ہم۔۔محمد جنید اسماعیل

 

دیکھو وقت نے کروٹ لے لی ہے اور ہم ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کو چھوڑ کر آگے بڑھ چکے ،ماضی کی دھول میں کئی  چہرے پھیکے پڑ جائیں گے لیکن ایک چہرے کو تم کبھی بھی کسی صورت نہیں بھلا سکو گی ۔ایک چہرہ تمہیں ہر روز یاد آئے گا ،تمہیں رات کو نیند میں بے چین کرے گا ،دن کو تمہاری خوشیاں نگل لے گا ،کبھی کبھی تمہارے چہرے پر بے ساختہ ہنسی پھوٹے گی ،تم نکھرنے لگو گی ،گھر والے تم سے اس پاگل پن کی وجہ پوچھیں گے تو تمہارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا ۔

میں تمہیں کہاں کہاں یاد آؤں گا ؟
تم نے کہا ناں کہ میں تمہارے دل پر بوجھ ہوں ۔۔
مان لیا کہ ایسا ہے لیکن پھر بھی
جہاں جہاں تمہیں کسی دن کہیں کسی سے لاڈ کرنے کی خواہش جاگے گی
جہاں تمہیں لگے گا کہ تمہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں
تم بازار میں کسی اپنے کے ساتھ جاؤ گی اور کوئی  تمہارا ہاتھ پکڑے گا ،تمہارے کندھے پر ہاتھ مارے گا اور تمہاری ہنسی کے لیے تمہاری طرف دیکھ کر نقلی ہنسی ہنسے گا،
جب بھی تمہیں لگے گا کہ جو مجھے اتنے قیمتی تحفے لے کر دے رہا ہے یا بنا سوچے سمجھے مجھ پر پیسے خرچ کئے جارہا ہے ،جس کے اپنے پاس کھانے کو پیسے نہیں لیکن تمہاری ہر خواہش پوری کئے جارہا ہے۔دیکھو اس شہر کی ہر گلی اور اس شہر کا ہر ریفرشنگ پوائنٹ ہمارے پیار کی گواہی دے گا ،ہر چوک سے گزرتے ہوۓ خود کو اکیلا پا کر تمہاری آنکھیں نم ہوجائیں گی۔

جب کسی دن تم اپنے شوہر کے ساتھ کسی پارک میں جاؤ گی اور بے رنگ سی دنیا لگے گی ،جب تم منتیں کروگی اور تمہارے اپنے تمہیں کہیں گھمانے نہیں لے جاسکیں گے تو تمہیں ایک ایسا دیوانہ ضرور یاد آئے گا جو زبردستی ہر جگہ لے جاتا تھا ،سارا دن تمہارے لاڈ مانتا تھا اور ہر دن کے اختتام پر تم ہی منہ پھلا کر بیٹھ جاتی تھی اور اگلے سات دن اس سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھی ،سات دن بعد وہ تمہیں مناتا تھا اور عیش کراتا تھا اور پھر تم حسب معمول ناراض ہوجایا کرتی تھیں۔۔
ایک دن تمہاری یہ جوانی ڈھل جائے گی اور لوگ تمہارا ساتھ دینا چھوڑ جائیں گے ،تمہارے پاس صرف حقیقی رشتے رہ جائیں گے ،اس دن بھی اس نامحرم کی یاد بہت تڑپائے گی جو کہتا تھا “میرے سامنے سجنے سنورنے کی ضرورت ہی کیاہے ،تم جیسی  ہوجس حالت میں ہو مجھے پسند ہو اور میری ہو “۔

شاید کسی دن تمہیں یہ بھی اعتراف کرنا پڑے کہ میں تم سے تمہارے جسم سے ماورا ہوکر محبت کرتا تھا جب کوئی تمہارے قریب ہو ،تم اس کے سامنے اپنا آپ پیش کرو اور وہ تم سے نفرت کرنے لگے تب تمہیں ایسے مرد کی یاد ستائے جس نے سب حاصل کرنے کے باوجود کبھی نفرت نہیں کی تم سے۔۔جو ہمیشہ تم پر غصہ نکالتا تھا لیکن پھر بھی محفلوں میں تمہارا دفاع کرتا تھا ،جس نے تمہیں بدنامی سے بچانے کے لیے اپنی محبت قربان کردی ۔

جب تمہارے اندر کبھی خواہش جاگے گی کہ کوئی تمہارے حسن پر ،تمہارے ناز و ادا پر لکھے ،کوئی  تمہاری ان نادیدہ خوبیوں کی بات کرے جن کو تم خود بھی کبھی محسوس نہ کر پائیں،کوئی تمہارے اندر پائے جانے والی خواہشات کا ذکر کرے اور تمہیں اپنی تحاریر کے ذریعے امر کردے۔کسی کو تو تمہارے اندر پائے جانے والے ملال کا علم ہو ،جو تمہارے ہنستے چہرے کے باجود بھی تم سے سوال پر سوال کرے کہ بتاؤ کوجھی!کیوں اداس ہو ،کس کا غم کھائے جارہا ہے اور تم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاؤ ،کہو کہ کاش تم روز پوچھاکرتے۔
جب میں زور دے کر پوچھوں گا کہ تم ٹھیک تو ہو ناں ،خوش تو ہو ناں میرے بغیر ،سب خیال تو رکھتے ہیں ناں تمہارا ؟
تم روتے ہوئے جواب دوگی
“اگر کوئی خیال رکھنے والا ہوتا تو یہ حال ہوچکا ہوتا ؟،مجھے بس تم جیسا تنگ کرنے والا ہی چاہیے ،بس اب جدا نہ ہونا کبھی ”

تم روز میری وال پر یہ دیکھنے کے لیے کہ تمہارے بارے کتنا لکھا جاچکا ہے آؤ گی تو آگے میری وال پر پھیلی مسکراہٹ بھری پوسٹس تمہیں اداس کردیں،تم جس کے الفاظ پڑھ کر خود کو قیمتی محسوس کرتی تھی اب اس کا یوں منہ موڑ جانا تمہیں اندر سے بے قدری سے بھردے گا۔۔
جب بھی تمہارے من میں یہ خواہش جاگے گی کہ کوئی ہو جس کی ماں کو میں زور سے بھرم کے ساتھ “اماں ” بلاسکوں اور وہ بھی واپسی “دھی رانی ” بلا سکے ،جب کبھی اپنے گھر والوں سے تنگ آ کر تمہیں ہر طرف اندھیرا نظر آئے گا تو تمہیں ایک ایسا خاندان ضرور یاد آئے گا جو تمہیں اب بھی اپنے خاندان کا ایک خوب صورت اور لازمی حصہ شمار کرتا ہے ،وہ ماں ضرور یاد آئے گی جو اب بھی تمہارے نام کی “پارت(امان) ” دے کر بھیجتی ہے مجھے۔تمہیں وہ خاندان ضرور یاد آئے گا جس میں تمہارے حصے کی روٹی علیحدہ کر کے رکھ دی جاتی ہے۔۔جس میں چھوٹے بچے تمہارے نام کو اتنا جانتے ہیں جتنا وہ میرے نام سے بھی واقف نہیں۔

جب تمہیں کہیں احساس ہوگا اور اپنی زندگی پر رونا آئے گا تو تمہیں ہر بات پر سمجھانے والا اور تمہارے ایک آنسو پر سب بھول کر تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھنے والا ضرور یاد آئے گا۔

جب تمہیں کوئی قریب پا کر شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر بوسہ دے کر تمہیں تمہارے ہونے کا احساس دلائے گا ،یا کوئی جلدی میں آگے بڑھ کر تمہاری کلائی کھینچ کر رلا دے گا تو تم اپنے آنسو میں اُس شخص کو ضرور یاد کروگی جو ایسے تمام لاڈ کرکے تمہارے لبوں پر بوسہ ثبت کرکے تمہیں ہنسانے کی پوری کوشش کرتا تھا ،تم پھر بھی روتی رہتی تو وہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چپ کرانے کی کوششیں کرتا رہتا ۔جب پھر بھی تم ناراض رہتی تو وہ تمہارے دونوں ہونٹوں کو گول کر کے ایک زور سے تھپکی تمہارے گالوں پر دیتا اور کہتا “پاگل ،کتنا دن دور رہ سکتی ہو اپنوں سے “۔

تمہارے ہاتھ میں جب کوئی کنگن ،گلے میں کوئی یا بریسلٹ پہنائے گا تو تمہیں ایک ایسا رشتہ یاد آئے گا جس میں کوئی حق نہ رکھنے کے باوجود بھی تمہیں تمام چیزوں سے روشناس کرایا گیا۔
تمہیں ہاتھوں میں پہنے وہ گجرے ،وہ گانڑے (جو دلہن اور دلہا کو پہنائے جاتے ہیں) ضرور یاد آئیں گے ۔

جب کہیں تمہیں کسی کا نام چاہیے ہوگا ،تم کسی کے ساتھ منسوب ہونا چاہوگی اور لوگ تمہیں اپنی شناخت دینے سے انکاری ہوں گے تو ایک ایسا انسان یاد آئے گا جس کو تم ہر روپ میں پسند تھی ،جو تمہیں اپنی عزت کے نام سے پکارا کرتا تھا ،جو فخر سے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کہتا تھا “ان سے ملیے ،یہ میرا سب کچھ ہیں “۔

جب کہیں تمہیں کتاب سے محبت ہوگی ،کیریئر تمہارے سامنے ہوگا ،تمہیں کبھی ادب سے محبت ہوگی تو ایک ایسا مفلوک الحال شخص یاد آئے گا جس کی ساری جمع پونجی صرف کتابیں تھیں اور تم اس جمع پونجی پر ہنستی تھی ،تمہیں اس کی باتیں اور اس کے خواب مذاق لگتے تھے۔۔تم اس کے سامنے تو اس کو کچھ نہیں کہتی تھی،شاید مروت آڑے آتی تھی لیکن پیٹھ پیچھے تمہاری ہنسی نہیں رکتی تھی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس دن کہیں کوئی خواب بکھرتا دیکھوگی تو تمہیں بڑے بڑے خواب دکھانے والا ضرور یاد آئے گا۔۔
اب آخر میں وہی تمہارا جملہ ہی دہراؤں گا کہ “جب پیار کرنے والے ایک دوسرے سے دور رہتےہیں تو انہیں پھر قدر معلوم ہوتی ہے ”
لیکن کیا تمہیں لگتا ہے کہ ایک انا پرست ہے اب تمہارے لوٹ آنے پر تمہیں قبول کر لے گا ؟؟
تمہیں اپنے پیار پر  تو بھروسہ  ہوسکتا ہے لیکن تم کسی مرد کے کئے گئے فیصلے کو شاید نہیں جانتی ہوگی۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply