لدھیانوی کی شہرہ آفاق نظم “خوبصورت موڑ” رشتوں کی پیچیدگیوں کا پتہ دیتی ہے۔ شاعر مصالحت کی امید کی کمی کا اظہار کرتے ہوئے اجنبی ہونے کی التجا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نظم ماضی کے مقابلوں کی پیچیدگیوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے، اپنی محبوبہ سے دل سے محبت کے ساتھ ساتھ رشتوں کے بوجھ کو تسلیم کرتی ہے جو کبھی کبھی دو پیار کرنے والوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔
ساحر لدھیانوی کی نظم “خوبصورت موڑ” کا مرکزی موضوع رشتوں کے اندر نزاکت اور پیچیدگیوں کے گرد گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم میں شاعر موجودہ تعلقات سے وابستہ درد یا پیچیدگی کی وجہ سے نا واقفیت کی حالت میں واپس جانے کی خواہش کا پتہ لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔
نظم “خوبصورت موڑ” میں شاعر ایک عکاس اور فکر انگیز لہجہ اپناتا ہوا نظر آتا ہے، جس میں مختصر لیکن جذباتی طور پر استعمال شدہ اشعار کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس نظم کا ڈھانچہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ بات چیت یا اندرونی یکجہتی کا مشورہ شاعرانہ انداز سے نظر آئے اور اس شاعری میں ماضی کے تجربات پر براہ راست التجا اور مدد مانگنے کی عکاسی کی گئی ہے۔ نظم میں مندرجہ ذیل ادبی آلات بھی استعمال کیے گئے ہیں:
امیجری: نظم میں واضح تصویر کشی کی گئی ہے، خاص طور پر دل کی پریشانی اور پچھلی راتوں کے سائے کے بارے میں جذباتی پن اور فکر انگیز خیالات کو شامل کیا گیا ہے۔
استعارہ: شاعر ایک استعاراتی آلہ کے طور پر دوبارہ اجنبی بننے کے تصور کو استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے، جو موجودہ تعلقات کی پیچیدگیوں سے بچنے کی خواہش کی علامت ہے۔
انتشار اور ہم آہنگی: “میرے دل کی دھڑکن” اور “گزشتہ راتوں کے سائے” جیسے جملے میں بار بار آنے والی آوازیں نظم کے اندر ایک موسیقی کی تال پیدا کرتی ہیں۔
ساحر لدھیانوی کی غمزدہ زبان کا استعمال اور پُرجوش منظر کشی پیچیدہ طور پر ایک جذباتی منظر کشی استعمال کرتی ہے، جس میں بولنے والے کے اندرونی خلفشار اور جذباتی دوری کی خواہش پر زور دیا گیا ہے۔ دوبارہ اجنبی بننے کی خواہش اور ماضی کے مشترکہ تجربات کے اعتراف کے درمیان تضاد نظم کی گہرائی میں اضافہ کرتا ہے۔
ساحر لدھیانوی اردو کے ممتاز شاعر اور گیت نگار تھے، پہلے ان کی ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ بہت ہی اچھی دوستی تھی لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں کے درمیاں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تو ساحر لدھیانوی نے ایک نئی گلوکارہ “سدھا ملہوترہ” سے دوستی کی اور دونوں ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہتے تھے، اسی عرصے میں ساحر لدھیانوی اور سدھا ملہوترہ عشق کا چرچا ہونا شروع ہوگیا اور پھر جب دونوں شادی کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے تو سدھا ملہوترہ کے والدین نے ساحر لدھیانوی کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرانے سے انکار کردیا اور زبردستی اپنی بیٹی کی شادی دوسری جگہ طے کردی۔ اس پر دونوں دلبرداشتہ ہوگئے اور سدھا ملہوترہ نے اپنے ماں باپ کے سامنے شرط رکھی کہ جب تک ساحرلدھیانوی میری منگنی کی تقریب میں شامل نہ ہو تو میں منگنی نہیں کرونگی۔ سدھا ملہوترہ کی ضد پر ہی ساحرلدھیانوی اس کی منگنی میں شریک ہوئے اور انہوں نے وہاں بھری محفل میں اپنی مشہور زمانہ نظم “خوبصورت موڑ (چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں)” سنائی جسے سن کر سدھا ملہوترہ دلہن بنی زار وقطار روتی رہی۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ساحر لدھیانوی کی شاہکار نظم ”خوبصور ت موڑ” پیش خدمت ہے۔
”خوبصور ت موڑ” (نظم)
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جائے تو ا س کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں