ناول “یہ پالا ہے” سے ماخوذ “بیوپار”۔۔عارف خٹک

روزینہ کی شادی تھی، اس لئے آج مجھے مویشی چرانے سے چھٹی مل گئی تھی۔ گاؤں کی عورتیں جمع تھیں۔ سب اماں کیساتھ بیٹھی تھیں۔ ایک سوگ کا سماں تھا۔ ہمارے ہاں شادی کے دن لڑکی کے گھر والے نئے کپڑے نہیں پہنتے۔ نہ کھانا پکاتے ہیں۔ کھانا لڑکے کے گھر سے  آتا۔ گھر کے لوگ اس دن کنگھا بھی نہیں کرتے سوگ منایا جاتا ہے۔ دادی کہتی تھی “لڑکی گھر سے رخصت ہوکر جارہی ہے وہ ہمیشہ کیلئے جارہی ہے۔ ایک لحاظ سے وہ مر جاتی ہے۔ اس کی لاش بھی اس گھر میں واپس نہیں اتی”۔
مجھے روزینہ نظر نہیں آرہی تھی۔

بارات آئی،عورتیں ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہی تھیں کچھ روایتی گانا گانے لگیں، روزینہ کو لال جوڑا پہنا کر چارپائی پر بٹھادیا گیا۔
ایک بارہ سال کی بچی کیسی دلہن لگتی ہے ؟ بس روزینہ بھی ویسی ہی لگ رہی تھی۔ بوکھلائی ہوئی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ لڑکیاں ناچ رہی تھیں، گا رہی تھیں اور روزینہ کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس کو اب احساس ہورہا تھا کہ نئے چپل اور نئے کپڑے پہننے کا مطلب خوشی نہیں ہے، شادی کا مطلب گھر چھوڑ کر ہثمشہ کیلئے جانا ہوتا ہے-

وہ معصوم ہرنی کی طرح ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ جیسے ہی  اماں کفن جیسی سفید چادر کی تہیں کھولنے لگی، ساری بات روزینہ کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے اچانک اٹھ کر چادر پھینکی۔ اور دیوانہ وار میری طرف دوڑی۔ مجھے خود نہیں سمجھ آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ایک دس سالہ چرواہا کر بھی کیا سکتا ہے۔ وہ میرے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگی ۔
“میر مجھے نئے کپڑے نہیں چاہیئں، مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی” وہ دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔ اس نے لال سینڈل تک اماں کی طرف اچھال دیئے۔

بارات میں آئی عورتیں روزینہ کو دیکھ کر پلو سے اپنے آنسو صاف کرنے لگیں ان کو اپنا وقت یاد آگیا تھا۔
“میر مجھے مت بھیجو ان کیساتھ ۔ میں کسی کو پریشان نہیں کروں گی۔ مجھے نئے چپل نہیں چاہیئے مجھے کچھ نہیں چاہیئے”۔ وہ مجھ سے لپٹی چیخ رہی تھی۔ میں نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے روزینہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹا۔

اچانک ابا بھیڑ کو چیرتا ہوا ایک پاگل بھیڑئے کی طرح آیا، اماں سے سفید چادر لی مجھے بازو سے پکڑ کر دور پھینکا ۔ روزینہ کے اوپر چادر ڈالی اور گود میں اٹھا کر چلتا بنا۔ روزینہ کی آواز آسمان کو لرزا رہی تھی۔ اس کی چیخوں سے بارات میں آئی ہوئی عورتیں تک دہل گئیں مگر جن پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ اماں اور ابا تھے۔
ابا روزینہ کو کسی گڑیا کی طرح۔۔ وہ گڑیا ہی تو تھی، اٹھائے ہوئے قادر خان کی لائی ہوئی پک اپ میں پھینک کر آگیا۔
مجھے رونا بالکل نہیں آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

روتے روتے میں اب تھک چکا تھا۔ میرے دل میں ابا، اماں، قادر اس کے بیٹے غلام دین، نمبردار بلکہ پورے گاؤں کیلئے نفرت پیدا ہوگئی۔ مجھے اس گھر سے نفرت ہوگئی۔ مجھے ماسٹر رحیم داد یاد آرہے تھے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply