اصل غدار تو عوام ہیں /آغر ندیم سحر

مسلم لیگ نون کے ترجمان کے بقول:’’ان کی بات ہو گئی ہے،اگلا وزیر اعظم جاتی امرہ سے ہوگا‘‘،کوئی اچنبھے کی بات نہیں،نواز شریف کی لندن روانگی، عمران خان کی قبل از وقت برطرفی،پی ڈی ایم کی تشکیل اور حکومت،نواز شریف کی وطن واپسی،نون لیگی قائدین کے کیسز کی معافی،یہ سب کیا بات ڈن ہونے کے بغیر ہوا؟حیرانی تو یہ ہے کہ جتنی تیزی سے نون لیگ کو کلین چٹ مل رہی ہے،اس سے عدالتی نظام تو برہنہ ہوا ہی،مسلم لیگ نون کے تیس چالیس سالہ سیاسی کیرئیر پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔کیا مسلم لیگ نون ہمیشہ ایسے ہی اقتدار تک پہنچتی رہی،کیا کیسز معاف کروانا،کرپشن کے میگا اسکینڈلز سے راتوں رات بری ہونا اور پھر کسی جادوئی طاقت کی آشیرباد سے وزارت عظمیٰ تک پہنچنا،کیا یہ سارا عمل ہمیشہ سے ایسے ہی رہا،کیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے کبھی جمہوری راستہ بھی اپنایا یا ہمیشہ ’’بات پکی‘‘کرنے کے بعد اقتدار تک پہنچتے رہے،یہ سارے سوال اور اسے سے جڑے واقعات ،عوام حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔عوام کو بے وقوف سمجھنے اور کہنے والے شاید یہ بھول رہے ہیں کہ سیاسی شطرنج میں جیت کسی کی بھی ہو،عوام کو لا علم نہیں رکھا جا سکتا،انصاف اور ووٹ کو عزت دینے والا بیانیہ خود اپنے ہاتھوں ہی دفن کرنے والوں نے عمران دشمنی میں جو بلنڈرز کیے،تاریخ اور عوام کبھی نہیں بھولیں گے۔اس کی ایک جھلک گزشتہ ہفتہ کا وہ سروے ہے جو نون لیگ کے آفیشل اکائونٹ پر دیکھا گیا،اس سروے میں نون لیگ تقریباً بیس فیصد جب کہ تحریک انصاف کی مقبولیت ساٹھ فیصد تک دیکھی گئی،بعد میں یہ سروے ڈیلیٹ کروا دیا گیا،آپ اس کے علاوہ ان درجنوں سرویز کا جائزہ لیں جو سوشل میڈیا اور نجی چینلز پر دکھائے جا رہے ہیں،سب میں نون لیگ کو ووٹ کو عزت دینے والا بیانیہ بری طرح پٹ رہا ہے،کاش ’’قائد ِ عوام‘‘نواز شریف میڈیا پر ہونے والے قومی سرویز کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں،ان غلطیوں کا عوام کو جواب دیں جنہوں نے نون لیگ کے جمہوری رویے کو شدید نقصان پہنچایا۔

اس سارے عمل میں عوام’’جمہوری بابو‘‘بلاول بھٹو کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں،سوشل میڈیا اور نجی چینلز پر بلاول بھٹو کا بیان زیر بحث ہے،اگر نواز شریف ستر سال کے ہو چکے ہیں تو کیازرداری ابھی نوجوان ہیں؟ حیرانی تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو ڈیڑھ سال وزارت ِ خارجہ کے مزے لوٹنے کے بعد نادم کیو ں ہیں؟یہ ندامت انھیں اس وقت کیوں نہیں ہوئی جب وہ ڈیڑھ سال سرکاری خرچے پر ملکوں ملکوں گھوم رہے تھے،یہ پیپلز پارٹی کا پرانا انداز ہے،وہ جب سیاست میں ہوتے ہیں تو اپنے اتحادیوں کو فرشتہ کہہ رہے ہوتے ہیں،ان جیالوں کو اتحاد اور میثاقِ جمہوریت کرتے ہوئے اپنے مخالفین میں کبھی کرپشن نظر نہیں آئی،جب وقت نکل جاتا ہے تو یہ نادم ہونے لگتے ہیں،یعنی’’ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘۔اس وقت پیپلز پارٹی کا جمہوری بیانیہ بھی فریب ہے اور نون لیگ کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی دھوکہ،یہ سب کرسی کی جنگ ہے،ان کو لانے والے اور لے جانے والے دونوں کے ذاتی مفاد کو دیکھ رہے ہیں،ملکی مفاد نہ ان جماعتوں کے کبھی پیش نظر رہا اور نہ یہ عوام کبھی اہم رہے ہیں،اندرونی و بیرونی طاقتیں اپنی انا کی تسکین کی خاطر عدالتی نظام کو بھی بدنام کر رہی ہیں اور احتساب کے عمل کو مشکوک بھی،یہ سب طاقت کا کھیل ہے اور اس کھیل میں سب اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔

کل نواز شریف مظلوم تھا اور آج عمران خان،کل عمران خان پر طاقتیں مہربان تھیں اور آج نواز شریف پر،کل عمران خان کو جتوانے کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک تھی اور آج اسی عمل سے نواز شریف کو گزارا جا رہا ہے،کل نواز شریف غدار اور اشتہاری تھا تو آج عمران خان غدار ہے،یہی عمل کل کسی تیسرے لاڈلے کے لیے دہرایا جائے گا،سو یہ ہے ہماری جمہوریت اور یہ ہیں ہمارے ادارے۔اس سب کے بعد بھی اگر نواز شریف کہتے ہیں کہ مجھے انصاف کون دے گا تو میرے پاس سوائے قہقہہ لگانے کے،کوئی دوسرا جواب نہیں،کیا غداری اور حب الوطنی کے تمغے بانٹنے سے عوام سے سچ چھپایا جا سکتا ہے؟یہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی ہے، سوشل میڈیا ایک طاقت ور میڈیم بن چکاہے،آپ جو مرضی کر لیں،آپ عوام سے جھوٹ نہیں بول سکتے،آپ قسمیں کھائیں یا حلف اٹھائیں،عوام باشعور ہیں،یہ جانتے ہیں کو کس کس سیاست دان کو کس کس طاقت ور ہستی کا آشیرباد رہا اور کون کس کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹتا رہا،اگر تحریک انصاف کی حکومت پانچ عورتیں چلا رہی تھیں تونون لیگ میں بھی عورتیں ہیں بلکہ ایک عورت کی وجہ سے کتنے سینئر لوگ نون لیگ سے کنارہ کر چکے،کیااس پر بات ہوگی؟

Advertisements
julia rana solicitors

مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت عورتیں چلا رہی ہیں یا مرد،مسئلہ تو اس اشرافیہ کا ہے جس نے جمہوریت کو ہمیشہ سبوتاژ کیا،وہ اشرافیہ جس نے جمہوری حکومتوں پر شب خون مارا اور جمہوریت کی آڑ میں آمریت کو پنپنے کا موقع فراہم کیا،عوام سے ان کے بنیادی حقوق چھینے،سوال پوچھنے اور سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹی گئیں،کیا جمہوری حکومتیں،جمہوری جماعتیں اور جمہوری سیاست دان ایسے کرتے ہیں؟کیا یہ جمہوریت ہے کہ جب اقتدار میں ہو تو مخالفین کو دیوار سے لگا ئو اور جب خود اقتدار سے باہر ہو تو انسانی حقوق کا ڈھونگ رچائو،کیا انسانی حقوق صرف اقتدار سے باہر رہ کر یاد آتے ہیں؟یہی کام تحریک انصاف کرتی رہی اور یہی کام نون لیگ کر رہی ہے،یہ سب فریب کی سیاست کر رہے ہیں،یہ سب اپنی اپنی انا کی خاطر پاکستان کو کمزور تر بنا رہے ہیں،یہ سب کٹھ پتلیاں ہیں،نواز شریف ہو یا عمران خان،بلاول بھٹو ہے یا فضل الرحمن،یہ کٹھ پتلیاں صرف اور صرف کرسی کو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اور سچائی مانتے ہیں،اس کے علاوہ ان کے نزدیک سب فریب اور دھوکہ ہے ۔آج نواز شریف کہتے ہیں کہ مجھے انصا ف نہیں ملا ، کل عمران خان بھی یہی کہے گا،لہٰذا میری طاقت ور اداروں سے گزارش ہے کہ ہمارے سیاست دان انتہائی مظلوم ہیں،ان بے چاروں کی ڈکشنری میں کرپشن جیسا کوئی لفظ نہیں،یہ پاک صاف ہستیاں کرپشن،جھوٹ اور دھوکے کا سوچ بھی نہیں سکتیں لہٰذا سب کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دے دیں،اس ملک میں بس عوام ہی غدار ہیں کیوں کہ عوام سوال پوچھتے ہیں،عوام بولتے ہیں،عوام آواز اٹھاتے ہیں اور آواز اٹھانے والے ہی غدار ہوتے ہیں،اس قوم کو غداری کی سزا ملنی چاہیے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply