استنبول کا سفر نامہ۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط15

شہزادوں کے جزیرے خدائی عنایت اور انسانی ہاتھوں کے خوبصورت شاہکار ہیں۔
ہوٹل کے ریسپشن پر بولتی آنکھوں اور مسکراتے چہرے والی دلربا سی لڑکی گذشتہ کئی روز سے شام ڈھلے ہمارے اندر داخل ہونے پر اپنے گداز ہونٹوں کو وا کرتے اور موتیوں جیسے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ہماری دن بھر کی روداد پوچھا کرتی۔ایسی ہی ایک شام اُس نے کہا تھا۔
’’ایڈلرAdalar دیکھا۔‘‘
ایڈلر میں نے حیرت سے آنکھیں اس کے چہرے پر چپکادیں۔
’’میں تو یہ نام پہلی مرتبہ سُن رہی ہوں۔یہ کیا ہے؟‘‘
’’ارے پرنسز آئی لینڈ کہہ لیں ۔کرمسنcrimson آئی لینڈ کہہ لیں۔یہ تو استنبول کے ہیرے ہیں۔انہیں نہیں دیکھیں گی۔‘‘
اُس نے یوں گڈے باندھے،خوبصورتیوں کے وہ افسانے سنائے کہ وہیں کھڑے کھڑے فیصلہ ہوا کہ کل ایڈلر چلنا ہے۔


ناشتے سے فارغ ہو کرجب جانے کیلئے باہر نکلے۔سیما نے پہلے ریلوے اسٹیشن کیلئے کہا۔”قوینہ چلنا ہے۔”مولانا روم کے مزار پر حاضری دینے کی تمنا میں تو خیر ہم دونوں ہی مری جاتی تھیں۔گذشتہ دو تین دنوں سے ہمارے درمیان ریلوے اسٹیشن جا کر پتہ کرنے اور سیٹ ریزروکروانے پر بات ہوتی تھی۔پر استنبول اتنا بھرا ہوا تھا کہ سارا سارا دن گُل کرکے بھی ہم اس کی ایک دو چیزوں کو ہی دیکھ پاتے۔
شو مئی قسمت کِسی راہ چلتے سے پُوچھ بیٹھے۔اللہ جانے اُسے سمجھ نہیں آئی یا وہ تھا ہی بونگا۔گلاتا کی طرف دھکیل دیا۔ہر روز نقشوں پرمغز پچی نے سر کیجی ریلوے اسٹیشن سے پڑھائی کی حد تک تھوڑی سی واقفیت تو ضرور کروا دی تھی۔ سوچا کہ شاید معلوماتی اور ریزرویشن آفس وہاں ہو جیسے میرے لاہور میں ہے۔
اب گلاتا ٹاور پہنچ گئے۔چاکلیٹ رنگے جن جیسی قدوقامت والے مینار کے پاس ہی دنیا کا دوسرا مختصر ترین زیر زمین ریلوے ٹریک ہے ۔ جو گلاتا اور پیرا جنکے نئے نام کیراکوئے Karakoy اور بیگلوBeyoglu ہیں۔اِن دو حصّوں یا ضلعوں کو ملاتا ہے۔


اب جب اُس وسیع و عریض دنیا میں ہونقوں کی طرح گم اُسے دیکھتے، سوچتے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے’’ بھئی نری بونگی زنانیاں ہیں ہم بھی ۔‘‘
اُف اِس کی گھمن گھیریاں تو پاگل کرنے والی ہیں۔ چلو کِسی سے پھر پوچھتے ہیں۔ایک معقول سے بندے کو پکڑا ۔اُس نے سنتے ہی کہا۔
’’ یہاں کیا کررہی ہیں؟ سر کیجی جائیں۔‘‘ وہ تو وہیں ایمی نونو کے پاس ہی تھا۔
مڑکھوتی بوڑ تھلے والا معاملہ تھا۔
سرکیجی کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت کوئی شاندار سی شاندار تھی۔توپ کپی محل کی دیواروں کی بنیادوں سے سانجھ کا رشتہ جوڑنے والا یہ ریلوے سٹیشن جس پر شاہانہ سفر کے حوالے سے دنیا کی مشہور زمانہ اورئینٹ ایکسپریس ٹرین چلتی تھی۔ اورئینٹ ایکسپریس بھی زمانوں تک کہہ لیجئیے کم و بیش ایک صدی تک افسانوی سی اہمیت کی حامل رہی ہے ۔بے شمار فلموں میں جلوہ گر ہوئی،ڈھیروں ڈھیر کتابوں میں موضوع سخن رہی۔دولت مندوں نے اس میں سفر کرکے اپنی انا کی تسکین کی ۔ماٹھے غریب غربا کیلئے یہ ایک حسرت رہی۔تاآنکہ اسکے مقابلے پر کوئین الزبتھ اور کونکورڈConcorde میدان میں اُتریں۔1982 میں امریکی تاجروں نے اسمیں بہت سی تبدیلیاں کیں مگر اس کا وہ ماضی اسے نہ لوٹا سکے۔


سچی بات ہے سٹیشن بھی اُس کے شایان شان تھا۔ نصف دائرے میں پھیلی عہد ساز سی بلڈنگ جو کہیں 1891کی پیدائش تھی۔چہرے کا ایک ایک نقش اپنی قدامتی تعلق کا پتہ دیتا تھا۔تاہم جدید میک اپ کے غازے کی لیپا پوتی بڑے دل آویز انداز میں بصارتوں پر بجلیاں سی گراتی تھی۔بلندو بالا چھتوں والے ہال اور اِدھر جاؤ اُدھر جاؤ والے سلسلے۔گاڑیوں کے دن اور رات کے اوقات ضرور پتہ چلے مگر یہ جانا کہ انقرہ سے آگے قونیہ جانا بسوں سے بہتر رہے گا۔اور ہاں ٹکٹ اور ریزرویشن حیدر پاشا سے ہوگی جو استنبول کے ایشیائی حصّے میں ہے۔
ہم گھڑیاں اور وقت دیکھنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔مگر اتفاقاً نظر پڑ گئی اور گیارہ کے ہندسوں کو چھوتی سوئیوں نے جیسے چوکنا کردیا تھا۔میں سیما کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچتے ہوئے باہر لے آئی۔
’’سنو یہ مولانا رومی سے ہماری محبت کا امتحان ہے۔اگر یہ سچی ہوئی تو ملاقات کا اہتمام ہوجائے گا اور اگر اس میں کھوٹ ہوا تو ناتی دھوتی رہ گئی تے اُتے مکھی بہہ گئی والی بات ہوگی۔چلو جس کا قصد کرکے چلے ہیں پہلے اُسے تو دیکھ آئیں۔‘‘
اب ایک بار پھر انہی پرانے شناسا سے منظروں سے آنکھیں لڑاتے تھے۔
ایمی نو نو سے لے کر گلاتا تک کے پانیوں پر چھوٹے بڑے جہازوں ،سٹیمروں ، لانچوں ،فیری کشتیوں ،فیری کروزوں، اور ان کے بکنگ آفسز قہوہ خانوں، دوکانوں اور لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو کہیں ترتیب اور کہیں بے ترتیبی سے بکھرا ہوا ہے۔سلطان احمد فاتح پل بننے سے قبل دونوں حصّوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ فیری بوٹ اور کشتیاں ہی تھے۔
مختلف کمپنیوں کے نام پڑھتے تھے ۔ایمی نو نو سی بس سروس ہے۔صرف کیڈی کوئے Kadikoy تک جاتی ہے۔ذرا آگے ایک سروس اسکدار کیلئے تھی۔اسکدار اور کیڈی کوئے دونوں کے بارے میں معلو م ہوا تھا کہ ایشیا کے شمال اور جنوب کے علاقے ہیں۔حیرم Heremفیری سروس ایڈلر جاتی تھی۔ہمارا ارادہ تو ایک جزیرے پر نہیں سبھوں پر تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے اترنے اور نظارے لوٹنے کا تھا کہ رات برشروں نے قلب و ذہن پر قیامت ڈھا دی تھی۔ایک سے بڑھ کر ایک حسین جگہیں۔


یہاں ہمارا اناڑ ی پن پھر دغا  دے گیا۔منچلے سے ایک آدمی نے کہا بشکتاش Besiktasچلی جائیے۔وہاں تو بہت بڑی گودی ہے۔افسوس کہ ہماری وہاں مناسب رہنمائی نہ ہوئی کہ وہیں کسی لانچ سے بشکتاش تک جایا جاسکتا تھا۔اب بس میں سوار ہونے کے مراحل سے گزرے۔کھڑکی کے ساتھ سیٹ نہ ملنے کا قلق تھا۔مگر چلو کچھ تو آنکھیں لڑتی ہی رہیں۔باسفورس کے کنارے پر دولما باشی کی جھلک ہی دکھائی دی۔
بشکتاش کی بحری جہازی دنیا نے تو باسفورس کو قابو کیا ہوا تھا۔یوں بھی بشکتاش باسفورس کے کناروں پر آباد ہونے والی پہلی آبادی ہے۔ترکی کے امراء اور ایلیٹ کلاس کے گھر اس کے کناروں پر اس کی خوبصورتیوں میں گوناگوں اضافے کا موجب ہیں۔
یہاں تو ایک جہان تھا۔پاؤں تلے کی دھرتی زلزلے کی مانند ہلتی،ڈولتی،تھرکتی ،مچلتی ،لہراتی بل کھاتی تھی۔مجھے کچھ یاد آیا تھا۔اپنا پوربو پاکستان اور بوڑھی گنگا کا گھاٹ۔مگر کتنا فرق تھا۔وہی جو ماڈرن جوانی اور غریب کی جوانی میں ہوتا ہے۔یوں درمیان میں پینتیس سال کا وقت بھی تھا۔ہوسکتا ہے بوڑھی گنگا کا گھاٹ اب اپنا حال حُلیہ کافی بدل چکا ہو۔مگر کتنا؟تیسری دنیا کے حکمرانوں کو پہلے اپنی جیبوں کی بھرائی کرنی ہوتی ہے پھر کہیں عوام کی باری آتی ہے۔خیر چھوڑتی ہوں اِن لایعنی باتوں کو ۔تو یہاں سب کچھ دیکھنے میں مزہ آرہا تھا۔
فیری کروز میں داخل ہوئے تو فوراً عرشے پر چلے آئے۔چیختی ،چنگاڑتی،شورمچاتی ایک دنیا سامنے تھی۔سیٹیوں،سائرنوں کی تیز آوازوں ،کہیں روانگی اور کہیں آمد کے منظر،لوگوں کے ہجوم،گھاٹ کے نزدیکی پانیوں کا گدلا پن،ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں اُچھل کُود بھی نظرآتی تھی۔مچھلیوں کی کوئی بہتات سی بہتات تھی۔دو بحری جہاز لنگر انداز ہورہے تھے۔ایک ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔یہیں ہم اُس جاپانی خاتون اور اُس کی پیاری سی گل رنگ بیٹی سے ملے۔دہلی کے جاپانی سفارت خانے میں شوہر ایرا تاشی کا منصب دار۔ گھر جاتے ہوئے استنبول دیکھنے کا شوق اُسے کھینچ لایا تھا۔
بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں سماعتوں اور بصارتوں پر حملہ آور تھیں۔روانگی کا منظر دل موہ لینے والا۔اب جوں جوں سمندر کے اندراُتر رہے تھے۔اس کا جمالیاتی حسن اور مسحور کئیے دے رہا تھا۔نیلے آسمان تلے،نیلے پانیوں میں متحرک،سامنے ایشیائی حصّے کی عمارتوں اور سبزے کا حسن۔
دو لکھنے والے اگر کِسی سفر پر اکٹھے ہوں اور ہوں بھی دو عورتیں تو بڑی مصیبت پڑجاتی ہے۔کسی چیز کو نوٹ کرنے کیلئے کاپی کیا کُھلتی۔سیماکی نوٹ بک بھی فوراً کُھل جاتی۔یوں ایک مسابقاتی سی فضا جنم لے لیتی۔بہرحال میرے ساتھ ایک تُرک بیٹھا تھا۔ اخبار کے مطالعہ میں محو تھا۔میں نے متوجہ کیا ۔خیر توجہ تو فوراً کی مگرآنکھوں میں رکھائی اور سردمہری کی ہلکی سی تہہ نے مجھے ٹھنڈا کردیا۔یوں بھی انگریزی سے بالکل پیدل تھا۔


مگر یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ دلکش اور ادھیڑ عمر کی عورت ملاحت سے ٹکراؤ ہوا۔آبائی تعلق تو کرس Kars سے تھا۔میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ آرمینیا سے ملتی سرحد کا شہر ہے۔چار بچے دو بیٹے ،دو بیٹیاں ۔ایک بیٹا بیٹی لندن اور ایک یہاں استنبول میں۔استنبول کے یورپی حصّے کے ضلع فیری کوئے میں بیٹے کے پاس گذشتہ کوئی ہفتہ بھر سے تھی۔آج ایشیائی حصّے میں مقیم بیٹی کے پاس جارہی تھی۔لندن میں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔اسی لئیے انگریزی میں بھی رواں تھی۔اس نے بیشکتاش(Besiktas )میں بحری میوزیم دیکھنے کا پوچھا۔
جنگی عجائب گھروں کا کیا دیکھنا؟میں نے ہنستے ہوئے کہا ۔
وہاں وہ بحریہ کا کمانڈر خیرالدین بار بروسہ کا مزار بھی تو ہے۔ہمارا ایک بہت بڑا ہیرو جس کی ہیبت سے کبھی یورپ کو دندل پڑتی تھی۔اُس کے لہجے میں تفاخر بڑا نمایاں تھا۔
ہمیں واقعتا افسوس ہوا۔چلو ابھی تو ہیں نا یہیں۔کہہ کر دل کو تسلی دی۔
سیکولر ترکی کے اسلام کی طرف رحجان سے متعلق کچھ سوالات کی ذہن میں کھلبلی سی تھی۔اُن ہی کے بارے کچھ باتیں ہوئیں۔
پہلی اہم بات ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔میری ناقص رائے کے مطابق اسی سیکولرازم میں ہی اس کی بقا ہے۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومتی لوگ مذہبی رحجان رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اتاترک کے قائم کردہ سیکولر نظام کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ فرقہ واریت کو روکنے کا یہی موثر ترین ہتھیار ہے۔
اتاترک جیسا لیڈر کہیں صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔اُن کا دور اانہی اصلاحات کا مقتضی تھا۔ جو انہوں نے اس وقت کیں۔سچی بات ہے کچھ اتحادیوں اور کچھ اپنوں کے ہاتھوں ترکی ایک جاں بہ لب مریض کی طرح آخری سانسوں پر تھا۔ جہالت اور مذہبی تنگ نظری معاشرے میں جڑوں تک اُتری ہوئی تھی۔تو اُس وقت وہی علاج کرنے کی ضرورت تھی جو اتاترک نے کیا۔ ہاں کہیں کسی معاملے میں زیادتی بھی ہوئی کہ جب معاشرہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہو تو ایسا ہونا فطری امر ہے ۔طیب اردوان سے توقعات تو بہت ہیں۔ترکی کی معیشت بہتر کرنے اور جمہوری اصلاحات لانے میں اُن کا ایجنڈا اور حکومت کے یہ تین سال بہت شاندار ہیں۔مئیر کی حیثیت سے بھی انہوں نے خود کو منوایا ہے ہمیں ان کے مذہبی ہونے یا خاتون اول کے سکارف پہننے یا ری پبلکن پارٹی کے مقابلے پر نجم الدین اربکان ہی کی طرح کی اسلامی رحجان رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سے بھی کوئی غرض نہیں ۔اقتدار اُنکے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہو۔سوال صرف ملک کی بہتری اور ترقی سے ہے۔ رہا مذہب تو وہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ نجم الدین اربکان کی رکن
پارلیمنٹ مروہ کو حجاب کرنے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی سیٹ سے محروم کردیا گیا تھا۔ترکی کی پارلیمانی تاریخ کا یہ بہت گھٹیا فعل تھا۔
سیاسی پارٹیوں کے بارے میرے سوال پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔


’’ارے بہتیری ہیں۔ری پبلکن تو اتاترک نے بنائی۔ڈیموکریٹ پارٹی اس کے ساتھیوں نے کھڑی کی۔جلال بایار ،عدنان میندرس ،رفیق قرلتان اور خواد کو پرولو۔سعید نورسی اور نجم الدین اربکان اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ تھے۔وہ مختلف اوقات میں پابندیاں لگنے کے باعث نئے نئے ناموں سے پارٹیاں بناتے رہے۔کہیں ملّی نظام،کہیں رفاہ ،کہیں فصیلت اور کہیں سعادت۔موجودہ طیب اردوان بھی انہی لوگوں کے نظریاتی رفیق ہیں۔مگر کہیں اختلافات پر انہوں نے جسٹس اینڈ ڈوپلمنٹ پارٹی بنائی۔یہی پارٹی آج کل حکمران ہے۔
یوں نائن الیون نے حالات بہت تبدیل کردئیے ہیں۔مغربی طاقتیں بھی بڑے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتری ہوئی ہیں۔میرے خیال میں لوگوں میں مذہبی،جذباتی ردّعمل کی شدت اسی بنا پر پیدا ہوئی ہے ۔ضرورت ہے کہ برداشت،رواداری اور احترام انسانیت معاشروں کا حسن بنے کہ ا سی میں انکی عافیت ہے۔
جہاز کبھی یورپی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتا اور کبھی درمیان میں آجاتا۔
Ortakoy کی مسجد کو دیکھنا بہت خوبصورت تھا۔Beylerbeyi بیلر بےئی والے محل میں مقیم سلطان عبدالحمید کشتی میں سوار ہوکر اسی مسجد میں نماز کیلئے آیا کرتے تھے۔یہ بھی ملاحت نے بتایا۔ ایشیا اور یورپ کو ملانے والا پُل باسفورس برج دور سے دیکھا۔اسے اتاترک برج کا نام دیا گیا ہے۔
رومیلی حصار اور فاتح سلطان محمد برج دیکھے اور ان کے بارے ملاحت سے تھوڑا
سا سنا بھی۔جہاز نے ایشیا کی سمت ٹرن لیا۔اسکدار میں لنگر انداز ہوا تو ملاحت رخصت ہوئی۔مگر جانے سے قبل ہمیں The Leandros Tower کے بارے بتا گئی اور بیلربی محل کو دیکھنے کی بھی تاکید کرتی گئی۔
اسکدار اور کیڈی کوئے ہم جا چکے تھے اور ٹاور کی کہانی بھی سن اور پڑھ چکے تھے۔
یہ سات نہیں نو جزیروں کی ایک خوبصورت لڑی سی استنبول کے ایشیائی حصّے کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس کے ساحلی حصّے بوستنک Bostanic اور کارتل Cartalسے قریب تر ہیں۔ایڈلر استنبول کے موتی ہیں۔ایک طرح یہ دنیا کے ہیرے کہلانے کے مستحق بھی ہیں۔گرمیوں میں خشک اور قدرے گرم،سردیوں میں تر اور معتدل ۔ پرسکون،خاموش،صنوبر اور دیودارکے جنگلوں سے ڈھنپے، سرسبز جھاڑیوں سے گھرے،آف وائٹ گھروں پر چڑھی بوگن ویلیا کی بیلوں،چمکتے ہوئے پیلے رنگوں کے مموسا،میگنولیا کے پھولوں جو ڈس اور چیری کے درختوں سے بھرے۔
یہاں تعمیراتی حسن اور فطرت کا حسن باہم گلوگیر ہوتے ہیں۔استنبول کے احکام کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح ان کے حسن خداداد کو نقصان نہ پہنچے۔آلودگی ، دھویں اور دیگر کثافتی مواد سے انہیں ہرطرح بچایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہرقسم کی گاڑی پر پابندی ہے۔
یہ کوئی عثمانی خلفاء اور اُن کے ادوار کی دریافت نہیں۔صدیوں پرانے ہیں ۔تب انہیں ڈیمونسوئی Demonisoi (ڈیمن کا آئی لینڈ Demon’s Island کہا جاتا تھا۔یونانی فلاسفر نے اِسے پائن آئی لینڈ کا نام دیا۔)باز نطینی دور میں یہ Papadanisiaکہلائے۔یعنی پادریوں کے جزیرے۔سزا یافتہ شہزادوں ،امرا، نوابوں ،شہزادیوں اور ملکاؤں کا کالا پانی تھا۔

’’تو بھئی کیا خوبصورت کالا پانی تھا۔‘‘
ایسا کالا پانی تو سب کو نصیب ہو۔
ترکوں نے اِسے کرمسن crimson کہا جس کا مطلب زمین کا رنگ و روپ سے ہے۔ترکوں کا عطا کردہ نام جمالیاتی نگاہ سے حقیقت کے زیادہ قریب ہے کہ زمین نے تو شاید اپنے حُسن کے سارے پوشیدہ خزانے یہاں انڈیل دئیے ہیں۔


ہماری بصارتوں میں ایک منظر ابھرا۔ایک خوبصورت جزیرے پر طلبہ کی ڈرل پی ٹی کا منظر ۔منظم انداز میں بنی لائنوں میں کھڑے بچوں کی گہری نیلی نیکریں ،آسمانی رنگ کی قمیضیں ،انہی دو رنگوں کے امتزاج سے بنی نکٹائیاں ۔سفید جرابوں پر سیاہ بوٹ۔یونیفار م کی یہ خوبصورت سی ہم رنگی ،بینڈ کی گونجتی آواز اور بچوں کی ہاتھوں کی حرکات کی ہم آہنگی ایک ایسے دلفریب منظر کی آئینہ دار تھی کہ جس سے آنکھیں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
یہ یاسیدہ yassiada آئی لینڈ تھاجو اسکول کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ہمارے پاس کھڑے ایک ترک نے ہمیں بتا یا تھا ۔
ہمارا جہاز اتنے قریب سے ہوکر گزرا کہ بچوں کے چہروں پر پھیلی شادابی تک ہماری نظروں میں تھی۔جیٹی بہت شاندار اور بچوں کا کھیل کا میدان وسیع و عریض جس کے گرداگرد سلاخ دار آہنی اونچی باؤنڈری تھی۔
ان جزیروں کی ساری تاریخ میں ان کا واحد ذریعہ زراعت اور مچھلی گیری رہی۔ماہی گیری کے علاوہ انگوروں کی کاشت،پھل دار درختوں اور سبزیوں کی کاشت بھی ہوتی رہی تھی۔
ہمارا پہلا پڑاؤ اٹھارویں صدی کے وسط تک عثمانی خلفاء کے نظرانداز کردہ سب  سے بڑے جزیرے بکوڈا Buyukada میں ہوا۔اُس کا عثمانی ماضی اور بازنطینی دور تو بڑے درد ناک تھے۔1930 میں یہاں سے سکندر اعظم کے باپ فلپس کے دور حکومت میں رائج سکے دریافت ہوئے تھے۔پھاہے (پھانسی) لگائے جانے والے شہزادوں اور شہزادیوں کو بھی زیادہ تر یہیں بھیجا جاتا تھا۔انسیویں صدی کے وسط میں نئی لیجسلیٹواصلاحات کے زیر اثر جب غیر ملکیوں کو حق ملکیت دیا گیا تو سب سے پہلے فرانسیسی آدھمکے۔انہوں نے اِسے گرمائی مستفر بنادیا۔پھر بھاپ کے سٹیمر چلنا شروع ہوگئے۔ترقی کی نئی نئی اصلاحات نے اسے مزید نکھاردیا۔
اس کا حال بہت خوبصورت اور روح افزا بن گیا۔شاندار جیٹی سے جڑا خوبصورت لمبا راستہ ،چوٹیوں سے سبزے کے رنگ و روپ شروع ہوتے اور پھیلتے پھیلتے آخری ڈھلانوں میں بنے خوبصورت گھروں میں نگاہوں کو اُلجھا دیتے ہیں۔چوٹی پرکوئی محل بھی نگینے کی سی صورت لیے دمک رہا تھا۔ہوگا کسی امیر کبیر آدمی کا محل مینارہ۔سڑکیں انتہائی خوبصورت جن پر دو گھوڑوں والی بگھیاں اور گدھا گاڑیاں بھاگی پھرتی تھیں۔لید کیلئے کپڑے بندھے تھے۔یہ فیصلہ میونسپلٹی کا ہی ہے کہ یہاں موٹر گاڑی کو ہرگز آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اسی لئیے ہمیں سڑکوں پر سائیکلوں پر سوار خوب رو ترک تربوزوں کے ساتھ نظر آتے تھے۔غیر ملکیوں کے ٹولے گشت کرتے اور کناروں پر بنے ریسٹورنٹوں میں کھاتے پیتے دکھتے تھے۔سائیکلیں کرائے پر ملتی ہیں۔جو چلانا چاہے لے اور سیر کرے۔
بگھی کی سیر کی ۔سورج کی سنہری دھوپ میں نیلگوں گھاٹیوں کے کناروں پر بنے ریسٹورنٹوں میں کرسیوں پر بیٹھے ،گپیں ہانکتے ،کافی، چائے پیتے گورے سیاحوں کے پرے دیکھنا کیسا خوبصورت کھیل تھا۔ہم بگھی میں بیٹھے بیٹھے یہ کھیل کھیلتے رہے اور خوش ہوتے رہے۔
یہاں کی زیادہ آبادی یونانی اور آرمینیائی لوگوں کی ہے۔گرجے اور شینی گاگوں کے ساتھ ساتھ مسجدیں بھی تھیں مگر کم کم۔
ظہر کی نماز کیلئے ہم چند گلیاں چھوڑ کر عقبی سمت میں گئے تو پھلوں اور سبزیوں کی دوکانوں پر سجے پھل اور خوش رنگ سبزیاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔رنگوں میں تازگی کا حُسن اور جسامت میں بڑائی کازعم انہیں بڑی انفرادیت دے رہا تھا۔ہم نے ٹھہر ٹھہر کر رک رک کر اُن کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’اچھا اچھا تو یہ شملہ مرچ ہے۔ارے یہ کدو ہے۔باپ رے باپ۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london


مسجد چھوٹی سی تھی۔زنانہ حصّہ اوپر تھا۔وہاں دو شامی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ایک نوجوان اور دوسری کچھ ڈھلتی عمر کی۔سکول ٹیچرز تھیں۔ہمسائے ملک میں سیر کیلئے آئی تھیں۔تب شام اس دہشت گردی کا شکار نہیں تھا۔نو سو میل لمبی سرحد والے ہمسائے سے تعلقات بھی بہت اچھے تھے اور ان کی عورتوں کو کوئی خوف و خطرہ بھی نہ تھا۔نہ اپنے ملک میں اور نہ ہمسایوں کے کہ سرحدوں پر فراخدلی سے آنا جانا تھا۔
آیا آریناAya irina کی مناسٹری دیکھی۔ڈھائی گھنٹے کا یہاں قیام تھا۔مرمرا کے ساحل سے جڑے ریسٹورنٹ میں مچھلی کھائی۔ایسی بے سوادی کہ لُقمہ اندر جانے کی بجائے باہر آتا تھا۔
Hey Bliadaدوسرا بڑا جزیرہ تھا۔کسقدر منفرد اور خوبصورت ۔ہمیں تو یوں لگا تھا جیسے کوئی جل پری اپنے لمبے لہراتے بل کھاتے بالوں کو پل پل جھٹکے دیتی ہمیں خوش آمدید کہتی ہو۔نیلگوں دھندلی سی فضاؤں میں خوبصورت سیاح کرسیوں پر بیٹھے لہروں کو تکتے اور عقب میں گھر اور پہاڑ کی سبزے سے بھری دور دور تک پھیلی ڈھلانوں کو گویا جیسے نیچے
پھسلتی آتی ہوں کو دیکھتے تھے۔
تاہم اس جزیرے پر ایک ایسامنظر دیکھنے کو ملا جسے دیکھنا اور اس کے حسن کو اپنی پوری توانائی کے ساتھ محسوس کرنا گویا اُس سارے دن کا ایک انعام تھا۔آبی پرندوں کی قطاریں سینکڑوں کی تعداد میں ایک ترتیب سے اڑتی ہوئی نیچے پانیوں پر اُترتی تھیں۔دودھیا سفید مرغابیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور سبک سر کے سے انداز میں اُنکا فضا سے اُتر کر پانیوں پر تیر نے کو کاش میں شعروں میں ڈھال سکتی۔کاش میں شاعرہ ہوتی۔
جہاز تیسرے بڑے جزیرے برگزدہ Burgazada پر تھوڑی دیر کیلئے رُکا۔عمارات کا ایک مسلسل بہاؤ تھا۔جو ساتھ ساتھ بہتا چلا آرہا تھا۔ایک کٹاؤ ختم ہوتاتو دوسرا شروع ہوجاتا۔جیٹی بڑی شاندار سی تھی۔خاکستری پہاڑیاں لم لیٹ ہوئی پڑی تھیں۔دو منزلہ ،سہ منزلہ گھروں اور ہوٹلوں کا پھیلاؤ کچھ ایسا تھا کہ جیسے کسی مہ جبین نے گلے میں ست رنگا ہار پہنا ہوا ہوجو ناف کو چھوتا ہو۔
اس جزیرے بارے تاریخ دان کہتے ہیں کہ پہلا تاریخی واقعہ 11قبل مسیح میں یہاں پیش آیا۔سکندر اعظم کے کمانڈر Antigonosکا بیٹا Dimitrios آبنائے استنبول پر دوبارہ قبضے کیلئے Lisimakhos سے جنگ کر بیٹھا۔اُس نے Burgazadaنامی جزیرے پر ایک قلعہ بنوایا اور اُسے اپنے باپ برگ زادہ کا نام دیا۔
Kinalidaجزیرے کی تو بات ہی نرالی تھی۔جیسے سمندر میں تیرتا ہنستا مسکراتاپھول۔یہاں سبزہ کم تھا۔جزیرہ کنارے کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ سٹیمر ،کشتی یا لانچ کے رُکتے ہی اگر کوئی شوقین چاہے تو فی الفور سمندر میں تیراکی کیلئے اتر سکتا ہے۔گائیڈ نے بتایا تھا کہ یہیں یونانی چرچ میں وہ بازنطینی افواج کا کمانڈر انچیف جس نے سلجوقوں سے شکست کھائی تھی اور جسے سلطان الپ ار سلان نے یہاں بھیجا تھا۔زمانوں تک وہ یہیں ایک
Monastaryمیں رہا۔اور یہیں دفن ہوا۔اس کی قبر یونانی چرچ میں ہے۔تو بھئی اسے دیکھنے کیلئے اُترے۔دیکھا اور دعائے خیر بھی کی۔یہاں فٹن نہیں تھی۔بس سائیکلوں پر لوگ چڑھے گھومتے پھرتے تھے۔یا پھر اس کی گلیوں میں پیدل مارچ ہورہا تھا۔سیاح یہاں کم ہی تھے۔
Sedef Adasiمیں پڑاؤ بس آدھا گھنٹہ کا تھا۔اس کے بارے پتہ چلا کہ بیسویں صدی میں آبادہوا۔سبزہ بہت تھا۔مکانات ایسے شاندار تھے کہ نظر نہ ٹکتی تھی۔چاروں طرف قدرتی ساحل تیراکی کیلئے موجود تھے اورگوروں کے جم غفیر نے اُدھم مچا رکھا تھا۔
اس کی گلیوں اور شاہراوں میں سجے گرجا گھر ،خانقاہیں، گھراور بازاریوں نظر آئے تھے جیسے کسی بھری دوپہر میں سرسبز املتاس کے درخت پر کھلے کچے پیلے رنگ کے پھول اور ان پر لٹکتی پھلیاں ۔یہ بھی ایک قید خانہ تھا۔رومنوں کے شہزادوں اور شہزادیوں کااُن کی سربرآورہ شخصیات کا۔
نو کا تو بس بہانہ ہی تھا۔پانچ جزیروں کے بعد ہی واپسی ہوگئی تھی۔پیسے نو کے لئیے اور دکھائے پانچ۔ ہم کیا بولتے۔کہیں کوئی اور آواز نہیں تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply