بدبو دار عورت۔۔رمشا تبسم

سڑک کشادہ اور صاف ستھری تھی۔ دونوں طرف ہرے بھرے باغ تھے۔ بائیں جانب خوبصورت بلند و بالا عمارات تھیں۔ دائیں جانب فٹ پاتھ پر ایک بہتے نالے کے پاس گندے کپڑے سے بنی جھونپڑی تھی, جس کے اندر صرف ایک چارپائی نظر آتی جس پر گندے کپڑے یا کچرا پڑا رہتا۔جھونپڑی کے باہر دو درختوں کے درمیانی فاصلے پر کپڑے لٹکانے والی تار باندھی ہوئی تھی جس پر اکثر گندے اور میلے کچیلے کپڑے یا کپڑوں کے کچھ ٹکڑے لٹکے رہتے تھے ۔جو آتی جاتی گاڑیوں کی ہوا سے اُڑ کر اِدھر اُدھر بکھر جاتے۔

ان کپڑوں کو سمیٹنے کے لئے جھونپڑی میں سے ایک گندی پاگل سی لڑکی نکل کر آتی تھی۔ جس کے بال بری طرح الجھے رہتے۔ یوں لگتا تھا جیسے صدیوں سے نہائی نہ ہو۔ جسم پر موجود کپڑے گرد سے اٹے ہوتے۔ جسم کے تمام عیاں حصے جیسے بازو گردن، پاؤں وغیرہ شدید گندے اور میلے ہوتے۔ سڑک کا یہ حصہ انتہائی بدبو دار ہوا کرتا تھا۔گاڑی میں سے گزرنے والے لمحے بھر کو اس کو کچھ بھیک دینے کے لئے رکتے تو شیشہ نیچے کرتے ہی ناک بند کر لیتے۔ بدبو کا بھبھوکا  کسی کو گوارا نہ ہوتا۔

گاڑی رکی۔۔ شیشہ نیچے کرتے ہی ایک آواز بلند ہوئی۔ “بند کر دیں شیشہ کتنی بدبو دار عورت ہے”۔ شیشے میں سے چند روپے اُس کی طرف پھینکے گئے۔ وہ حسب معمول آتے جاتے لوگوں کی جانب اپنا گندہ چہرا کر کے دیکھتی اور مسکراتی ہوئی بالوں میں خارش کرنے میں مگن ہوجاتی۔ اس کی جھونپڑی اور اس سے آنے والی بدبو آئے روز بس بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

آج بھی سڑک پر اس کے گندے اور میلے کپڑے کافی دور تک بکھرتے ہوئے, گاڑیوں کے ٹائروں سے لپٹتے کہیں سے کہیں جا رہے تھے۔ تار کپڑوں سے خالی ہو چکی تھی،مگر وہ باہر نہیں آئی۔آج وہ اپنا واحد اثاثہ یہ گندے کپڑے سمیٹنے سے بھی بے فکر تھی۔ تمام کپڑے صبح سے شام تک ہوا سے اُڑ کر دور تک جا چکے تھے۔

شام کے اس پہر جب سورج چھپنے کو تھا, اُس نے جھونپڑی سے منہ نکال کر پہلے اِدھر اُدھر دیکھا۔ الجھے ہوئے بالوں میں خارش کی۔ اور پھر جھونپڑی کا کپڑا پکڑے پاؤں گھسیٹتے ہوئے باہر کی طرف آ رہی تھی ۔ اس کے باہر آتے ہی اس کے جسم سے آنے والی سڑاند اور بھپکے فضا کو ایک بار پھر متعفن کر رہے تھے۔

ایک گاڑی میں بیٹھے کسی شخص نے شیشہ تھوڑا سا نیچے کر کے اس کی طرف چند روپے پھینکے۔جن کو اس نے اٹھانے کی آج زحمت بھی نہیں کی.آج اُسکو کسی چیز کی تلاش تھی۔ گاڑی چل پڑی۔

لڑکی نے تار پر موجود کپڑے دیکھے۔ کوئی کپڑا آج موجود نہ تھا۔ اسکے گندے چہرے پر اداسی کی واضح جھلک  تھی۔ اس نے ذرا آگے متلاشی نگاہوں سے دیکھا۔ سڑک کے اس پار درخت کے نیچے کوئی کپڑا پڑا نظر آیا۔اس کے گندے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ آئی۔ وہ پاؤں گھسیٹتی اس طرف بھاگی اور کپڑا اٹھا کر جھونپڑی میں لے آئی۔

اِس نے اُس کپڑے میں ، خون میں لت پت اپنے  نومولود بچے کو لپیٹ کر سینے سے لگایا اور پُرسکون ہوکر بیٹھ گئی۔
گاڑیاں اب بھی شیشے بند کرتے ہوئے سڑک کے اِس حصے سے حسب معمول تیزی سے گزر رہی تھیں۔ دنیا کے لیے سب حسب معمول تھا۔۔ اور وہ عورت بدبودار تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا واقعی سب کچھ حسبِ معمول تھا؟؟ اور صرف وہی عورت بدبودار تھی؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply