لہو پکارے آدمی(1)۔۔عامر صدیقی

تخلیق : مدھوکر سنگھ
ترجمہ : عامرصدیقی
مدھوکر سنگھ۔پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ ؁ ء۔میدان: ناول، کہانی، شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفیٰ، کتھا کہو کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵ جولائی،۲۰۱۴ ؁ ء ،آرا (بہار)۔۔۔ترپاٹھی جی کا لڑکا بھیروناتھ آج کی دنیا میں بھی کالج پیدل جاتا ہے۔ جن کی حیثیت ہے ،وہ تو شہر میں ہی رہتے ہیں۔ سری پور کے باقی لڑکوں کے پاس سائیکلیں ہیں۔ گاؤں سے نکلتے ہی اکثر بھیرو کی سڑک پر یا کچھ دور آگے نکل آنے پر نگینہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ سائیکل سوار لڑکے بھیرو ترپاٹھی سے مذاق کرتے ہیں، پنڈت جی کے کرم میں نگینہ مُسہر ہے۔ سن اکہتر کی آخری تاریخ تک ضلع بھرسے ایک ہی مُسہر کالج میں داخل ہواہے اور بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ہے۔ اپنے ہم جماعتوں سے بچ کر چلنا ہی اسے اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر درخت کے پیچھے یا جھاڑیوں میں یا کھیتوں میں اتر جاتا ہے۔ جب ان کی سائیکلیں دور نکل جاتی ہیں، تب نگینہ سڑک پر آتا ہے۔

تاہم، ان کی چھیڑ چھاڑ کا اثر اب اس کے اوپر نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں اسکول میں اسے خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مخالفت،برداشت سے باہر ہوئی تھی۔ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر شہر جانا پڑ گیا تھا۔آوارہ گردی، لوٹ مار، راہزنی، چوری چکاری جیسی وارداتیں عام طور پر ہوتی رہتی ہیں ۔ نگینہ کو ہر بار اس میں پھنسانے کی کوشش ہوتی۔لیکن وہ بال بال بچ جاتا ہے اور خوف کے مارے کانپنے لگتا ہے۔ بھیروناتھ ترپاٹھی کے ساتھ جب سے اس کی دوستی ہوئی ہے، حوصلے مسلسل بلند ہوتے رہے ہیں ۔ برہمن لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔برہمن اور مُسہر کی دوستی عجوبہ بات بن گئی ہے۔ بھیرو کہتا ہے،’’سائیکلیں دونوں کے پاس نہیں ہیں، بزرگوں کے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے۔‘‘اس لئے نگینہ رام مُسہر اور بھیروناتھ ترپاٹھی ایک ساتھ چلنے پر مجبور ہیں اور چھ میل کی دوری دوسراہٹ میں کٹ جاتی ہے۔

اب تو سبھی لوگ ہنستے ہیں کہ مُسہر کے ساتھ رہتے رہتے، برہمن کی عقل بھی مُسہر ہو گئی ہے۔ مگر بھیرو پنڈت کی فکر کچھ دوسری ہے۔ فرسٹ کلاس آنی بھی ہوگی تو نہیں آئے گی ۔ یونیورسٹی میں ہیڈ کی ذات کا ہی لڑکا فرسٹ آتا ہے، پڑھ کر فرسٹ کلاس آنے والے کا زمانہ نہیں ہے۔ نگینہ کیلئے تو یہ سارے واقعات اور بھی عجیب ہیں۔اپنی ذات کا ہیڈ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اپنے بارے میں بھیرو کی طرح تصور کرنے کا لمحہ کب آئے گا؟ اپنے یہاں مُسہر سے چھوٹی کوئی ذات نہیں ہوتی ہے ۔۔ سور کو اور مُسہر کو کوئی ایسا جانور نہیں سمجھا جاتا، جس پر رحم کیا جائے۔ تمام ذاتوں کو اس پر رعب جمانے کا حق ہے۔ دونوں کی کاٹھی ایک طرح کی ہے۔ گاؤں میں لوگ سامان ڈھونے کا کام بیل اور مُسہر سے لیتے ہے۔ نگینہ کا کالج جانا ،سب کیلئے اتنا ہی حیران کن واقعہ ہے، جتنا ایک جانور کا آدمی بن جانا۔ ترپاٹھی جی کو لوگوں نے بہت سمجھایابجھایا ۔’’پنڈت جی ، بھیرو کو سمجھا دو، مُسہرچمار کی سنگت چھوڑ دے۔ برہمن کے گاؤں میں اگر ایسی بات ہو تو سب کی بدنامی ہوتی ہے۔‘‘ترپاٹھی نے صاف سنا دیا،’’ کھانے پینے میں ذات اٹھ گئی تو باقی کیا رہا؟ اب تو شادی بیاہ میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، میرا لڑکا گھر سے پیدل جاتا ہے۔ تمہارے لڑکے اس کے ساتھ پیدل جانے کیلئے تیار ہیں؟ میرے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے تو خرید دوگے کیا؟‘‘

لوگوں نے غور کیا، برہمنوں کی عزت کا سوال ہے۔ اس سال ہولی میں دروازے پر لونڈوں کا ناچ نہیں ہوگا، ترپاٹھی جی کے لڑکے کیلئے چندہ جمع کرکے سائیکل خرید ی جائے گی۔ برہمن اور بھُکّڑ کو دان کرنے سے ثواب ہی ہوتا ہے۔ اس ثواب میں گاؤں بھر کا حصہ رہے گا۔ سب کی چھاتی چوڑی ہوگی۔ نئی سائیکل پر چڑھ کر جاتے ہوئے بھیرو کو نگینہ دور سے دکھائی دیا تو وہ اتر گیا اور بولا،’’آؤ نگینہ، تم آگے بیٹھ جاؤ۔‘‘’’نہیں بھیرو بابا، لوگ دیکھیں گے، تو کیا کہیں گے؟ میں سائیکل چلانا جان جاتا تو تم آگے بیٹھتے اور میں چلاتا۔ اس کا اثر میرے باپ پر پڑے گا۔ کہیں مُسہر ٹولی پر آفت نہ آ جائے!‘‘بھیرو کا ماتھا جھنجھنا گیا۔ اس نے کہا،’’تمہارے لئے کالج میں، میں چندہ کروں گا۔‘‘’’ مگر اُس سائیکل پر میں گاؤں کیسے آ سکتا ہوں؟‘‘۔

’’ گاؤں والوں سے ہم دونوں نمٹ لیں گے۔صرف اپنے دل سے یہ خیال نکال دو۔‘‘’’ چندہ کوئی دے گا؟‘‘’’ یونین سے ابھی تمہارا رابطہ نہیں ہے۔ ہم لوگ تیس مارچ سے ہڑتال پر جا رہے ہیں۔ ایک غلط اور نکمّے لڑکے کو امتحان میں چوری کرا کر فرسٹ کلاس دے دیا گیا ہے۔ وائس چانسلر کے گھیراؤ میں تم بھی رہنا۔‘‘نگینہ کو سائیکل اور گاؤں جیسی چیزوں سے ہٹ کر، بھیرو کے ساتھ ایسی باتوں سے کچھ طاقت محسوس ہوتی ہے۔’’ یونین کا ممبر میں بھی بنوں گا، بھیرو بابا۔‘‘’’ تم کو اپنے سیکریٹری سے ملاؤں گا، اجے سنگھ، ہیرا آدمی ہے۔‘‘’’ ہمارے ساتھ پڑھتا ہے؟‘‘’’ابھی تو دوسرے سال کا طالبِ علم ہے۔‘‘کبھی اسکی تقریر سنی؟‘‘’’ آگ اگلتا ہے، آگ۔‘‘’’تم چلو۔ میں پیدل دوڑ کر آ جاتا ہوں۔‘‘بھیرو کو نگینہ کے ایسے جوش و خروش سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ سائیکل چلاتے وقت لگتا ہے، لوہے کی سلاخوں پر بیٹھا ہے۔ اگر لڑکے سائیکل کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا بتائے گا۔ ان سے کہے گا کہ گاؤں والوں نے مل جل کر خریدی ہے؟ مُسہر کے ساتھ دوستی کی یہی سزا ہے؟ وہ اپنی کلاس میں نہیں گیا بلکہ سیدھا اجے سنگھ کی کلاس میں جا پہنچا۔

اس نے کہا،’’ اجے سنگھ! گاؤں کی روایات میرا قتل کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے اجے کو ساری باتیں بتا دی۔ اجے بولا۔’’ تم بیوقوف ہو بھیرو بھائی، ان سے کہو، نگینہ سائیکل سے چلنے پر دِکھ جاتا ہے۔ موٹر سائیکل خرید دو تو خوب تیز چلاؤں گاتا کہ نگینہ پر کہیں نظر نہ پڑے۔‘‘بھیرو کو ہنسی آ گئی،’’ سری پور کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔‘‘’’ہر گاؤں کے لوگ عجیب ہوتے ہیں۔‘‘’’ چھٹی کے دن میں تمہیں نگینہ سے ملاؤں گا۔ گیارہ چالیس سے ہماری کلاس ہے۔ اس وقت تک ضرور آ جائے گا۔‘‘’’شام کو تم دونوں میٹنگ میں ضرور آنا۔‘‘بھیرو اپنے گاؤں کے ہر لڑکے کو میٹنگ میں لانا چاہتا ہے۔ شاید ان کا دماغ بدل جائے۔ بڑے چھوٹے کا زہر زیادہ دور تک نہیں گھسے۔ راستے بھرآوارہ گردی کرتے ہیں، کیاکوئی بھی انہیں طالب علم کہہ سکتا ہے؟ بھیرو کی باتیں سن کر ساتھیوں نے مذاق اڑایا،’’ یہ بھیروناتھ ترپاٹھی ،گاندھی مہاتما کا اوتار ہے۔ ایک بار بول، گاندھی مہاتما کی جے۔‘‘ بھیرو نے جاگا پانڈے سے پوچھا ،’’پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟‘‘’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میٹنگ میں سیاست ہوگی۔‘‘’’کیسی سیاست؟ ‘‘’’ اجے سنگھ کو امتحان میں فرسٹ کلاس دلانا ہوگا۔‘‘’’ یونیورسٹی میں ذات پات ٹھیک ہے؟‘‘’’ مگر چھوٹے کوماتھے پر چڑھانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔‘‘’’ کیسی بات کرتے ہو! ۔ ہڑتال کے دن ہم مزے اڑائیں گے ، کالج نہیں آئیں گے۔ بازار میں اپنی پسند کی چیزیں لوٹیں گے۔بھیروا ناتھ ترپاٹھی زندہ باد!‘‘’’ کوئی پرواہ نہیں، گاؤں سے نگینہ اور بھیرو ہی رہیں گے۔

‘‘اس نے نگینہ سے مشورہ کیا،’’ ہم لوگ گاؤں میں نوجوانوں کاایک ادارے بنائیں گے، کمیونسٹ، سوشلسٹ،لکھاری، محقق۔‘‘’’سبھی صحیح سمجھ والے لوگوں سے خطاب کرائیں گے۔ تعلیم کتنی کھوکھلی ہے، بھیرو بابا! ہم کیسے برداشت کر رہے ہیں؟‘‘’’اس غلیظ حالت کے خلاف نوجوان کہاں تیار ہیں؟‘‘’’دلی، الہ آباد،سبھی بڑی یونیورسٹیوں میں آغاز صحیح ہی ہوتا ہے، مگر اس جنگ کو بہت غلط موڑ دیا جاتا ہے۔ آگے چل کر یونین ان سے مل جاتی ہے یا گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔‘‘اجے سے ملاقات کے بعد نگینہ کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اس نے نگینہ کو کچھ کتابیں دی ہیں۔ نگینہ نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ کیسی تعلیم ہے؟ لیکچرار بھی یا تو ان کتابوں کا نام تک نہیں جانتے یا پھر لڑکوں کو بتانا نہیں چاہتے۔ لوٹتے ہوئے راستے بھر دونوں کے منصوبے بنے۔ نگینہ سائیکل پر آگے بیٹھا ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے سڑک صاف نظر نہیں آتی۔ مگر ٹرکوں کی مسلسل آمدورفت سے ان کی باتیں رک جاتی ہیں اور دماغ کو جھٹکا لگتا ہے۔

ان دنوں گاؤں میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زمین کی تحریکیں چل رہی ہیں، جہاں بے زمین اس سے آگاہ ہیں، وہاں قبضہ کر رہے ہیں۔ سری پور میں برہمن، چمار، مُسہر، اہیر،کُرمی، ایک آدھ گھر لوہار اور جولاہے ہیں۔ برہمن کے علاوہ دو چار گھر چماروں کے پاس بھی بھی کھیتی ہے۔ مگر ایسا کوئی بھی آدمی نہیں ہے، جس کے پاس پچاس ایکڑ سے زیادہ ہو۔جاگا پانڈے کے باپ کی صرف پچیس ایکڑ زمین ہے، مگر ترپاٹھی جی کے پاس ایک انچ بھی نہیں ہے۔ دادا کے زمانے کا مٹی کا ایک گھر ہے۔

بھیرو کا اس مکان میں رہتے رہتے جی اُوب کیا گیا ہے۔ وہ تبدیلی ضرور چاہتا ہے، لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ ترپاٹھی کی آنکھ کے سامنے والے گڑھے پر ہے ۔’’دو تین ایکڑ سے کم نہیں ہے۔ بے زمین ہونے کی وجہ سے شاید انہیں بھی ملے۔ تب جم کر کھیتی بھی ہوگی اور مٹی کی جگہ اینٹوں کا مکان بھی بن جائے گا۔ تب ترپاٹھی جی خود ہل چلائیں گے۔ دیکھتے ہیں، کون مائی کا لال ہے جو کہتا ہے کہ برہمن ہو کر ہل مت چلاؤ۔ ایسی مخالفت کرنے والے سے جنگ کرے گا۔‘‘جاگا پانڈے کے پاس تو بڑی بڑی سہولیات ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانڈے جی کی زمین میں کیسے اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ادھر ہاتھ مار کے اور گندے شیطانی کام کرنے کے بعد کچھ حیثیت والے اور مالدار بنے ہیں۔ گووند چمار اوربیمانی کے بعد دیولال اہیر کا سارا کھیت ہڑپ لیا ہے۔ گاؤں کا کھوبھاڑی لال سالوں سے سرکاری وزیر ہے، جاگا کی نوکری کیلئے پانڈے جی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ امتحان نہیں بھی دے گا تو پاس کر جائے گا اور نوکری لگے گی۔ وہ کھوبھاڑی لال کو ہریجن ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں ذات پات، شاستر دھرم کی چیز ہے، مگر کھوبھاڑی بابو کو ایشورنے نیا جنم دیا ہے۔ پانڈے جی چماروں کے کان کھڑے کئے رہتے ہیں کہ’’ تیتر مُسہر کا لونڈا نگینہ کچھ ہو گیا تو کھوبھاڑی بابو کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ اندر اندر اپنی لڑائی مُسہر ٹولی کے خلاف تیز رکھو۔مُسہر تم سے چھوٹی ذات کا ہے۔‘‘ترپاٹھی کو اپنے لڑکے کو لے کر بڑی تشویش ہے۔ لڑکا ہی کیوں، پورے خاندان کو ہی لے کر فکرات ہیں۔

پچھلے سال انہوں نے بیٹی کا بیاہ کیا تو پانڈے جی ہنس رہے تھے،’’ بَڑھیا لڑکا نہیں ملا تو پروہت کا کام کرنے والے سے کر دیا۔یجمانی بھی کوئی نوکری ہے؟‘‘ ترپاٹھی جی نے غصے میں گالی دے دی تھی،’’ سالے کو دھن کا گھمنڈ ہے، آنے دو سماج واد۔ آنکھ کاڑھ لوں گا، ہنسی اڑاؤگے تو۔‘‘سب نے پانڈے جی کو سمجھایا،’’ترپاٹھی جی بزرگ آدمی ہیں،معاف کر دیجئے۔ گاؤں جوار کے پروہت اور باپ دادا کے داکِھل ہیں۔‘‘ مگر پانڈے جی نے دوبارہ گالی دے ہی دی تھی،’’سالے کو دم نہیں، گمان سنگھ نام!‘‘بھیرو ،جاگا پانڈے سے زیادہ الجھنا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے حق میں ہے کہ گاؤں کے نوجوانوں کی میٹنگ میں، جاگا بھی اپنی رائے کا اظہار کرے۔ کھوبھاڑی لال ہائی اسکول اسی کے باپ کا ہے۔ کیا جاگا وہاں میٹنگ کرنے دے گا؟ نگینہ کو گاؤں کے اسکول چھوڑ کر شہر میں پڑھنا پڑا ہے۔ پانڈے جی چاہتے تو کیا نگینہ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر باہر جا سکتا تھا؟ تیتر مُسہر حرام زادہ ہے۔ فیس معاف، اسکول کی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ حکومت وظیفہ دیتی ہی ہے۔ اب کیا چاہیے ۔۔۔

گھنٹا؟ تیتر مُسہر بولا،’’گھنٹا نہیں بابا، مالک لوگ کبھی نگینہ کو گالی دیتے ہیں۔ کبھی مار دیتے ہیں۔ پانڈے جی جھنجھلا کرگالی نہیں دیں تو کیا نگینہ چندن ہے کہ پیشانی پر لگائے پھریں؟‘‘’’ پانڈے جی کو ہم  لوگ اپنے ادارے کا صدر بنا دیں۔‘‘بہت غور کرنے کے بعد بھیرو سے نگینہ نے کہا،’’دھت! نوجوانوں کا ادارہ اور بوڑھا ہمارا صدر بنے گا؟ چھی!‘‘ بھیرو ہنسنے لگا ۔’’ہم جاگا کو بھلے صدر مان لیں، مگر اس کا باپ تو سب نوجوانوں کو ہضم کر جائے گا۔‘‘’’ ادارے کا نام سوچا ہے؟‘‘’’ میں نے تو سوچا ہے، اجے سنگھ سے بھی رائے لی ہے۔ ’ترقی پسند نوجوانوں کا پلیٹ فارم‘ سے’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘اگلے اتوار کو بھیرو نے سری پور کھوبھاڑی لال ہائی اسکول میں طالب علموں، ان پڑھ بے روزگار، ذات، پرجات ،تمام نوجوانوں کا ایک اجلاس بلایا اور’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جب اس کے عہدیداروں کے انتخابات کی بات آئی تو زیادہ تر نوجوانوں کی رائے یہ تھی کہ اس کی ذمے داری بھیروناتھ ترپاٹھی کو سونپ دی جائے۔ نگینہ اور ہریجن ٹولی کے لڑکے ہر بات کی حمایت میں بس ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ انہیں گاؤں میں ایک ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔

بھیرو کہنے لگا،’’ پڑھے لکھے اور ہماری پیڑھی کے لوگوں میں ذات پات، لڑائی جھگڑا شرم کی بات ہے۔ ہم گاؤں میں ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں جہاں سے ہمارے شعور کی ترقی ہو۔ ہم نئے خیالات اور روایات کے ساتھ چل سکیں، نوجوانوں کو ادھر مڑ کر بالکل نہیں دیکھنا ہے، جہاں خود غرضی، نفرت اور بغض کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں، بلکہ ہم لوگ مل جل کر اسے ہمیشہ کے لئے بجھا دیں گے، ہم نے عہدیداروں کو منتخب کر لیا ہے۔ تم لوگ کہو تو نام سنا دوں؟‘‘’’نام جلدی سنا دو۔‘‘، زیادہ تر نوجوانوں نے آواز لگائی۔ بھیرو نے نام پڑھنا شروع کئے،’’جاگا پانڈے۔صدر، بھیروناتھ ترپاٹھی۔نائب صدر،نگینہ رام مُسہر۔جنرل سکریٹری، کیلاش ترپاٹھی ۔ سکریٹری، سیوکراموی شوکرمی۔خزانچی، ان کے علاوہ سات افراد کی ایک ورکنگ کمیٹی ہے۔ کسی کو اعتراض ہو تو ابھی ہاتھ اٹھا دو۔ ہم ہر طرح سے ردّوبدل کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ایسا سناٹا رہا، جیسے کہیں غلط کام ہوا ہے اور اچانک دھماکا ہوگا۔’’اگر تم لوگ کچھ نہیں بول رہے ہو تو میں مان لیتا ہوں کہ تم سب راضی ہو۔میری الگ سے تجویز ہے کہ ہماری دوسری میٹنگ میں بحث کا موضوع ر ہے گا’’ بے روزگاری اور زمین کی مرکزیت‘‘۔ پروفیسر شُکدیو چودھری صدارت کریں گے۔ ان کے ساتھ اجے سنگھ بھی آئے گا۔ بولو، کسی کو اعتراض ہے؟‘‘جاگاپانڈے کھڑا ہو گیا اور بولا۔’’ شکدیو چودھری ،ہریجن ہیں سوچ لو، یہاں کے لوگ برداشت کریں گے؟ ‘‘’’جاگا، تمہارا دماغ خراب ہے، کسی کی رائے بھی نہیں سن سکتے، اچھا ،نام تم ہی کیوں نہیں تجویز کرتے؟‘‘بھیرو غصے میں تھا۔’’ اس میں خرابی شروع ہو رہی ہے۔‘‘’’ انتخاب پر پھر سے غور کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply