• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/عراق اور شام کے حکمرانوں کو اِس مذہبی سیاحت کی اہمیت جانے کب سمجھ آئے گی؟(قسط3)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/عراق اور شام کے حکمرانوں کو اِس مذہبی سیاحت کی اہمیت جانے کب سمجھ آئے گی؟(قسط3)۔۔۔سلمیٰ اعوان

صحرا کی رات دیکھنے کا میرا تجربہ نہیں تھا۔صحرائی شاموں کی دید سے میں شام میں خوب لُطف اندوز ہوئی تھی۔کہیں دمشق میں پل پل نیچے اُترتے سورج کے نظارے، کہیں حلب میں ڈوبتا سورج کہیں حمص میں اس کی رنگینیاں۔
شام میں گزرے تیرہ دن جیسے ہوا کے تیرہ معطر جھونکے تھے۔کمرہ بھی ٹھیک ہی مل گیا تھااور ساتھی نسرین بھی اچھی بیبی سی خاتون تھی۔
اس وقت میرے سامنے جو شام تھی اُس نے مجھے ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم والی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا۔ اور جب رات سے واسطہ پڑا تب بھی سانس سینے میں اٹکنے لگا اور آنکھیں جیسے پتھرا سی گئیں۔

دمشق سے بغداد کے راستے میں زیتون کے باغوں، نخلستانوں اور پستہ قامت پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ سرابوں سے بھی آشنائی ہوئی۔
منظروں میں یکسانیت بھی تھی مگر کہیں کہیں بڑی انفرادیت تھی۔چھوٹے شہروں کی وضع قطع جدید انداز کی یوں کہ آٹھ دس منزلہ عمارتوں کے پہلو بہ پہلوکشادہ اور صاف سُتھری سڑکوں پر شجر کاری کی بہتات کے ساتھ ساتھ کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلتی تھیں۔
آسمان کی شفاف نیلاہٹیں کہیں نہیں تھیں۔دھرتی کے مٹیالے پن کے عکس آکاش کی بلندیوں پر منعکس تھے۔
سرابوں نے بہت گمان دئیے۔دُور لمبی لمبی ریل گاڑیاں چلتی تھیں۔دریا نظر آتے تھے۔پانی کی چاندی جیسی چھلیں مارتی بل کھاتی لہراتی لہریں ابھرتیں اور پھر غائب ہو جاتیں۔شفاف ہموار سڑک جیسے پستہ قامت پہاڑی منظروں کا عکس دیتی۔

پتھریلی زمین کے اِس سپاٹ سمندر میں کہیں سیاہ پتھروں کی بارش سی برسی ہوئی جیسے کسی شرارتی بچے نے رنگ برنگے بانٹے اُچھال کر یہاں وہاں بکھیر دئیے ہوں۔کہیں مخمل سی بچھی ہوئی،کہیں بل کھاتے کچے راستے دُور کھجوروں اور کینا کے درختوں سے گھرے گھروں کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے۔
سُورج کا غروب ہونا بھی دل کش تھا۔آتشیں گولا جیسے افق میں ساکت ہو گیا تھا۔جیسے ٹھٹھرساگیا تھااور پھر چند بار پلکیں جھپکنے میں ہی وہ جانے کہاں ڈوب گیا؟
بند شیشوں سے صحرائی زندگی کی صورت کے جتنے رُخ سامنے آئے تھے اُن کے سحر نے دل اور آنکھوں کوعجیب سا سُرور دیا تھا۔

شام کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے تو خلاصی جلد ہی ہوگئی پر عراق نے گویا سُوکھنے ڈال دیا تھا۔ایک تو باتھ روموں کی حالت ناگفتہ بہ۔پندرہ عراقی دینار بھی دینے ضروری اوپر سے خوشبوؤں کی بھر مار۔انتڑیاں باہر نکلنے کیلئے بے قرار و بے تاب۔خدا خدا کر کے انہیں روکااور سمجھایا۔
”بی بی رحم کرو،کچھ ترس کھاؤ،اتنی اُگل اُچھل دکھانے کی ضرورت نہیں۔کِس نے سنبھالنا ہے تمہیں یہاں۔
ہواؤں کے جھونکے نہیں جھکڑ تھے۔سبھوں کے راستے دوزخ کے اوپر سے ہو کر آتے تھے۔
صحرائی رات کا حُسن چیک پوسٹوں کی خستہ حال عمارتوں پر جلتے مدقوق روشنی والے بلبوں اور ٹیوب لائٹوں سے ماند پڑا ہوا تھا۔

خانہ خدا کی حالت بہتر تھی۔مگر ارد گرد جنگ کا بکھرا ہوا فضلہ،جیپوں کے انجر پنجر،گاڑیوں کے دانت نکوستے ڈھانچے ساری کہانی سُناتے تھے۔نماز کے بعدوہیں جائے نماز پر لیٹ گئی۔
شام سے عراق تک اِس اہم شاہراہ پر ”کاش“ریسٹورنٹ ہوتے۔بندہ اُتر کر ٹانگیں سیدھی کر لیتا۔دو گھونٹ چائے پی لیتا۔اتنا زائر۔میرے اللہ اِن حکمرانوں کو کب عقل آئے گی؟
ٹورزم کِسی بھی ملک کیلئے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی طرح ہے اور مذہبی سیاحت Religious Tourismتو اِس باب میں سر فہرست ہے۔

امرتسر کے بی بی کے،ڈی اے وی کالج میں سیاحت پر ایک کانفرنس کے دوران کالج کی پرنسپل مسز کاکڑیا نے پاکستان سے جانے والے ہم مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا پاکستان کا پنجاب ہمارے لئے مسلمانوں کے مکہّ مدینہ کی طرح ہے۔حکومت پنجاب ہمیں تھوڑی سی سہولیات کے عوض اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتی ہے۔”ہائے۔“مجھے محسوس ہواتھا جیسے میرے اندر کی ہوک نے میرے سارے سریر میں اُداسی اور یاس گھول دیا ہے۔کاش کوئی اِس بات کو سمجھے۔کاش ہنگامی بنیادوں پر کام ہو۔
دفعتاً پُکار پڑی تھی۔”حاضر ہو“

پس تو آناً فاناً حاضر ہوگئے تھے۔کتنے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔کتنی بار میٹل ڈیٹکٹرنے سینے سے پاؤں تک چڑھائیاں اور اترائیاں کیں۔ چیک پوائنٹ کسٹم پر کھڑے اپنے اپنے پاسپورٹ پر عراق میں داخلے کیلئے مہر لگوانے والوں کی قطار بہت لمبی تھی۔آخری نمبر پر میں تھی۔عراق کی تاریخ کا جھمیلا دماغ کی راہداریوں میں اُلٹے سیدھے مارچ پاسٹ میں مصروف تھا تبھی میں نے اُسے دیکھا تھا۔
ملاحت بھرا چہرہ، میک اپ سے سجا، سکارف میں لپٹا،نازک سا وجود جینز اور کُھلے بلاؤز میں پھنسامیرے قریب آکر کھڑا ہواتھا۔ خوش آئند بات تھی کہ انگریزی اچھی بول لیتی تھی۔
وہ بغداد سے کوئی پنتا لیس45 کلو میٹر پرMandaliشہر کے ایک سیکنڈری سکول میں سینئر ٹیچر تھی۔مجھے تو ایسا بندہ اللہ دے۔اُس کا ہاتھ پکڑا اور دروازے سے باہر آگئی۔
”لگ جائے گی مہر بھی۔“میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
میں نے دردِ دل کا ساز کیا چھیڑا وہاں تو پل بھی نہیں لگا تھا کہ پلکیں بھیگ گئیں۔ لہجے میں جیسے گِلہ سا گُھل گیا تھا۔
منگولوں نے ہماری تہذیب،ہماری وراثت، ہمارے تمدّ نی اثاثوں کو تاراج کر دیا تھا۔علم و ادب کے خزینوں سے دجلہ کے پانیوں کو سیاہ کر دیا تھا۔
تب خوازم شاہ نے دنیا کے حکمرانوں سے مدد کیلئے کہا تھاپر کسی نے پرواہ نہیں کی۔سینکڑوں سال بعد عصر حاضر کے ہلاکو خان نے بھی ہمیں تاراج کیااورکسی اسلامی ملک کے کان پر جُوں نہیں رینگی۔
میں صدام کو بھی قصور وار سمجھتی ہوں مگر اتنی بڑی سزا۔ہسپتالوں میں جانا نہ بُھولیں۔ جنگ کی صیح تصویر وہاں نظر آئے گی آپ کو۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے اور ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی۔
”عراق پر خدا رحم کرے۔خدا رحم کرے۔میرے عراق پر خدا کی رحمت ہو۔“اِس رحمت کی بہت بار تکرار تھی۔

اُسے میں نے اپنے بارے میں بتایا۔اور اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو جیسے وہ خوف سے بھرے لہجے میں بولی۔
“خدا کیلئے میرے متعلق کچھ مت لکھئیے گا”۔انتہائی کوشش کے باوجود وہ مجھے اپنا نام نہ بتا سکی۔
کلیرنس میں 25000کے نوٹوں نے اہم کردار ادا کیا۔گروپ کا ایک لڑکا دمشق سے غائب ہو گیا تھا۔پھڈا پڑ جا نا تھا کہ بندے پورے کرو۔
پھر جیسے دھیرے دھیرے آسمان پر چراغ جلنے لگے۔رنگوں کی جھلملاہٹوں کی ایک دنیا آباد ہو گئی۔نیلی،سرخ، پیلی، سفید ٹم ٹم کرتی روشنیاں۔باہر اندھیرا تھامگر آسمان روشن تھااتنا روشن جیسے ننّھے مُنّے دیوں کا کھیت سا اُگ آیاہو۔

گاڑی بظاہر صُورت سے تو بہت اچھی نظر آتی تھی۔پر ایک جگہ چلنے سے انکاری ہوگئی۔میں کہوں میرے لئے ہوئی کہ میرا اندر جان گئی تھی کہ بیچاری بے کل اور مضطرب ہے۔گاڑی میں بڑے روایتی لوگ تھے۔ساتھ کا آج چودہواں دن تھا اور وہ میری صورت کم کم دیکھتے تھے کہ مجھے دمشق کے گلی کوچوں نے نہیں چھوڑا۔
حلب کے میوزیم چمٹے رہے۔حمص میں مرقد خالد پررازونیاز کے سلسلے تھے اور اب گاڑی میں باہر نکلنے کیلئے کھڑی ہونے والی پہلی عورت بھی میں ہی تھی۔
ہواہیں تو گرم تھیں۔صحرا میں رات ٹھنڈی ہوتی ہے اِس کی نفی کرتی تھیں مگر آسمان پر تو بارات سجی ہوئی تھی۔
جی چاہتا تھا۔گاڑی تو ٹھیک ہی نہ ہو۔یونہی بیٹھی نظارے لُوٹتی رہوں۔شب کو الوداع اور سحر کو خوش آمدید کہوں۔
”اللہ یہ کہکشاں اتنے قریب کہ بازو پھیلاؤ اور کلاوے میں بھر لو۔“

دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے آنکھیں موند لی تھیں اُس شرارتی بھُوکے بچے کی طرح جو ماں کے دودھ سے پیٹ بھرنے کے ساتھ ہی پرُسکون نیند سو جاتا ہے۔
میں پیغمبروں کی سرزمین پر سفر کر رہی تھی۔میں دنیا کی قدیم ترین ارض تہذیب پر تھی۔تاریخ عراق کے ورق پھڑ پھڑائے۔قدیم ترین میسو پوٹیما (Mesopotamia)اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آئی۔اسلامی عہد جاہ و جلال کے ساتھ وارد ہوا۔جدید عراق اپنے المیوں کے ساتھ ابھرا۔
معذرت کرتے ہوئے میں نے بس اتنا کہا۔
”دیکھو میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔نیند میری پلکوں پر اُتر آئی ہے۔تم سے تو مجھے ڈھیروں ڈھیر باتیں کرنی ہیں۔دل کی باتیں، گہری اور راز کی باتیں۔آخر یہ تمہاری محبت اور چاہت ہی تو ہے جس میں مبتلا میں دُور دیسوں سے مارو مار کرتی تمہارے پاس آئی ہوں۔
گھبراؤ نہیں ہر مرحلے پر میں نے تمہاری معیت میں ہی رہنا ہے۔جگہوں اور لوگوں کے حوالے میں نے تمہاری وساطت سے ہی دیکھنے ہیں۔
ابھی جس پچھلے پڑاؤ پر گاڑی رُکی تھی وہاں ٹینکوں پر چڑھے امریکیوں کو بندوقیں تانے دیکھ کر میں بہت ڈپریس ہوئی ہوں۔لو اب اجازت دو۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply