برباد رتجگے۔۔۔عامر حسینی

میں کافی دنوں سے ایک برہم قسم کی موضوعیت کا شکار تھا اور دماغ کی بتّی جیسے گل ہوگئی تھی اور مجھے لکھنے میں ہی دشواری کا سامنا تھا –ایسے میں ندیم اسلم کے ناول ” دی ویسٹڈ ویجیل ” یعنی ” برباد رتجگے ” نے مجھے اس برہم قسم کی موضوعیت یا داخلیت سے باہر آنے میں مدد فراہم کی –اور میں واپس اپنے ” آسیب کدے ” میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگیا – ویسا ہی آسیب کدہ جیسا کہ اس ناول کے کردار ” لارا ” کے دماغ میں موجود تھا –اصل میں اس ناول تک میں فیس بک پہ ایک دوست کے اپ ڈیٹ سٹیٹس میں یک جملہ اقتباس سے متاثر ہوکر پہنچا تھا:

“She used to say she did not want any mention of God at her funeral.”

وہ کہا کرتی تھی کہ وہ اپنے جنازے میں خدا کا کوئی تذکرہ نہیں چاہتی

اس جملے میں اگرچہ ایسی کوئی خاص چونکانے والی بات نہ تھی لیکن پھر بھی مجھے ندیم اسلم کے اس ناول کو پڑھنے کا شوق چرایا اور بے تابی اسقدر تھی کہ میں رات دس بجے لاہور پہنچا تو قمر عباس کو لیکر سیدھا ” ریڈنگ بک ہاؤس ” گیا اور وہاں سے میں نے کچھ اور کتابوں کے ساتھ یہ ناول بھی خرید کیا-چار دن تو میں اس ناول کو بس دور سے ہی تکتا رہا اور ایک دو دن اس ناول کے ٹائٹل کو ہی گھورنے میں گزار دیے –لیکن پھر اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا چلا گیا –اس ناول کے کرداروں میں مجھے فرنگی مارکیس کی افغان بیوی قطرینہ کا کردار بہت ہی زبردست لگا اگرچہ اس کردار کی بہت جلد ہی ناول کے آغاز میں طالبان کے ہاتھوں موت واقع ہوتی دکھادی جاتی ہے جبکہ اس عورت کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے مارکیس سے شادی کے وقت خطبہ مسنونہ ایک عورت سے پڑھوالیا تھا –ویسے لارا کی آسیب زدگی بھی بہت ہی پرکشش ہے اور میں کئی جگہوں پہ لارا کے روپ میں خود کو دیکھتا رہا-بلکہ گزشتہ رات تو میں نے ایک آئینے میں اپنے آپ کو لارا میں بدلتے ہوئے بھی دیکھ لیا-

عظیم بدھا – یہ اس ناول کے پہلے باب کا عنوان ہے اور بات یوں شروع ہوتی ہے

اس کا دماغ آسیب کدہ تھا

بس یہاں سے بات آگے چلتی ہے اور چلتی چلی جاتی ہے اور آپ بھی بات کی لہر میں بہتے چلے جاتے ہیں –اس ناول نے مرے شٹ ڈاؤن کو کم کرنے میں مدد دی

اگرچہ یہ ایک ناول نگار کا استحقاق ہے کہ وہ اپنے ناول میں کن کرداروں اور کن واقعات کو لیکر آتا ہے اور کس طرف زیادہ زور ڈالتا ہے-لیکن ایک قاری کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اس ناول کے پلاٹ اور مرکزی خیال ، کرداروں کی بنت پہ بات کرے –ندیم اسلم نے اس ناول میں اگرچہ کہیں کہیں امریکی اور اس کی مہان انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے ادارتی کردار کو افغان جنگ کے تناظر میں تنقیدی نظر سے دیکھا ہے لیکن اس پورے ناول میں ولن یا تو پرانے مجاہدین ہیں یا افغان طالبان ہیں اور سب سے زیادہ ولن سوویت یونین کی افواج ہیں-لیکن اس ناول میں ندیم اسلم افغانستان کے ان کسانوں، روشن خیال کیمونسٹ اور بائیں بازو کے خیالات کی حامل افغان مڈل کلاس کی پرت اور سروسز سیکٹر سے جڑی افغان ورکنگ کلاس جس نے ملکر ثور انقلاب کی پرورش کی تھی کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اور کہیں فلیش بیک میں ہمیں نور محمد ترکئی سمیت خلق اور ّپرچم پارٹی کے کئی ایک اہم کردار اس ناول میں جگہ نہ پاسکے اور ان کے جو آدرش تھے ان کے بارے میں بھی ندیم اسلم کوئی مہربان چہرہ یا کردار سامنے نہ لاسکے-اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ندیم اسلم نے افغانستان کا جو سفر کیا اس میں اس نے افغانستان میں کمیونسٹ ، سوشلسٹ اور لیفٹ روایت سے جڑے لوگوں کی تاریخ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی اور ان کا اس پرآشوب دور میں جو موقف تھا ،اسے کسی کردار کے زریعے سے دکھانے کی کوشش نہیں کی گئی –لیکن میں پھر سوچتا ہوں کہ میں ندیم اسلم ، محسن حامد ، خالد حسینی یا کسی اور نئے لکھنے والے ناول نگاروں ، کہانی کاروں سے یہ امید کیوں کروں کہ وہ افغانستان یا پاکستان کی لینڈ سکیپ میں ناول لکھتے ہوئے یہاں کے محنت کشوں کی تحریک اور اس میں فعال کرداروں کو اپنے کسی ناول کا حصّہ بنائیں گے –کیونکہ یہ سب کے سب لبرل ازم کے دلدادہ ہیں اور ان کے ہاں ہمدردی کسی طالب کے لئے تو ابھر سکتی ہے مگر طبقاتی سوال کو بنیادی سوال سمجھنے والے کسی فرد کے لئے یہ کیسے ہمدردی پال سکتے ہیں –ویسے یہ عجیب بات ہے کہ مستنصر حسین تارڑ نے ” اے زوال شب ” لکھا تو اس میں اس نے لال سلام والوں کو ” اپنی اصل ” کی طرف پلٹتے دکھایا اور “قلعہ جنگی ” میں اس نے طالبان کے قید خانے میں امریکی بمباری سے مرجانے والوں والوں کی عظمت کے گن گائے –اور اس سے پہلے مڈل کلاس ادیبوں نے جیسے قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین نے ” آخر شب کے ہمسفر ” اور ” اداس نسلیں ” لکھے تو اس میں بھی مکمل “یاسیت ” چھائی دکھائی اور امید کم تھی –اور آج تو لبرل ادیب ، دانشور فیض احمد فیض سے لیکر منٹو تک سب کا لبرل چہرہ دکھانے میں دلچسپی رہے ہیں لیکن ان کی سامراج دشمنی ، غربت ، افلاس ، طبقاتی اونچ نیچ بارے جدوجہد اور ان کا آدرش یعنی ایک غیر طبقاتی سماج اسے وہ گول کرجاتے ہیں –انگریزی میں پاکستانی نژاد ادیبوں کی اکثریت کی لکھتوں میں بائیں بازو کا تناظر بالکل غائب ہے اور ماضی کو جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں بائیں بازو کی تحریک سماج کا فعال حصّہ تھی کو بھی زیربحث لاتے ہوئے ان کے ہاں زیادہ تر امیج منفی ہی ابھرتے ہیں –

Advertisements
julia rana solicitors london

ندیم اسلم کے اس ناول میں جس جگہ پہ فوکس ہے وہاں کتابوں والا ایک کمرہ ہے اور اس عمارت کے سامنے ہی ایک اسکول کا بڑا زکر ہے –اور مذہبی بنیاد پرستوں ، مذہبی جنونیوں کی علم دشمنی ، اسکول دشمنی ، عورت دشمنی کا بہت زکر ہے لیکن کیا امریکی اور دیگر مغربی طاقتیں واقعی کتابوں ، اسکولوں ، کالجوں ، جامعات ، کتب خانوں ، کلچر اور متنوع روایات کے تحفظ کو اپنی اولین ترجیح مانتے ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے آیا-سرد جنگ کے زمانے سے امریکی کیمپ نے مڈل ایسٹ ، افریقہ ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں آمروں ، بادشاہتوں کا ساتھ دیا اور وہاں پہ موجود جمہوری تحریکوں، طالب علم تحریک ، کسان تحریک ، ٹریڈ یونین تحریک ، ادب و صحافت میں موجود ترقی پسندی اور روشن خیالی کی روایات کے سب سے بڑے دشمن مذہبی بنیاد پرستوں کو گود میں لیا-اس زمانے میں مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، مشرق بعید ، شمالی افریقہ میں مسلم اکٹریت کے معاشروں میں موجود پولیٹکل اسلام اور اسلام ازم کے علمبردار جماعتوں اور گروپوں کے ساتھ الائنس بنایا اور سعودی عرب کے پیٹرو ڈالرز سے مین سٹریم اسلام کے صلح کل کلچر کی بیخ کنی کے لئے ریڈیکلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھایا –اور نوآبادیاتی دور سے مسلم آبادی کی اکثریت کے معاشروں میں روشن خیالی ، ترقی پسندی ، تکثیریت ، جمہوریت اور عورتوں ، اقلیتوں وغیرہ کے حقوق کے لئے سرگرم سیکشنز کو جڑ سے اس لئے اکھاڑ کر پھینکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ محنت کش طبقے کو سماجی تبدیلی کا ہراول دستہ قرار دیتے تھے اور سوشلزم ان کا آدرش تھا –اس زمانے میں جب ضیآء الحق پاکستان کے اندر ، انڈویشیا مين سہارتو ، چلی میں پنوشے معاشروں کی تکثیریت کی جڑوں کو اکھاڑ رہے تھے تو ان آمروں کی حکومتوں کو امریکی امداد کی آکسیجن برابر مل رہی تھی اور سعودی فنڈنگ بھی بے شمار تھی –لیکن اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے ، زرا دیکھ لیں عراق ، شام اور یمن میں کیا ہورہا ہے ؟ یہ رجیم بدلو پروجیکٹ جس کے تحت ایسا ادب ، آرٹ سامنے لایا گیا ہے جس ميں بنیاد پرست جنونی ” شامی اعتدال پسند ” بناکر دکھائے جاتے ہیں اور پورے شامی سماج کو توڑ پھوڑ کر رکھدیا گیا ہے-امریکی ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اور ان کا مڈل ایسٹ کی بادشاہتوں اور آمروں کا کیمپ مڈل ایسٹ میں شام اور یمن اور عراق میں کونسی جمہوریت متعارف کرانے نکلا تھا جس کے نتیجے میں عرب دربدر ہوگئے ، کردوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور چھوٹی چھوٹی مذہبی اقلیتیں تو نابودگی کے خطرے سے دوچار ہیں – یہ برباد رتجگے جو ہیں اس کی سب سے بڑی زمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ایک ناول لکھتے ہوئے ندیم اسلم غیر جانبداری سے تلاش نہ کرسکا-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply