن گئے ہو۔ تمھاری زبان سمجھ ہی نہیں آتی۔ لگتا ہے تمھارے اندر کوئی گورا بھوت گھس گیا ہے۔ وہ خود بھی محسوس کرتا کہ اس کی مادری زبان پر بیرونی زبان امر بیل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔
(زیر اشاعت پانچویں افسانوی مجموعے’’ جب تک ہے زمین ‘‘ کے ایک افسانے سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply