قصہ حاتم طائی جدید۔قسط3

(کہانی مولوی مقصود کی ، جو عقد ثانی کا مُنکر تھا)

اے حاتم سنو !!!
میں چک نمبر 73 جنوبی کا امام مسجد تھا- علاقے بھر میں میرے جیسا خطیب کوئی نہ تھا- اسلامی دنیا کے مسائل پر میری ہمیشہ نظر رہتی تھی اور میں شب و روز مسلمانوں کے فکری انحطاط ، اس کے اسباب اور ان کے سدباب کےلئے متفکر رہتا تھا-دور دور سے لوگ میرا وعظ سننے آتے تھے- میں سماج کی ہر برائی پر نکیرکرتا اور ان روایات کا خاتمہ فرضِ عین سمجھتا جو عین جاہلیّت کی پیداوار ہیں- اُمّتِ مسلمہ کو ازسرِنو منظم کر کے عظمتِ رفتہ پر کھڑا کرنا ، میرا مشن اور مقصودِ حیات تھا-ایک روز دورانِ مطالعہ کسی عربی رسالے کا ایک مضمون نظر سے گزرا- مضمون کیا تھا ، امت مسلمہ کا نوحہ تھا- یہ ان بہن بیٹیوں کا دکھ درد تھا جو ہماری بوسیدہ روایات کے سبب تجرّد کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- ان میں کنواریاں بھی ہیں ، مطلقہ اور بیوائیں بھی- عالمِ اسلام میں مردوں کے مقابلے میں جن کی تعداد تین گنا ہو چکی ہے- مضمون نگار نے لکھا تھا کہ تعدّدِ ازواج ہی اس مشکل کا واحد حل ہے ورنہ فحاشی کا وہ سیلاب آئے گا جس میں پوری امت خش و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی-

مضمون کیا پڑھا ، راتوں کی نیند اُڑ گئی – اگلے ہی روز آدینہ تھا ، سوچا سوئی ہوئی اُمّت کو جگایا جائے ، اور عقدِ ثانی کے فیوض و برکات سے آگاہ کیا جائے-اس روز سے میں نے ہر آدینہ مسئلہء تعدد ازواج پر موقوف کر دیا- اپنے ہر دھواں دھار خطبے میں مرد حضرات کے ضمیر کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا- میں نے کہا بھائیو اُمّتِ مسلمہ کی کامیابی تعدد ازواج میں ہے ، ہائے افسوس کہ امّت کی بیٹیاں گھروں میں بوڑھی ہو رہی ہیں اور تم ایک ہی زوجہ پر قناعت کئے بیٹھے ہو- ڈرو اس وقت سے جب سیلابِ عریانیّت معاشرتی اقدار کو بہا کر لے جائے گا-میری ان تقاریر کا خاطر خواہ اثر ہوا چنانچہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر بزرگوں نے بھی عقدِ ثانی کے نقد ارادے فرما لئے-

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک شب جب میں وظیفہء زوجیت ، جس میں یہ فقیر سو دفعہ زوجہ زوجہ کا ورد کرتا تھا ، میں منہمک تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی – باہر جا کر دیکھا تو ایک جمِّ غفیر کھڑا تھا-میں پہلے تو گھبرایا کہ معاملہ کیا ہے ، پھر یہ سوچ کر خود کو تسلّی دی کہ شاید کوئی نکاح کا مسئلہ درپیش ہو- چنانچہ مہمان خانہ کھلوایا ، جو کچھ بن پڑا حاضر کیا اور مقصود اس شب گردی کا دریافت کیا-ان میں سے ایک شخص جو فطرتاً نیک اور سعادت مند خاوند معلوم پڑتا تھا یوں گویا ہوا۔۔۔
” اے رہبرو رہنمائے امّت ! تعدّد ازواج پر آپ کے پے در پے خطبات نے ہمارے زنان خانوں میں آگ لگادی ہے- ہماری زنانیاں آپ کے غیر ذمہ درانہ رویّے پر سخت معترض ہیں- گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑنے لگیں ہیں اور محلے میں آپ کے خلاف لاوا پک رہاہے- اس سے پہلے کہ”مولوی بدل تحریک” کا آغاز ہو،”مسئلہء تعدّد ازواج” کو چھوڑیے اور کوئی نیا موضوع پکڑیے ، بلکہ ہو سکے تو” خاوند کے حقوق” پر بات کیجئے تاکہ ہم بھی کوئی دن سُکھ کا سانس لے سکیں”۔۔۔
(جاری ہے )

Facebook Comments

ظفرجی
جب تحریر پڑھ کر آپ کی ایک آنکھ روئے اور دوسری ھنسے تو سمجھ لیں یہ ظفرجی کی تحریر ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply