سابقہ خاندان۔۔روبینہ فیصل

مختلف عمروں کے چندبچے، بھاگ کر آئے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے لفافے ایک ایک بچے کا نام لے کر اسے تھمانے شروع کئے۔یہ اس کا خاندان تھا۔ اور یہ اس کا گاؤں تھا۔ مگر وہ یہاں نہ پیدا ہو ا تھا اور نہ یہ بچے اس کے کچھ لگتے تھے۔ وہ کون تھا؟ اس کی پہچان گم گئی تھی یا یہی اس کی پہچان تھی۔۔یہ بچے۔

وہ ان سب کو تحائف تھما کر قریب ہی پڑی چارپائی پر جا بیٹھا۔ بچے تحائف لینے کے باوجود وہیں،اس کے اردگرد گھیرا ڈالے کھڑے رہے اور جیسے ہی وہ بیٹھا، بچے بھی اسی چارپائی پر اس کے اردگرد ہی بیٹھ گئے، کوئی اس کے کندھے سے لٹک گیا اور کوئی اس کے قریب ہو نے کے لئے اس کے بازو کو چھونے لگا اور ان میں جو سب سے چھوٹا بچہ تھا وہ تو اس کی گود میں چڑھ بیٹھا تھا۔ وہ ان میں اپنے کھوئے ہوئے بھتیجے، بھتیجیاں اوربھانجے بھانجیاں ڈھونڈ رہا تھا۔ یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ اس کے اپنے بچے اس سے چھینے نہیں جا سکے تھے،ورنہ شائد وہ بالکل ہی بے شناخت ہو کر رہ جاتا، اور اپنے بچے بھی انہی بچوں میں ڈھونڈ رہا ہو تا۔

لاہور سے چند کلومیڑ دور یہ چھوٹا سا گاؤں ہی اب اس کی جائے پناہ تھا۔حالانکہ، وہ،وہ تھا جس کے آباء، اسی لاہور سے، اسی پاکستان سے جانیں، عزتیں بچاتے یورپ، افریقہ یا نارتھ امریکہ بھا گ گئے تھے مگر اب وہ اسی دائرے سے ہوتا ہوا، وہیں آکھڑا ہوا تھا اور وہیں اپنی شناخت، اپنا خاندان ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کا خود سے سوال یہ تھا کہ کیا وہ اپنا قبیلہ، اپنا مذہب چھوڑ کر اپنی شنا خت کھو بیٹھا تھا یا اپنی شنا خت پا چکا تھا؟یہ تو دل کی تسلی کا سوال تھا حقیقت میں وہ کسی ایک برادری کا حصہ بننے کو بے تاب ہو کر یہاں تک آپہنچا تھا۔ اس گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تعلیم بھی دلواتاتھا اور ان کے لئے تحفے تحائف بھی لایا کرتا، اور جب یہ بچے اس سے محبت کا اظہار کرتے تو وہ خود کو بتاتا کہ” یہ ہے میری پہچان اور میرا خاندان”.

وہ سوچ رہا تھا مذہب بدلنے کے باوجود ابھی بھی لوگ اسے اسی نام سے پکارتے ہیں جو ا سکے ماں باپ نے اسے دیا تھا، انصرچوہدری۔ ماں باپ،بہن بھائیوں اور خاندان والوں کی لاکھ لاتعلقی اور نفرت کے باوجود، یہ نام اسی کا تھا، اس کے خاندان والوں کے بس میں ہو تا تو شائد اس سے یہ نام بھی چھین لیتے۔اسے چوہدری کہلائے جانے پر کوئی فخر نہیں تھا اورنہ ہی ایسی ذات پات پر کسی قسم کا حق ِ ملکیت لگتا تھا۔اور اب زندگی کو اپنے حساب سے کھودتے کھودتے بھی کئی سال بیت گئے تھے تو اب تو اس کے لئے یہ دنیاوی چیزیں اور بھی زیادہ بے معنی ہو کر رہ گئی تھیں۔

اسے یوں تن تنہا،ادھر اُدھر اجنبی بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر، ان کی ماؤں کے ہاتھوں کے بنے پراٹھے کھاتے دیکھ کر، ان کے باپوں کے ساتھ بیٹھے گپ شپ لگاتے دیکھ کر، لوگ سوچتے تھے، اتنی محبتیں کرنے والا کہاں سے آیا ہے اور کون ہے؟ یہ کو ئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا تعلق ایک بہت بڑے خاندان سے ہے، جس کی جڑیں نہ جانے کہاں سے کہاں تک ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اس خاندان کی جڑیں پو ری دنیا میں کسی بیل کی طرح چاروں طرف پھیلی ہو ئی ہیں کیونکہ اس کا تعلق جس مذہب سے تھا، وہ خون کے رشتوں کے علاوہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایک مٹھی کی طرح بندھے ہو ئے تھے یا کم از کم جب کسی غیر برادری یا غیر مذہب یا غیر فرقہ کے خلاف اکھٹے ہو نا ہو تاتھا۔ یہ شائید سب ہی اقلیتوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ انہیں اپنی بقا کے لئے حد سے زیادہ تنظیم اور اتحاد کا مظاہرہ کر نا پڑتا ہے ورنہ تو ان کو کچلنے کے لئے اکثریت کو کوئی خاص تردد نہ کر نا پڑے یا اگر یہ بھی نہ ہو تو آپس میں ہی جھگڑ جھگڑ کر ختم ہو جائیں،اسی لئے رنگ،نسل، مذہب کی بنیاد پر جو بھی گروپ اقلیت میں ہو گا، زیادہ منظم اور متحد ہو گا۔

اور جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس فرقے کو یا مذہب کو یا کلٹ کو چھوڑ دے گا اور ایک عام مسلمان کی طرح اسلام کے آخری پیغمبر کی تعلیمات کے مطابق ویسی ہی زندگی بسر کر ے گا جیسی اس کے دوسرے مسلمان ساتھی کرتے تھے تواس کے ایسا کرتے ہی ایک ہجوم،جو اس کے اپنوں کا ہی تھا، کائیں کائیں کرتا اس کے گرد منڈلانے لگا اور وہ کائیں کائیں محض ایک شور نہیں تھی بلکہ ایک تقاضا تھی، ایک دھمکی تھی کہ
“ایسا نہ کرو ورنہ عبرت کا نشان بنا دئیے جا ؤ گے۔ ”
“کیسے۔۔وہ بھی جواب میں چلایا، میری زندگی ہے۔۔ میں کینیڈا جیسے آزاد ملک میں ہو ں جہاں کتوں کو بھی جینے کے حقوق ملتے ہیں۔ ”
“تم، برادری سے باہر کر دئیے جا ؤ گے اور یاد رکھو تم کتے نہیں ہو انسان ہو، جس کی ایک ذات ہو تی ہے، برادری ہو تی ہے، گھرانہ ہو تا ہے، اس کے مطابق نہیں چلو گے تو باہر کر دئیے جا ؤ گے۔۔ تم انسان ہو یہ یاد رکھو ۔۔”باپ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آخری فقرہ دانتوں کے نیچے دبا دبا کر نکالاتھا، تاکہ اپنا اثر زیادہ چھوڑے۔۔

“کون سی برادری؟ چوہدری برادری یا ہمارے مذہب کی برادری؟ اگر تو مذہب کی بات ہے تو مجھے پروا نہیں میں ان کو نہیں مانتا۔ اگر ذات پات کی بات ہے تو ٹھیک ہے وہ لوگ بھی نہ اپنائیں مجھے۔۔ مجھے چوہدری بن کر یہاں کینڈا میں، یا اپنے پروفیشن میں، کیا فائدہ ہے؟چوہدری بن جاؤں گا تو کیا یہاں ٹورنٹو میں مجھے مزارعے مل جائیں گے؟ ”
“ہمارا مذہب ہی ہمارا سب کچھ ہے، ذات، برادری، خاندان سب کچھ اسے چھوڑو گے تو سب تمہیں چھوڑ دیں گے۔۔ تمہارے بہن بھائی، رشتے دار، حتی کہ تمہاری شادی بھی خود بخود ختم ہو جائے گی۔۔ بچے بھی تمہارے نہیں رہیں گے۔” باپ اب باقاعدہ غرا نے لگا تھا۔

“شادی کا اس سے کیا تعلق۔۔؟وہ یہ بات سن کر دم بخو رہ گیا بچے میرا خون ہیں، مجھ سے کیسے الگ کئے جا سکتے ہیں؟ اورمیں آپ کا خون ہوں مجھ سے کوئی کیسے یہ شناخت چھین سکتا ہے؟”

ماں نے کہا: “یہ سب چھوڑو یہ تو ہو گا ہی مگر ایک بات اور کان کھول کر سن لو میں تمہیں اپنا دودھ تک نہیں بخشوں گی۔۔ کچھ نہیں بچے گا تیرے پاس، یہ خناس دماغ سے نکال دے۔۔ ”
“نہیں اماں! جو دودھ پلا بیٹھی ہو، وہ کیسے بدن سے نکالو گی۔۔؟ہے کوئی طریقہ خون اور دودھ کو واپس لینے کا؟ ہے کوئی۔۔؟”وہ بھی غصے سے آپے سے باہر ہو نے لگا تھا۔

“تیرے جسم سے واپس نکالنے کا نہیں، بخشنے کا کہہ رہی ہوں۔۔ نہیں بخشوں گی،مجھے مجبور نہ کرو۔۔ ماں ہوں لیکن پہلے اپنے مذہب کی وفادار ہوں، بہت احسان ہیں اس مذہب کے ہم پر۔۔ اس کے نہ ہو تے تو بھوکوں مر جاتے، بے شناخت اور بے آسرا اور جانتا ہے نا پاکستان میں ہو تے تو اب تک کاٹ کر پھینک دئیے جا چکے ہو تے۔۔ ”

“اچھا! اگر بخشنے کی با ت ہے تو اس کی تم فکر نہ کرؤ، اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو کہ مجھے اس نے کیا بخشنا ہے اورکیا نہیں۔۔ اور تم اپنے مذہب کی وفادار رہو بلکہ ان لوگوں کی احسان مند رہو جو احسانات کر کے مذہب کی قید میں اس طرح باندھ کر قید میں ڈالتے ہیں کہ پھڑپھڑانے بھی نہیں دیتے ایسا کنٹرول تو اللہ نہیں کرتا۔۔ کیا اللہ نے کبھی یہ کہا تم سے کہ میرے ہاتھ میں تمہاری زندگی اور موت ہے تو بس میری ہی سنو اپنی کرو گے تو روٹی نہیں دوں گا، نوکری نہیں دوں گا اللہ تو عیسائی،ہندو، یہودی، دہریہ، سب کو دیتا ہے۔۔روٹی بھی دیتا ہے، عزت بھی۔۔ زندگی بھی۔۔ بدلے میں وہ سوچنے کا کہتا ہے اور میری سوچ یہ کہتی ہے کہ جو تم لوگ کر رہے ہو غلط ہے جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں وہ مجھے برحق لگتا ہے۔۔ ” یہ بات کہتے کہتے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پتھروں میں سوراخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ ٹس سے مس نہیں ہو نے کے۔۔

” اچھا سن!تو دہریہ ہو جا جیسے تیرے کتنے ہی دوست ہو گئے ہیں مگر یہ نہ کر جو تو کر رہا ہے۔ مذہب ہی چھوڑ دے، خدا کو ہی نہ مان، بس مکمل کافر ہو جا۔یہ آدھا پورا کافر نہ ہو۔۔ “باپ نے اب منت بھرے انداز سے اسے اپنے تئیں ایک بہتر پیشکش کی۔
“کیوں؟ میں کیوں وہ مذہب چھوڑ دوں جسے میں نے اچھی طرح پڑھ کر سمجھ کر قبول کیا ہے۔۔ میں یہی والا مسلمان بننا چاہتا ہوں۔۔ بس کہہ دیا۔۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا اور ساتھ بات میں مزید وزن پیدا کر نے کو سامنے پڑی میز پر ایک مکہ بھی مار دیا۔
“اللہ نے سوچنے سمجھے کی صلاحیت دی ہے، اسے استعمال کریں بھائی جان۔ “ایک بھائی چلا اٹھا۔

“اگر یہی میں آپ لوگوں سے کہوں تو؟ میں نے باپ کی جگہ ہو کر تم لوگوں کو پالا ہے میں اس گھر کا سربراہ ہوا نا؟ تو میری بھی تو سنو “۔ وہ یہ احسان جتانا نہیں چاہتا تھا مگر ان سب کو یہ احساس دلانے کے لئے کہنا ضروری تھا کہ وہ ان کے ساتھ اتنا مخلص تھا، ان کا ہمدرد تھا، سب اس کی ذہانت اور عقلمندی کی مثالیں دیا کرتے اب ایک دم سے وہ کیسے کم عقل اور بے حس ہو گیا۔۔”
“ہمارے اخراجات اٹھانے کا طعنہ نہ دیں،وہ آپ کا فرض تھا اور اگر کر ہی دیا ہے تو نیکی کو جتا کر اسے بھی ضائع کر رہے ہیں۔۔ نہ کریں ایسے،ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جائیں گے، ہمیں اپنی جماعت کو راضی رکھنے کے لئے آپ کو مکمل طور پر چھوڑنا پڑے گا۔ناخن سے گوشت الگ کرنا پڑے گا۔۔ “سب سے چھوٹا بھائی بھی پیچھے نہ رہا اور بول اٹھا۔
“ایک طرف آپ لوگ کہہ رہے ہیں سوچنے کی صلاحیت استعمال کر وں، دوسری طرف جب یہ صلاحیت استعمال کرتا ہوں تو دھمکانے لگتے ہیں۔ آخر آپ لوگ مجھے میرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟”

“حال پر چھوڑ دیں تو آپ مارے جا ئیں گے اور ہم بھی۔۔” دونوں بھائی ایک ساتھ بولے۔
“کیسے مارا جاؤں گا۔۔ ہم کینیڈا جیسے ترقی یافتہ اور آزاد ملک میں ہیں اور یہاں مجھے سوچنے کی اجازت بھی ہے اور اپنی مر ضی سے زندگی گزارنے کی بھی۔۔ آپ لوگ اپنی مر ضی کی زندگی بغیر کسی خوف کے اور دباؤ کے گزارنے یہاں اٹھ کر آئے ہیں نا؟ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجھے آپ اسی طرح کے دباؤ، گھٹن اور انہی دھمکیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ تو اس سے اچھا یہ نہیں کہ میں پاکستان ہی چلا جاؤں؟
“ہم تمہیں دھمکی نہیں دے رہے بر خودار، تمہاری آئندہ آنے والی زندگی کا نقشہ بتا رہے ہیں اور انسان کا ملک وہی ہو تا ہے جہاں اسے اپنےعقیدے کے حساب سے جینے کی آزادی ہو تی ہے۔۔ “باپ نے بڑی مشکل سے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا۔

“تو ٹھیک ہے طے ہو گیا کیونکہ اب مجھے پاکستان میں اپنے اس عقیدے کے ساتھ جینے کی آزادی ہو گی اب تو مجھے وہاں کوئی نہیں تنگ کرے گا۔اب تو یہ آزاد ملک آپ جیسے اپنوں کی وجہ سے میرے لئے قید اور موت بن جائے گا۔۔یہی نقشہ ہوگا نا اب میرا ؟ آپ لوگوں نے ہی تو بنانا ہے۔ آپ جو دھمکا رہے ہیں میرے مستقبل کا نقشہ بھی آپ ہی بنائیں گے، چاہے یہ اتنا بڑا آزاد ملک ہی کیوں نہ ہو برادری پریشر موت سے بھی بدتر ہو گا؟ ہے نا؟اور موت یہی تھوڑی ہے جو پاکستان میں ملتی ہے ٹارگٹ کلنگ یہ بھی تو موت ہے جو آپ لوگ کہہ رہے” ۔ان سب کی دھمکیوں سے انصر کے اندر بغاوت اور مضبوط ہو نے لگی تھی،اس کی طبعیت میں ہٹ دھرمی نہیں تھی مگر جب سے اسے یہ احساس ہوا تھا کہ مذہب کے نام پر یہاں جوبیوپار سجا ہوا ہے اور کیسے سب اس میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے سچ کی تلاش میں بہت عرصہ ان بھول بھلیوں میں گھومتا رہا مگرجب ایک دفعہ ان سے نکل گیا تو پھر وہ ڈٹ گیا۔ اور جب اس کے اندر خود کی اس دریافت کے بعد طمینان پھیلنے لگا تو اس نے اسی قبیلے کے اپنے ایک دو قریبی دوستوں سے یہ سب باتیں کیں۔ اس کی خوش قسمتی یہ ہو ئی کہ ان میں سے ایک آدھ پہلے ہی اُس والے نتیجے تک پہنچ چکے تھے مگر وہ status quoسے ٹکرانے کی ہمت نہ رکھتے تھے،لہذا ان کا خیال تھا یا تو بالکل خاموش ہو کر بیٹھ رہیں اور جو ہو رہا ہے اسے ایسے ہی ہو تے رہنے دیں اور یا پھرمکمل طور پرمذہب کے ساتھ ساتھ خدا کو بھی خیر باد کہہ دیں، اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو گا الٹا گھر بیٹھے بٹھائے دانشوری کا سر ٹیفیکٹ بھی مل جائے گا۔ مگر اسے نہ دوغلی زندگی جینا تھی اور نہ اس خدا سے انخراف کرنا تھا،جو اس کا، اس خوبصورت کائنات کا خالق تھا اورجس نے اسے سوچنے سمجھنے کو دماغ اور ایک محبت بھرا دل دیا تھا۔۔ وہ کیسے چند لوگوں کے خوف سے، چاہے وہ لوگ اس کے اپنے ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار یا استاد ہی کیوں نہ ہوں، اپنے اللہ کو یا دل کے اطمینان کو چھوڑ دے؟۔۔۔ وہ ایک محبت کر نے والا انسان تھا اسی لئے شائداسے امید تھی کہ اس سے مکمل لاتعلقی والی یا اس کو بر باد کر نے والی بات محض ایک دھمکی ہے خاص کر کے ماں باپ کیسے اپنے بیٹے کو چھوڑ سکتے ہیں یا اس کا بسا بسایا گھر بر باد کر سکتے ہیں؟

مگراس کی یہ خوش گمانی جلد ہی ختم ہو گئی کہ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ا س کی زندگی کا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے پو رے کا پورا ٹورنٹو شہر اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اہے، دنیا کا آزاد ترین شہر جہاں کے قانون نے اسے ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی، جہاں اس کے آباؤ اجداد یہ کہہ کہہ کر پناہ گزین ہو ئے تھے کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور یہ کوئی ایسا جھوٹ بھی نہیں تھا، مذہبی انتہا پسندی، اور سیاسی و معاشی ضروریات کی وجہ سے وہاں عدم برداشت کا رواج دن بدن بڑھتا جا رہا تھا، کفر کے کسی بھی قسم کے فتوے تلے آکر کوئی بھی کبھی بھی اور کہیں بھی مار دیا جاتا تھا۔ مگر یہاں؟ یہاں کون ہے جو اس کی سوچ پر پابندی لگا رہا ہے؟یہاں تو کوئی اس سے نفرت نہیں کر رہا،یہاں تو سب انسان برابر ہیں۔ یہاں تو پاکستان کے بگڑے نواب بھی عام انسان کی طرح سوچتے بولتے اور سنتے ہیں۔۔۔ یہاں کیا۔۔ یہاں کیا؟ مگر وہ یہ دیکھ نہیں پا رہا تھا کہ زمانوں اور رویوں کی گٹھٹریاں یہاں آکرمذہب کے نام پر انسانوں کا بوجھ مزید بڑھا رہی ہیں۔

وہ جواپنے آپ کو جذباتی طور پر مضبوط اور عقلی طور پر ٹھیک سمجھتا تھا اب کچھ کچھ بکھرنے لگا تھا۔عقل کا فیصلہ تو کہیں بعد میں ہو نے والا تھا لیکن اسے جذباتی طور پر اتنا توڑ دیاگیا کہ وہ انتہائی مضبوط انسان ہو نے کے باوجود رات کے اندھیرے میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا تھا۔۔اس کے خاندان کی دھمکی کی پہلی عملی صورت، اس کی سالہا سال کی اچھی خاصی چلنے والی شادی تھی، اس کا بسا بسایا گھر، وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا تھاور اس کی بیوی بھی ایک وفا شعار، اچھی بیوی تھی مگرجب اس کے گھر والے اسے لینے آئے تو وہ حیران پریشان سی ان کے ساتھ خاموشی سے چلی گئی تھی، شائد اس امید کے ساتھ کہ اس کے طلاق کے مطالبے سے وہ اپنی ضد چھوڑ دے گا اور دوبارہ سے وہی نارمل زندگی گزارنے لگے گا جیسی وہ بچپن سے گزارتے آئے ہیں اور جیسی ان کے باقی خاندان کے لوگ گزار رہے ہیں، انصر کو ایسا کرنا ہی پڑے گا ورنہ ان کی بیٹیوں سے کون شادی کر ے گا؟ ان کا مستقبل تو برباد ہو جائے گا۔ اس کی بیوی صفیہ، دو کشتیوں پر سوار ہونے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی اس لئے ماں باپ کی کشتی میں سوار ہو کر چلی گئی۔۔لیکن طلاق کا نوٹس بھیج کر بھی آدھا دروازہ اس امید پر کھلا رکھا کہ وہ اسی آدھے دروازے سے اس کے پاس لوٹ آئے گا۔مگر وہ نہ آیا۔۔۔ بیوی سے لاکھ محبت کے باوجود وہ واپس نہ آیا۔۔
بلکہ سوچتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات کہنے کی اتنی بڑی سزا؟
یہ ہیں ماں باپ؟
یہ ہیں بہن بھائی رشتے ناطے۔۔۔؟
یہ تھی میری بیوی؟

پھر اس پر ایک اور کمر توڑ حملہ کیا گیا، اس کی بیٹی کی شادی پر اسے نہ بلا یا گیا، بڑی بیٹی جس میں اس کی جان تھی، نکال کر کسی اور کے حوالے کر دی اور اس سے کسی نے پو چھا تک نہیں تھا، نہ پوچھتے اسے بلا ہی لیتے مگر ایسا بھی نہیں ہوا،وہ منتیں ہی کرتا رہ گیا اور اس کی بیٹی رخصت بھی ہو گئی۔اسے ایک ایک کر کے وہ سب نیکیاں یاد آنے لگیں جو اس نے ضرورت کے وقت مختلف رشتے ناطوں یا دوستوں کے ساتھ کی تھیں مگر اب ان سب کی نظروں میں اس کے لئے محبت، تشکر یا ہمدردی تو دور کی بات صرف اور صرف حقارت تھی، وہ جس سے بھی اپنا یہ دکھ شئیر کرنا چاہتا وہی اس کو کہتا “جو کیا ہے اب اسے بھگتو، کیا ہوا گھبرا گئے؟ مذہبی پریکٹس نہ کرتے بس خاموش رہتے، تم نے تو کھلم کھلا اعلان ہی کر دیا اور اس پر مذید پٹرول اس مذہب کے خلاف بول بول کر چھڑکتے ہو، تو تمہارے اباؤ اجداد کا ہے۔۔۔۔۔ اب بھگتو۔۔ اب کیوں گھبراتے ہو۔۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔”
اپنوں میں سے کوئی اس سے ظاہری ہمدردی کرتا یا کوئی کھلی نفرت مگر سب رویوں کا نتیجہ ایک ہی ہو تا کہ;
” جاؤ مرو۔۔ بھاڑ میں جاؤ مگر اب ہم سے دور رہو۔۔۔”

یہ تھی انصر چوہدری کی حقیقت، جس سے یہ سیدھے سادے گاؤں کے لوگ نا آشنا تھے، اس کے” ماضی “سے لاتعلق بس اسے اپنے “حال” کا روشن چراغ سمجھتے تھے۔۔ وہ شہری بابو ، جس کا نام انصر چوہدری تھا، مگر جو کسی بھی نام سے کہلایا جا نا پسند نہیں کر تا تھا، چھوٹوں کو کہتا؛
“مجھے بابا کہو، چاچا کہو، ماما کہو، تایا کہو، بڑوں کو کہتا بیٹا کہو، پتر کہو۔

“وہ جو ایک بڑا وکیل تھا، ان کے بچوں کو پڑھاتا تھا، ان کے لئے تحائف لاتا تھا، خوشی غمی میں ان کے ساتھ ہو تا تھا۔ وہ ان میں سے تو نہیں تھا مگر اب ان کے خاندان کے ایک فرد جیسا تھا۔
یہ وہی جانتا تھا کہ وہ خاندان برادری کا ٹھکرایا ہوا،رب کی اس بڑی کائنات میں، جس میں وہ سب انسانوں کو ایک آفاقی رشتے سے جوڑتا ہے ایک خاندان کی تلاش میں ان تک آپہنچا ہے،خونی رشتوں کی جدائی کی کسک کو دبائے رکھتا ہے اور خوش رہنے کے لئے ایک مسلسل جد و جہد میں لگا ہوا ہے، یہ جد و جہد اب اسے درویشی کی طرف لے جانے لگی ہے۔
پھر ایک دن یہ دبی ہوئی کسک، درد بن کر اس کے سامنے آکھڑی ہو ئی، جب اسے اپنی بہن جواسکٹسوفرینیاکی مریضہ تھی کہ بارے میں خبر ملی کہ وہ گھر سے باہر نکل جاتی ہے اور کب کیسے واپس آتی ہے کسی کو نہ پتہ ہو تا ہے اور نہ کوئی پتہ رکھناچاہتا ہے۔یہ خبر سنتے ہی وہ سب چھوڑ چھاڑ کر کینڈا آگیا کہ اس کے خاندان نے اسے دھتکارا تھا اس نے نہیں۔

“وہ کب جاتی ہے کب واپس آتی ہے،کہاں جاتی ہے کس کے ساتھ رہتی ہے، آپ لوگوں کو کوئی خبر ہے کہ نہیں؟” انصر نے آتے ہی ماں کو فون کر کے اپنی بیمار بہن کے بارے میں استفسارکیا۔
“تمہارا اس سے کیا واسطہ؟ ماں نے فون پر اس کی آواز سنی، وہ کینیڈا کا نمبر دیکھ کر سمجھ تو گئی تھیں کہ وہ اب یہیں ہے مگر پھر بھی لہجے میں وہی سالوں پہلے والی سرد مہری اسی طرح، وہیں کی وہیں موجود تھی۔
“امی!! خدا کا واسطہ ہے میں تو نافرمان ہوں وہ تو آپ کی فرمانبردار بیٹی ہے، اس خاندان کی، جو اپنی بیٹیوں کو یہاں کینیڈا میں بھی نقاب پہناتا ہے تاکہ حجاب اور حیا قائم رہے تو اب کیا ہو گیا ہے۔۔ وہ بیمار ہے تو مطلب، عورت نہیں رہی یا باحیا نہیں رہی یا ایک بیمار عورت کے لئے خاندان کا پردہ کچھ نہیں رہتا؟ “کہتے کہتے وہ رونے والا ہو گیا؛”وہ ہے کہاں؟ ”
“تمہارا اس بات سے کوئی واسطہ نہیں ہو نا چاہیئے۔ ہیں اس کے دوسرے بھائی بھی۔۔ “ماں نے روکھائی سے جواب دیا۔

“امی!!یہی تو کہہ رہا ہوں دوسرے بھائی کہاں ہیں۔۔ اچھا!!مجھے گالیاں دے لیں، نہ دیکھیں کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا ہوں۔۔ مگر اس کو تو دیکھ لیں یا مجھے بتا دیں میں اس کو دیکھ لیتا ہوں۔”
“تم سے مطلب؟جاؤ اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔”ماں نے غصے سے فون بند کر دیا۔۔

اس دن اتفاق سے عید تھی، اس کی آنکھیں بھر آئیں “ماں نے مجھے عید مبارک بھی نہیں کہا۔۔ مجھے یہ بھی نہیں پو چھا کہ تم کیسے ہو؟ ”

ممتا کے بارے میں تو کتنی نرم نر باتیں مشہور ہیں حتی کہ جانوروں کی مائیں بھی انہیں زمانے کی تپش سے بچانے کے لئے پروں میں چھپا لیتی ہیں۔ یہ کیسی ماں ہے، میں ایسا بدقسمت کیوں ہوں کہ میری ماں کو مجھ سے محبت ہی نہیں یا ہے تو وہ اس کی انا سے چھوٹی۔کیا ایسی بھی مائیں ہو تی ہیں؟

اپنے خاندان کے لاتعلقی والے رویے کو درگزر کر کے وہ ا پنی بڑی بہن کے لئے ادھر اُدھر مارا مارا پھرنے لگا اور پھر آخر ایک دن اس کی محنت رنگ لائی اور اسے اپنی بہن ایک شیلٹر ہوم میں مل گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا اوراس نے اسے گلے سے لگالیا اور سالوں کا غبار جس میں اپنے دکھ سے زیادہ اب بہن کا دکھ شامل تھا، آنکھوں سے نکلتا رہا۔ اس کو ایسے بچوں کی طرح روتے دیکھ کر بہن بھیرونے لگی اورجب وہ دونوں اچھی طرح رو چکے تو انصر کو اپنے جسم میں ایک انجانی سی قوت کا احساس ہوا اور اس نے سوچا؛
“سچ ہی کہا گیا ہے کہ کبھی کبھار رو لینے سے انسان طاقتور ہو جاتا ہے۔” پھر اسی طاقت کے سہارے اس نے بہن کو اپنے ماں باپ والی بلڈنگ میں ہی ایک اپارٹمنٹ لے دیا, وہ جانتا تھا کہ ایسے مریضوں کو وقت پر دوائی دینا ہی ان کا سب سے بڑا علاج ہے۔اور ایسا ہی ہوا جب اس نے اپنی بہن کا خیال رکھا اورا سے اچھا کھا نا، وقت پر دوائی اور خلوص ملا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے بھلی چنگی ہو گئی۔۔بہن کے چہرے پر پھول کھلتے دیکھ کر، اور زندگی کی طرف صحت مند رویہ اپناتے دیکھ کر انصر کو لگا کہ اس نے صدیوں کا قر ض اتار دیا ہے کہ وہ، نہ صرف ایک انسان کو نارمل زندگی کی طرف لایا تھا بلکہ اپنے اس خاندان کی نام نہاد عزت اور غیرت کو بھی بچا لیا تھا، جس خاندان نے اسے اپنے وجود سے کاٹ کر الگ کر دیا تھا۔۔ یہ سب تلخیاں بھول بھال کر اس نے اپنی ماں کو خوشی خوشی فون کیا۔۔

“ماں!نبیلہ مل گئی ہے، میں نے اسے یہیں آپ والی بلڈنگ میں اپارٹمنٹ لے دیا ہے۔۔اب وہ وقت پر دوائی اورکھانا کھاتی ہے تو بہت بہتر ہو گئی ہے بلکہ سمجھیں بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔۔۔اسکا خیال تھا یہ سنتے ہی اس کی ماں خوش ہو جائے گی مگر اس کی بجائے وہ غصے سے بولیں “تم ہو تے کون ہو اسے گھر لے کر دینے والے۔۔ ”
“وہ سڑکوں پر کھجل خوار ہو رہی تھی۔۔ آپ جانتی ہیں وہ ایک سکھ کے ساتھ پھرتی رہتی تھی؟”
“وہ جہاں مر ضی رہے۔جس کے ساتھ مر ضی پھرے مگر تمہیں جب ایک دفعہ خاندان نے نکال دیا ہے تو کس حق سے تم نے اس کی مدد کی؟ ہم لوگ ابھی زندہ ہیں۔۔ “ماں کی نفرت بھری آواز نے اس کے سینے میں جیسے آری سی چلا دی ہو۔۔

“امی! میں آپ کے مذہب سے نکلا ہوں، انسانیت سے نہیں۔۔ ایک انسان ہو نے کے ناطے۔۔۔۔”
ماں نے اس کی بات کاٹ دی۔۔” انسان؟ انسان ونسان کچھ نہیں ہو تا۔۔مذہب کے بغیر انسان کتا ہے۔۔ تم کتے ہو، جاؤ بھاگو یہاں سے.”
“میں واپس چلا جاؤں گا۔۔ نہیں رہوں گا یہاں، مگر اس کو تو دیکھ لیں۔۔ میں منت کرتا ہوں آپ کی۔ ”
“اس کے دوسرے بھائی اس کو دیکھ لیں گے, تمہارا کوئی احسان قبول نہیں ہے اس سے بہتر وہ سڑکوں پر ذلیل ہو یا کسی سکھ کے ساتھ رہے،سنا؟ “ماں کا لہجہ برف کی طرف سرد تھا۔

“امی!!سکھ کے ساتھ رہنے سے مذہب خراب نہیں ہو تا؟ “اس نے حیرت سے پوچھا۔
“نہیں مذہب، مذہب چھوڑ دینے سے خراب ہو تا ہے جو تم نے کر دیا ہے۔۔۔ جان چھوڑو، ہماری کمیونٹی تم جیسے غدار کا سہارا مر کر بھی نہیں لے گی اور یاد رکھو تمہاری سابقہ بہن۔۔۔۔۔۔”
“سابقہ بہن۔۔؟” وہ چلا یا۔۔ “بہنیں بھی سابقہ ہو تی ہیں؟ ”

“ہاں جب جڑیں کاٹ دو تو ماں باپ بھی سابقہ ہو جاتے ہیں۔ہم بھی تمہارے سابقہ ماں باپ ہیں۔۔ واپس لوٹنا ہے تو یہی ہمارے والے عقیدے کو اپناؤ اور لوٹ آؤ۔۔ تب ہی ماں بھی ملے گی اور اس کی گود بھی اور پیار بھی۔۔ بیٹیوں کی شادیاں بھی دیکھو گے، بہنوں کا بھی سنبھال سکو گے، بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو سکو گے، ہمارے جنازوں کو کندھا دے سکو گے۔۔لوٹ آؤ۔۔نہیں آتے تو پھرخدا حافظ۔۔۔” اورفون کٹ گیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور وہ سلسلہ منقطع ہونے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اس بڑے سے شہر سے اپنے” سابقہ خاندان” کو ہمیشہ کے لئے بھول کر اُس چھوٹے سے گاؤں میں اپنے” حالیہ خاندان “کے پاس واپس چلا جائے، جہاں مختلف خاندانی پس ِ منظر اور مختلف مذہب کے لوگ بڑی شدت سے اس کے منتظر ہیں کہ ابھی تک انصر چوہدری ان کی امیداور اعتماد کے معیار پر پو را اتر رہا ہے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply