پہچان کا سفر، خدا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔محمودفیاض

بھاگتے بھاگتے مجھے ایک تنگ گلی دکھائی دی، میں شپاک سے اس کے اندر گھس گیا۔ اور اپنے کان اپنے پیچھےآنے والوں کے بھاگتے قدموں پر لگا دیے۔ میری پوری کوشش تھی کہ سیف اللہ جو ہمیں ڈھونڈ رہا تھا، مجھے دیکھنے نہ پائے۔ کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں باقی پوری دوپہر مجھے دوسروں کو پکڑنے کی باری دینی پڑتی۔

1980 کی دہائی کے لاہور کی جون کی دوپہروں میں چھپن چھپائی اور پکڑن پکڑائی صرف ان لڑکوں نے کھیلی ہوگی جو ویڈیو گیمز افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ افورڈ نہ کر سکنا بھی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے، یہ اب جا کر پتہ چلا۔

پچھلے ایک گھنٹے سے سیف اللہ کی باری تھی اور ہم سب اسکو ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ کوئی بھی اسکے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ اچانک مجھے دوڑتے قدموں کی آواز آئی اور اس سے پہلے کہ میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا، عادل گلی میں داخل ہوا اور میرے ساتھ ہی چھپنے کی کوشش کرنے لگا۔
عادل ہمارے گروپ کا سب سے خوبصورت لڑکا تھا، اور میں اس سے دوستی بھی کرنا چاہتا تھا، لیکن اس وقت میں اس کو بڑی بری طرح گھور رہا تھا۔ پکڑن پکڑائی کے کھیل میں سب سے بڑا رسک یہ ہوتا ہے جب کوئی دوسرا بھی آپ کی جائے پناہ میں چھپنے کی کوشش کرے اور پکڑنے والا اسکے پیچھے پیچھے آپ تک بھی پہنچ جائے۔

وہ تنگ گلی بالکل سنسان تھی، اور دوپہر کی خاموشی میں صرف ہم دونوں کے ہانپنے کی آوازیں آ رہی تھی، دور کہیں کسی درخت سے کوئل کی کوک وقفے سے سنائی دے رہی تھی۔

“محمود ! میں نے تم سے ایک خاص بات کہنی تھی”، عادل کی آواز سن کر میں نے اسکی طرف دیکھا تو وہ بڑی ہی عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے حیرانی بھی ہوئی کیونکہ ہمارے درمیان ابھی تک ایسی کوئی بات چیت نہیں تھی کہ وہ مجھے کسی خاص بات کے لیے رازدار بناتا۔ میں خاموشی سے اسکی طرف دیکھتا رہا۔

“مگر تم وعدہ کرو، یہ بات میر ے اور تمہارے درمیان ہی رہے گی، تم گروپ میں کسی سے ذکر نہیں کرو گے”، عادل ابھی تک اسی عجیب طریقے سے مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے بے خیالی میں سر کو ہلایا۔

“تم جانتے ہو، میرے اور بھی اچھے دوست ہیں۔ میں یہ بات ان سے بھی کہہ سکتا تھا، لیکن ۔ ۔ ۔ “، عادل اپنی بات بیچ میں روک کر میرے اور قریب ہو گیا۔ اسکی آواز اور آہستہ ہو گئی۔ میں عجیب مخمصے میں تھا، اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

عادل کی آواز دھیمی ہو گئی تھی، اس نے اپنے کانپتے ہاتھ میرے دونوں کندھوں پر رکھے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا “محمود! مجھے تم سے یہ کہنا تھا ۔ ۔ ۔ بلکہ یہ بتانا تھا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ” ، اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے ہونٹ میرے کانوں سے بھڑا کر سرگوشی کی ، “مجھے پتہ چل گیا ہے کہ خدا کوئی نہیں ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے”۔

یہ کہہ کر وہ ایک دم پیچھے ہٹا اور پھٹی پھٹی نظروں سے میرے طرف دیکھنے لگا۔ جیسے اس نے کوئی بہت گندی بات کہہ دی ہو اور اب میرے ردعمل کا انتظار کر رہا ہو۔

شائد ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ تھا، جس میں ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ سب کہہ ڈالا جس کے لیے ابھی زبانیں ایجاد ہونا ہیں۔
“تم بھی ؟ ؟ “، میں نے کہا تو عادل مجھ سے لپٹ گیا، “میرا اندازہ صحیح تھا، پورے گروپ میں صرف تم ایسے ہو جو میری بات کو سمجھ سکتے ہو، میں نے بہت سوچا کہ میں ۔ ۔ ۔” “

“پکڑ لیا آ آ آ آ ” ، اچانک سیف اللہ نے ہماری گردنیں دبوچ لیں۔ پتہ نہیں کب وہ ہمارے سروں پہ آن پہنچا تھا، ہمیں بالکل خبر نہ ہوئی۔ میں اور عادل ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے، جیسے ہمیں ایسا کچھ مل گیا جو کسی کے پاس نہیں۔ ہمیں پوری دوپہر باری دینی پڑے گی، اسکی کس کو پرواہ تھی۔
گروپ میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہم مزید کوئی بات کر پاتے، ہم اپنے کھیل میں لگ گئے، مگر بے چینی اس قدر تھی کہ دوسرے دن دوپہر میں ہم دونوں گھروں سے دور ایک باغ میں ملنے کے لیے ایسے اکٹھے ہوئے جیسے برسوں کی پیاسے عاشق و معشوق ملتے ہیں۔

“تم نے یہ کیسے جانا؟” ، میں نے سوال کیا۔
“میں نے بہت غور کیا، اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔ یہ جو سب لوگ کہتے ہیں نا کہ خدا یہ کر دے گا، وہ کر دے گا، یہ سب جھوٹ ہے۔ ” ، عادل دبی دبی خوشی سے بتا رہا تھا۔ “بوجھو تو میں نے کیسے جانا ؟ ” ، عادل نے مجھ سے سوال کیا۔

“یار ! سیدھی طرح بتاؤ، پہیلیاں نہ بجھواؤ” ، میں نے اسکو ڈانٹا۔ اس راز کی رازداری نے ایک ہی دن میں ہمیں ساری دنیا سے زیادہ قریب کر دیا تھا، مجھے اسکی ناراضگی کا کوئی ڈر نہیں تھا۔

“دیکھو، میں یہ کہہ رہا تھا، کہ خدا تو ہے ہی نہیں۔ پھر جو لوگ کہتے ہیں، خدا دیکھ رہا ہے، وہ سزا دے گا، وہ ایسا کردے گا۔ کچھ نہیں ہوتا ، ہوتا ہے کیا ؟”
“تو میں نے بہت سوچا۔ پھر میں نے مزید یقین کرنے کے لیے ایک حل سوچا۔ میں نے ۔ ۔ ۔ “، عادل نے رک کر چمکتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا، ” میں نے ایک دن خدا کو خوب برا بھلا کہا ۔ ۔ ۔ پھر میں نے کہا کہ اگر تو خدا ہے تو وہ ضرور مجھے سزا دے گا، لیکن دیکھ لو کچھ بھی نہیں ہوا۔”

اس دن ہم نے خوب باتیں کیں، وہ ساری باتیں جو ہمارے بڑے ہمیں کبھی کرنے نہ دیتے۔ وہ سوال جو ہمارے بڑے ہمیں کبھی اٹھانے نہیں دیتے۔
کہیں نہ کہیں ہم دونوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم باقی دنیا سے بالکل مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔
اسکے بعد ہم اکثر باقی گروپ سے چھپ کر ملنے لگے، اور ہمارا موضوع ہمیشہ ایک ہی ہوتا ، “خدا نہیں ہے” ۔

تب یہ تو اندازہ نہیں تھا کہ “الا اللہ” تک جانے کے لیے “لا الہٰ” کا ایگزٹ لینا پڑتا ہے۔ تب تو صرف ایک انجانی خوشی تھی کہ ہم نے کچھ ایسا ڈھونڈ لیا ہے جو باقی لوگوں کو پتہ نہیں ہے۔

عادل آج بھی زندہ اور خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے، مجھے نہیں پتہ کہ اسکو خدا ملا کہ نہیں ، لیکن خدا نے سوال کرنے، سوچنے اور اعتراض کرنے پر اسکو کوئی سزا بھی نہیں دی۔

رہا میں، تو بچپن کا “خدا نہیں ہے” میرے ساتھ بڑی منزلوں تک رہا اور جھوٹے خداؤں سے میری خلاصی کا باعث بنتا رہا۔ منبر و محراب کے نام پر چورن میں تیزاب کا شعلہ دکھا کر چٹخارہ بیچنے والے ناخداؤں سے بھی محفوظ رہا

Advertisements
julia rana solicitors

الااللہ کا بورڈ کہاں لگا دیکھا، سٹیئرنگ ادھر مڑا یا شک نے رستہ لمبا کر دیا، یہ تفصیل باقی ۔ ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply