صاحبِ دل والوں کی دلی یا؟۔۔روبینہ فیصل

“دِلی کے مسلمان دِلی میں ایسے پھنس گئے تھے جیسے چوہے دان میں چوہے۔نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔”
مندرجہ بالا جملہ پڑھیں اور بوجھیں کہ یہ 1857کے غدر کا ہے یا 1947 کے تقسیم ِ ہندوستان کا اور یا فروری 2020کے ہنگاموں میں پھنسی(شہریت کا قانون منسوخ ہونے کے بعد) دِلی کا ہے؟
مسلمانوں کی حالت زار پر یہ جملہ تو شاہد احمد دہلوی کی کتاب” دِلی کی بپتا ” سے ہے جس میں وہ تقسیم کے وقت دِلی کے خون آشام 244عات کو احاطہ تحریر میں لائے ہیں اور اس میں 18ستمبر 1947کو دِلی سے روالپنڈی والی ٹرین، جو تین شب اور دو دنوں پر مشتمل ایک دل کو ہلا دینے والا سفر تھا,اس کی رپورتاژ ہے۔مگر آپ چاہیں تو اس جملے کو بغیر کسی جھجک کے1857 کے غدر میں رکھ دیں یا آج کے دہلی میں۔۔۔
بقول میر تقی میر کے:
دِلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
اب تک دِلی نہ جانے کتنی بار اجڑی ہے مگر شہردِلی ایک ایسا فینکس ہے جو بارہا راکھ ہونے کے بعد بھی اسی راکھ سے ایک نئی سج دھج کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی کو انتظار حسین کچھ یوں لکھتے ہیں:
“دِلی نے ہمیشہ ہی وقفے وقفے سے اپنے گود کے پالوں کو بہت رلایا ہے۔ وہ اس کی گود سے چھٹ کر در بدر رلتے پھرتے ہیں۔ ادھر یہ خاک و خون میں لوٹ کر پھر سے جی اٹھتی ہے۔ چولا بدل کر نئے نویلوں کی گود لے کر پھر خوش و خرم نظر آنے لگتی ہے۔ جب مولانا حالی دِلی مرحوم کا فسانہ سنا رہے تھے عین اسی ہنگام،اس خاکستر سے ایک نئی دِلی جی اٹھنے کے لئے کنمنا رہی تھی۔”
2014میں مجھ ناچیز کو بھی جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے ایک اردو کانفرس میں ایک مقرر کی حیثیت سے جانے کا موقع ملا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے ایسے تاریخی اور اسرار سے بھرے شہر میں اپنی زندگی کے تین دن گزارے۔اس پر کئی کالم پہلے بھی لکھ چکی ہوں، آج جو بات شدت سے یاد آرہی ہے وہ اس کانفرس کی مہمان خصوصی اس وقت کی کلچرل منسٹر اور” ساس بھی کبھی بہوتھی” کی مشہور اداکارہ سمتری ایرانی کا اردو کانفرس میں خالص ہندی میں تقریرفرمانا اوراس میں علامہ اقبال کی روح سے معذرت کیے بغیر ان کے شعر کی کمر کچھ یوں توڑنا کہ کسی طرح اردو زبان ہی کی کمر ٹوٹ جائے، فرماتی ہیں؛”ہندی ہے زبان ہماری اور ہندوستان ہے ہمارا۔۔”

میں، جو سنسکرت میں گندھی ہندی کو سمجھنے کی ناکام کوشش میں غرق تھی، یہ مڑا تڑا مصرعہ سن کر چونک اٹھی۔مگر یوں لگتا تھا میرے سوا کسی کو یہ بات چونکنے کے قابل نہیں لگی،یہ دیکھ کر میں بھی خاموش رہی بلکہ کوشش کر کے آنکھوں میں اتری حیرت کو بھی پی گئی کہ کہیں کسی نے اسے دیکھ لیا تو میری ایسی بے وقت کی حیرانگی پر حیران و پریشان نہ ہو جائے۔۔ مگر یہ ضرور پتہ لگ گیا کہ یہاں کے رہنے والے مسلمانوں (اردو کو بچانے کے لئے وہی کوشاں ہیں) کو اس رویے کی عادت ہے اور یہ شاید ان کی روزمرہ زندگی کا ایک عام سا حصہ ہے کہ انہوں نے دل ہی  دل میں یہ تسلیم کر رکھا ہے کہ وہ درجہ دوم کے شہری ہیں تب ہی تواردو کی بقا کے لئے منعقد کی گئی کانفرس میں ہی آکرسادہ سی ہندی (اردو سے ملتی جلتی) بولنے والی ایک ٹی وی اداکارہ جس کا ڈرامہ مشترکہ زبان کی وجہ سے ہی انڈیا پاکستان دونوں میں یکساں مقبول تھا، وہ وزیر بنی اپنے تئیں ثقیل ہندی کی تلوار سے ہی اردو کا گلہ کاٹ کر چلی گئی۔۔۔ میں نے بعد میں منتظمین سے پو چھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ وہ خاموش رہے بلکہ مجھے ٹال کر کوئی اور بات شروع کر دی گئی اور مجال ہے کہ کسی نے اس خاتون وزیر کے اس متعصب رویے پر حیرت کا اظہار کرنے کی جرات بھی کی ہو۔۔ یہیں پر رکیں اور دیکھیں اسی موقع پر شاہد احمد دہلوی،تقسیم ِہندوستان کے وقت دِلی کے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں کیا لکھتے ہیں کہ جسے پڑھ کرہمیں اندازہ ہو جائے کہ غیرت ایک دن میں نہیں مرتی۔

“مسلمانوں کو منہ پر گالیاں دینا، مارنا، ذلیل کرنا، پاکستان نہ جانے کے طعنے دینا۔ ڈرانا، دھمکانا اور ستانا، شرناتھیوں کا شیوہ تھا۔ خود مسلمانوں کی حمیت مر چکی تھی۔ گائے اور کمیلا خود مسلمانوں نے بند کر دیا تھا۔ خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں کرنے لگ گئے تھے۔ پاکستان اور جناح کو بُرا کہتے سنتے تو خود بھی برائی کرنے لگتے۔ پہلے میاں بغیر سوچے سمجھے مار بیٹھتا تھا اور اب پٹنے پر بھی اس کا ہاتھ نہ اٹھتا تھا۔ ذلت کی ٹھوکریں نہ کھاتا تو اور کرتا بھی کیا؟ اس کی فریاد بے کار بلکہ فریاد کرے تو گنہ گار،حمایت کی بجائے عداوت مسلمانوں کا دستور ہو گیا۔ بھائی بھائی کا گلہ کٹوانے لگا۔ ان حالات میں کیا جرات کسی میں باقی رہ سکتی ہے؟دِلی کے مسلمان ہر حیثیت سے اپنی انتہائی پستی کو پہنچ چکے تھے اور اس پر بھی قانع ہو گئے تھے۔ کیونکہ پاکستان آنے کا ان میں بوتا ہی نہیں تھا مجبورا ً دِلی ہی میں انہیں رہنا تھا۔ گاندھی جی کے مارے جانے سے حالات نسبتاً  کچھ بہتر ہو ئے، حکومت کی آنکھیں کھلیں کہ دشمن مسلمان نہیں بلکہ خود ان کے اندر، ان کے ہی ہم مذہب ہیں۔ سیوک سنگ کی وہ جماعت جسے انہوں نے خود ہی پروان چڑھایا تھا، اب خود ان کے لئے ایک بڑا خطرہ بن گئی تھی۔ وہ تو کہیے کہ گاندھی جی جیسی شخصیت کے قتل سے مہا سبھا اور سنگ میں اندر خانے پھوٹ پڑ گئی ورنہ ہندوستان کی موجود حکومت کا تختہ الٹنے میں کیا کسر رہ گئی تھی؟ مسلمانوں سے بار بار مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی وفاداری کا ثبوت دیں، ہندوستانی مسلمان کے لئے تو سوائے وفادار سرکار رہنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ان سے عملی ثبوت مانگا جا تا تھا۔ گاندھی جی کے مارے جانے سے یہ ثبوت بھی مل گیا۔ ”

مزید ایک جگہ لکھتے ہیں:
“ہر طرف فساد برپا تھے، گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں، کنویں مردہ جسموں سے بھرے جا چکے تھے اور اس وقت بھی حکومت کا نظریہ یہ تھا کہ سارے فساد کی جڑ مسلمان ہیں، ان سے ہتھیار لے لئے گئے تھے، سبزی کاٹنے والی چھری تک ان کے گھروں میں نہ چھوڑی گئی تھی۔ دِلی کے اس وقت کے حاکم اعلی مسلمان تھے مگر انہیں بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو چھرا گھونپنے کی واردتیں عام تھیں۔”

اورلکھتے ہیں کہ ” حکومت کی پالیسی یہ تھی مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا دو تاکہ وہ ڈر کر پاکستان بھاگ جائیں اور جو بچ رہیں وہ کبھی سر نہ اٹھا سکیں،مسلمان اس لئے بھی گرفتار کر لئے جاتے کہ ان کی جیبوں سے دیا سلائی برآمد ہو جاتی۔لوگ پریشان ہو کر کانگریسی مسلمانوں کے پاس جاتے تو انہیں کہا جاتا کہ جناح کے پاس جاؤ۔۔ ”

“کرفیو کی پابندیاں صرف مسلمانوں کے لئے تھیں۔نہ داد نہ فریاد، مسجدیں ویران ہو گئیں، کانگریسی مولویوں نے چپ سادھ لی۔ ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ یہ سب کیا دھرا جناح کا ہے۔گاندھی کی پراتھناروزانہ ریڈیو پر نشر کی جانے لگی کہ:
” مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہتھیار مجھے دے جائیں۔”

اس کا آہنسا صرف مسلمانوں کے لئے تھا۔ شاید وہ دنیا کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ سب فتنہ و فساد کی جڑ صرف مسلمان ہیں۔اگست 1947 کے آخر اور ستمبر کے شروع میں حریفوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ انگریزوں کا دست ِ شفقت انہی کے سر پر تھا۔مسلمانوں کے لئے زمین تنگ اور آسمان دور تھا۔۔۔۔۔۔۔گھروں سے باہر نہ نکلتے تو جلا دئیے جاتے اور اگر باہر نکلتے تو تہ تیغ کر دئیے جاتے۔۔ ”
“جب تقریبا ًآدھا شہر مسلمانوں سے خالی ہو گیا تو پرانے قلعے میں کیمپ کھول دیا گیا تاکہ اجڑے ہو ئے مسلمان اس میں جا کر پناہ لے سکیں اور وہاں سے پاکستان جا سکیں۔۔ ”
آج جس جامع مسجد دہلی سے ایک دفعہ پھر مسلمانوں کی آہ و بکا کی آوازیں بلند ہو ئی ہیں، اسی جامع مسجد میں پاکستان بننے کے بعد کئی ہزار خانماں برباد پناہ کی خاطر اکھٹے ہو گئے تھے۔۔دہلوی صاحب وہاں گاندھی کی آمد کا حال لکھتے ہیں:
“مسلمان ان کے درشن کرنے اس قدر بے تاب ہو کر لپکے جیسے مہاتما نہیں آسمان سے پر ماتما اتر آیا ہو, مہاتما گاندھی زندہ باد کے نعروں سے مسجد گونج اٹھی۔اللہ اللہ کیا وقت تھا گاندھی جی کو دیکھ کر لوگ خانہ خدا میں خدا کو بھول گئے۔۔۔وہ خاموش آیا اور تسلی کا کوئی لفظ کہے بغیر خاموش چلا گیا اور اگلے دن مسجد خالی کرنے کا سرکاری حکم نامہ آگیا۔۔۔”

دِلی کی بپتا۔۔اس بدقست شہر کی نہ تو ایک زمانے کی بپتا ہے اور نہ مسلمانوں کی صرف ایک ہی دفعہ لٹنے کی داستان ہے۔۔ اس بپتا کو ہم کسی بھی منظر نامے میں آگے پیچھے کر سکتے ہیں۔ چاہیں تو غدر والے دِلی پر لے جائیں چاہیں تو آج کے دہلی میں۔
1857 میں دِلی کی گلیاں انسانوں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ تب بھی آسمان نے ایسے ایسے رونگٹے کھڑے کردینے والے انسانی مظالم دیکھے کہ کلیجہ ہی پھٹ جائے۔ایک ہی خاندان کے کسی فرد کو سر ِ عام پھانسی دی جاتی تو باقی خاندان کے افراد قطار میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہو تے تھے۔ بوڑھے لوگوں کو بھی سینے میں گولیاں ماری جارہی تھیں۔تب بھی غالب نے کہا تھا؛” لال قلعہ،جامع مسجد کا رش، یمنا پر چہل قدمی اور پھولوں کا سالانہ میلہ دِلی میں ان میں سے اب کچھ بھی نہیں بچا۔۔”

پھر دہلی کی بربادی کا ماتم کرتے کرتے غالب نے انگریزوں کی جیب میں دیا سلائی دیکھ کر ان کے علم وہنر کے گیت گانے شروع کر دئیے تھے۔ اور تب بھی موقع شناس مولوی مسجدوں میں بیٹھ کر مسلمانوں کو انگریز کی اطاعت کے فرمان جاری کر رہے تھے اور ساتھ میں انہیں انگریز کی شیطانی زبان اور تعلیمات سے بچنے کے احکامات بھی جاری کر رہے تھے، جس کا اثر آج تک ہے،کہ انڈیا کا مسلمان اسی کشمکش سے آج تک نکلا نہیں۔ تب بھی ہر دوسرے پر جاسوس ہونے کا شک ہو تا تھا۔ باہمی اعتبار کی فضا ختم ہو چکی تھی، بالکل 1947کی طرح بالکل 2020کی طرح۔۔
مسلمان اپنی وفاداریاں آج کے دن تک ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اسبابِ بغاوت ہند یعنی کہ وضاحتوں کی کہانیاں، ایک دوسرے پر الزام اور ایک دوسرے کی مخبریاں، آج بھی بالکل کل کی طرح ہے۔ یہاں کچھ نہیں بدلا۔۔ صرف جلد کا رنگ بدلا ہے۔۔ گوری چمڑی سے براؤن چمڑی تک کا سفر ہے۔۔باقی دِلی کے اجڑنے کی کہانی وہی ہے۔ دِلی کے لوگوں کا نصیب بھی وہی ہے۔۔ دِلی کی انتظامیہ کا رویہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا جو پرسوں تھا یعنی دہشت گردوں کی سرپرستی اور مظلوموں کو دہشت گرد قرار دینے والا۔ایسے میں اپنے نصیب کو رونے کی بجائے نصیب کو بدلنے کی طاقت ہونی چاہیئے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ محمد علی جناح جیسے باہمت اور خودار لیڈر روز روز نہیں پیدا ہو تے۔ مسلم وہنداتحاد کے سب سے بڑے حامی کا ہندوؤں کی احساس ِ برتری کو پہچان کرکہ وہ مسلمانوں کو برابری کا حق دینے کی بجائے اپنے زیر ِ دست رکھنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ اپنی بااصول سیاست کا سب سے بڑا یو ٹرن لینا اور پاکستان کا بن جانا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اور آج کے ہندوستان کے حالات میں یہ گواہی کچھ زیادہ ہی معتبر ہو گئی ہے کہ سر اٹھا کر جینے کی خواہش رکھنا ہی اصل میں جینا ہے۔ ورنہ آپ کو لوگ ٹھوکروں پر رکھیں گے، زندہ دفن کریں گے، سر عام ڈنڈوں یا گولیوں سے ماریں گے اورآپ کی آہ و بکا بھی بے اثر رہ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی حالت کو بدلنے کا خیال دل میں خود سے نہ اٹھے اور اس کے لئے جناح کی طرح باہمتی سے ڈٹے نہ رہیں تو دنیا کو کیا پڑی ہے کہ آ پ کی حالت کو سدھاریں۔۔ رحم کی بھیک مانگنے کی بجائے اپنے حق کی خاطر دشمنوں کے لئے اتنے بے رحم اور اٹل ہو جائیں کہ آپ کے وجود کو تسلیم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہ جائے۔ دِلی، جے این یو سے اٹھنے والی مساوی حقوق کی تحریک اس بات کی ایک جھلک ہے۔۔خدا کرے دِلی کے مسلمان اپنے حق کی خاطر اور ظلم کے خلاف یو نہی ڈٹے رہیں مگر یہ خوف کل بھی مسلط تھا، آج بھی ہے کہ انگریز اور ہندو دونوں کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ غدار اس قوم میں سب قوموں سے زیادہ سہولت سے مل جاتے ہیں۔۔
قوموں کے اتحاد کو کمزور کرنے والے یہ غدار ہی قوموں کو جھکانے کا باعث بنتے ہیں۔۔ ماشاللہ ہماری قوم ایسے غداروں کی دولت سے مالا مال ہے۔بکنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ دوسرے بھائی کی جڑ کاٹنا ان کی بہترین تفریح ہے۔مگر پھر بھی امید ہے کہ ناانصافی اور سچ کے خلاف اٹھ کھڑے ہو نے اور ڈٹے رہنے والے لوگ اپنی تقدیر بدل لیں گے۔انڈیا جیسے سیکولر اور جمہوری ملک میں اگر آج بھی کچھ نہ بدلا تو کل بھی آنے والی نسلیں اسی تعصب کا شکار ہو کر ذلیل و خوار ہو تی رہیں گی۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”صاحبِ دل والوں کی دلی یا؟۔۔روبینہ فیصل

  1. One of the comments to this column compels me to say something about the author, Rubina Faisal and the Column on Delhi’s current unfortunate situation. I thought it was obvious and clear what the writer intended to express where I find no trace of Munafqat (hypocracy) and yet, someone seems to have doubts about that. I find the comment, a bit unnecessary and uncalled for, but then, everyone is entitled to their opinions.
    Rubina is a well established writer on current affairs, in particular the matters that touch ordinary people in their everyday life – the socio-cultural and political matters.
    Rubina’s latest column on Delhi is obviously her reaction to the political turmoil in India at the hands of its PM and the Minister of Internal Affairs. Rubina has briefly touched upon the history of Delhi reminding us the current mayhem is not new for Delhi, it has gone through such turmoil many times in the past.
    A free and thinking society benefits a great deal from the columns on current affairs. Rubina has been providing a great service to the Pakistani diaspora by constantly writing on the social issues.
    The hot socio-cultural issue which is the talk of the town among Pakistanis in Pakistan and wherever they may be, which is: Mera Jism, Mari Marzi (My body, My choice). I would encourage Rubina to write on this subject. Personally, for me, it’s a non-issue, but obviously not for so many Pakistanis – and then we wonder why Pakistan and its people are so backward. Need I say, a woman has all those rights that a man has about his mind and body.

Leave a Reply