بولتا پیڑ ۔۔۔۔ جاویدحیات

عقیل پہلے پاگل نہیں تھا٬ بہت ساری باتیں کرتا تھا اب جنگل کے پیڑ کی طرح خاموش ہوگیا ہے، جب بھی أسے کسی گلی میں دیکھتا ہوں تو وہ اجنبی نظروں سے گھورنے لگتا ہے جیسے وہ کہہ رہا ہو میں وہی پیڑ ہوں جو مسلسل بولتا رہتا تھا٬ اب پیڑ کی صورت خاموش ہو گیاہوں _ سالوں پہلے ایک دفعہ قبرستان میں أس سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگا “کل میرا گدھا کھو گیا تھا٬ میں أسکی تلاش میں رات کے دوبجے پہاڑی پہ چڑھا اور أسے کھیتوں سے پکڑ کے لے آیا_ تمہیں رات کو ڈر لگتا ہے؟” وہ ایکدم سے میرے قریب آ کر خاموش ہوگیا_ “ہاں٬ بہت ڈر لگتا ہے جب دٔور سے کسی کتے کی آواز آتی ہے اور اچانک بلی کے منہ مارنے پر گھر کے برتنوں کی آواز سٔن کر بھی چونک پڑتا ۂوں_”

“جب تمہارا کوئی دوست یا بھائی کھو جائے تو أس روز تمہیں ڈر نہیں لگے گا٬ تم أسے تلاش کرنے رات کے دو بجے ننگے پیر گھر سے نکل جاؤگے جیسے میں اپنے گدھے کو ڈھونڈنے نکلا تھا” وہ پاگل اب کچھ بولتا نہیں ہے بس سامنے سے پیڑ کی طرح گزر جاتا ہے، میرے أس دوست کو اب کھوئے ہوئے پورے سترہ دن ہو گئے ہیں٬ لیکن أس کے فراق میں ایسا لگتا ہے ایک ایک لمحے میں کئی صدیاں قید کی گئی ہوں۔۔ میں نے أسے ہر جگہ ڈھونڈا٬ پولیس تھانے میں٬ چوہدری کے ڈیرے پر٬ پنگھٹ کے پیچھے لکشمی بائی کے کوٹھے پر وہ کہیں نہیں ملا۔

عقیل ٹھیک کہتا ہے جب کوئی اپنا کھو جاتا ہے تو تمہیں موت کے سائے میں بھی ڈر نہیں لگتا، میرے پاس اسکی کوئی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی أسکی کوئی ایسی نشانی ہے جس کی مدد سے میں أسے کھوج پاؤں گا۔

کچھ زنگ آلود سکے ہیں جو وہ خرچ کرنا بھول گیا تھا٬ کیا ان کی کھنک أس تک پہنچ پائے گی؟ میرے دوست کی ایک نشانی ہے میرا دوست بولتا پیڑ کی طرح ہے اور دکھتا بادل جیسا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کوئی لکڑ ہارا اسے کاٹ کر لے گیا ہو۔اس  کے بغیر کہیں دل نہیں لگتا٬ کہیں بھی ٹھہر جاتا ہوں تو أس کا ذکر چل پڑتا ہے۔

تمہارا دوست ابھی تک نہیں ملا؟ یہ سوال تیر کی طرح گھائل کر دیتا ہے، وہ دوست میلے یا بازار میں نہیں میری دھڑکنوں میں آ کر کھو گیا ہے٬ میں دل کو چڑیا کے پنکھ باندھ لیتاہوں وہ اُڑتے اُڑتے أسے تلاش کرنے سے پہلےگر پڑتا ہے_

“وہ صرف دو سال کا ہے ناں شاید جنگل کے کسی بھیڑیئے نے کھا لیا ہوگا٬ دو ڈھائی سال کے بچے کا گوشت بھوکے جانور کیلئے تو بہت لذیذ ہوتا ہے”

وہ دو سال کا ہے جب رو پڑتا ہے تو لوگوں کی نیند ٹوٹ جاتی ہے،مجھے اپنے سارے دوستوں سے یہ اس لیے پیارا ہے کیونکہ اس نے مجھے سچ بولنے کی طاقت دی، جب کاغذ پر قلم کی نوک چلتی ہے تو مجھے أسکے پیروں کی آہٹ سنائی دیتی ہے جیسے وہ کہہ رہا ہو تم سب مجھے اس ویرانے میں اکیلا چھوڑ کر کہاں چلے گئے؟

کوئی چراغ جلا دو٬ چاند آسمان سے بھٹک گیا ہے، میرے پاس أسکے ڈھیروں کھلونے ہیں٬ وہ غبارے پھونکتا تھا٬ پتنگ أڑاتا تھا سائیکل چلاتا تھا، اس کی سائیکل کے زرد رنگ کے ٹائر میں نے سنبھال رکھے ہیں۔۔کبھی کبھی أنہیں دیکھ کر لمبے سفر کی تھکان دٔور ہو جاتی ہے_

وہ لال شیشوں والی  عینک بھی شوق سے پہنتا تھا جس کے اندر باقی چیزوں کے ساتھ آسمان اور سمندر بھی سٔرخ دکھتے ہیں۔اس کے ہاتھ کی گھڑی میں کوئی کانٹا نہیں ہے لیکن وہ ہر ایک پل کی خبر رکھتا تھا۔

میرے اس دوست کو کچھ لوگ اس بات پر پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سچ بولتا ہے٬ زمین کا دٔکھ بولتا ہے پرندوں کو أڑان سونپتا ہے٬ اور بازار کی بھیڑ  میں پیڑ کی طرح خاموشی سے گزر جاتا ہے۔

تین مئی کواس کے جنم دن پر جو کیک کھایا تھا أس کا ذائقہ ابھی تک لبوں پر چپکا پڑا ہے٬ اس روز وہ پگڑی اور جوتے پہنے بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا٬ کالے دھاگے میں ہرے رنگ کا تعویذ تو اسکے گلے میں بہار لیکر آئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش میں اس دوست کو تعویذ کی طرح پہن لیتا تو میں أسے کبھی کھو نے نہ دیتا۔۔ مجھے اب رات کو عقیل کی طرح ڈر نہیں لگتا٬ میں پیڑ کی طرح اپنے دوست کے انتظار میں جاگتا رہتا ہوں۔۔۔ حال حوال میرا ایسا ساتھی ہے جس نے خٔشک پیڑوں کو بولنے کی طاقت دی۔۔میں اس کی تلاش میں پیڑ کی طرح کھڑا رہوں گا!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply