‫انڈین کشمیر کی آبِ حسرت

“کیا میں جانور ہوں کہ مجھے باندھا گیا اور نمائش کے لیے پیش کیا گیا؟” یہ سوال پوچھتا ہے، ایک انڈین کشمیری، جسے انڈین آرمی کا ایک افسر الیکشن کے دن انسانی ڈھال کے طور پر اپنی جیپ کے سامنے باندھ کر سری نگرکی سڑکوں پر دوڑاتا رہا۔ ‬

‫انڈین ڈائریکٹر وشال بھردواج نے 2014 میں ولیم شیکسپیئر کے ناول ہملٹ سے متاثر ہو کر “حیدر” کے نام سے کشمیر کے پس منظر پر ایک فلم بنائی جس کے ڈائیلاگ اور کہانی کشمیر کے ایک مشہور جرنلسٹ اور ادیب، بشارت پیر نے لکھی۔ انہوں نے ایک کتاب کشمیر پر “کرفیو نائٹس” کے نام سے بھی لکھی ہے جو سال کی بہترین کتاب قرار پائی تھی۔ اس کتاب اور فلم میں کشمیر کے دکھ اور کرب کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا۔ اس فلم کا ایک سین ہے جس میں شاہد کپور، جس نے حیدر کا رول ادا کیا، کہتا ہے ‬
“جس کا قانون ہے اُسی کا آڈر ہے‬،
‫انڈیا پاکستان نے مل کر کھیلا ہم سے بارڈر بارڈر ہے، ‬
‫اب نہ ہمیں چھوڑے ہندوستان، اب نہ ہمیں چھوڑے پاکستان‬
‫اور کوئی تو ہم سے بھی پوچھے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔،
‫آزادی آزادی آزادی‬
‫لے کے رہیں گے آزادی‬
‫آزادی آزادی آزادی‬”

‫یہاں ایک تو حقیقی دنیا کا سین ہے اور دوسرا ایک فلم کا، مگر ان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے، “انڈین کشمیریوں پر ظلم” ۔ ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے کہ کون سا ملک صیح ہے اور کون سا غلط ، مگر کیا ان دونوں ملکوں نے اس بارے میں بھی کبھی سوچا کہ اس انا بھری جنگ کی وجہ سے کشمیریوں پر کیا بیت رہی ہے؟ اُن کے اوپر یہ کیسا ظلم دونوں ملک کر رہے ہیں؟ اسی طرح کیا دونوں ملک کے حکمرانوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی معاشی حالت کیا ہے؟ ‬
‫یہاں ہم آپ کو ‬بی بی سی کے نیو دہلی کے نمائندے سہیل علیم کی ایک رپورٹ ‫کے بارے میں بتاتے ہیں‬ کہ سہیل علیم نے کیا لکھا اور کیا محسوس کیا۔

‏‎دانش، ڈل جھیل کے کنارے اپنے شوروم میں ایک چھوٹا سا چرخہ کات رہے ہیں۔ یہ چرخہ چلتا ہے تو کشمیر کی مشہور پشمینہ شال بنانے والے دستکاروں کی زندگی چلتی ہے۔لیکن آج کل وادی میں عام زندگی کی طرح یہ چرخہ بھی رک رک کر چلتا ہے کیونکہ حالیہ شورش کی وجہ سے سیاحوں نے وادی کشمیر سے منہ موڑ لیا ہے۔دانش کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے ڈیڑھ سو خاندان کام کرتے تھے لیکن آج کل تقریباً سب خالی بیٹھے ہیں۔ آج کل وہ چھوٹا موٹا کام کرتےہیں، جن لوگوں سے ہم 20 یا 30 شالیں خریدتے تھے، اب ایک دو ہی لیتے ہیں، وہ بھی برآمد کے لیے۔قریب ہی طاہر کا شو روم ہے لیکن انھیں مقامی سیاحوں کا انتظار نہیں ہے۔ وہ اخروٹ کی لکڑی پر نقاشی کے کام والا سامان بیچتے ہیں جو اتنا مہنگا ہے کہ اسے زیادہ تر غیرملکی ہی خریدتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ”اگر آپ پچھلے سال آج ہی کے دن مجھ سے ملنے آئے ہوتے تو میرے پاس آپ سے بات کرنے کے لیے وقت نہ ہوتا۔۔۔ لیکن اس سال کاروبار بالکل ختم ہے، سیاحت سے بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگی جڑی ہوئی ہے، شکارے والے، ٹیکسی والے، ہوٹل والے، دستکار۔۔۔ سب کو بھاری نقصان ہو رہا ہے، ہم بس کسی طرح وقت گزار رہے ہیں”۔کشمیر کے محکمہ سیاحت کے مطابق یہاں سیزن کے عروج کے دنوں میں روزانہ دس سے 12 ہزار سیاح آتے ہیں، لیکن یہ تعداد آج کل گھٹ کر پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔ اور اس کی جھلک ہر طرف نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوٹل میں ہمارے علاوہ کوئی مہمان نہیں تھا اور زیادہ تر ملازمین کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔

محکمے کے ڈائریکٹر محمود احمد کہتے ہیں کہ “یہ سیزن تو تباہ ہو گیا ہے۔۔۔ سیاحت کے لحاظ سے کشمیر کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے جسے دوبارہ بحال کرنے میں وقت لگے گا”۔وہ کہتے ہیں”سیاحوں کے نہ آنے سے کتنا نقصان ہوا اس کا اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے، لیکن نقصان بہت زیادہ ہے۔۔۔ یہاں کئی فلموں کی شوٹنگ بھی ہونا تھی جو منسوخ کر دی گئی ہے”۔ ‫ہر سال پاکستان کشمیر ڈے مناتا ہے اور ہرکوئی کشمیریوں کی غلامی اور بے بسی پر آنسو بہا رہا ہوتا ہے۔ مگر کوئی بھی پاکستانی ان بےچارے کشمیریوں کے دکھوں کے حل کے لیے نہیں سوچتا۔ بس سوچتا ہے تو ایک ہی بات کہ کس طرح ہمیں وہ جنتِ نظیر سر زمین کا ٹکڑا مل جائے ، بے چارے کشمیری بھوک سے مرتے ہیں ، یا انڈین آرمی کی گولی سے اور یا پھر دہشتگردوں کے کسی حملے سے، ہمیں کیا؟ ‬ہم بہت آرام سے اپنے ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان معصوم لوگوں کی اذیّت کا اندازہ کیے بغیر، جو اگر انڈین آرمی کے پیلٹ سے بچ گئے تو روزگار نہ ہونے کی وجہ سے گرسنگی سے سسک سسک کر مر جاہیں گے۔

ہمیں کشمیریوں کی ہر طرح کی سفارتی مدد کرنا چاہیے اور ان پہ ظلم کی مذمت۔ لیکن کسی بھی “پرائیوٹ آرمی” کو کشمیریوں کی زندگی مزید مشکل بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ایسی کوئی اجازت کشمیریوں کی جدوجہد کو کمزور اور ان پر ظلم میں اضافہ کرے گی۔ اس معاملے میں ہمیں مودودی صاحب کی رائے کو اپنانا چاہیے۔ ۔۔”مولانا مودودی نے مئی 1948 میں ٹیمپل روڈ پر مولانا عبدالحلیم قاسمی کی مسجد میں ایک اتوار کی صبح درسِ قرآن دینا شروع کیا۔ درسِ قرآن کے اختتام پر ایک صاحب نے مولانا سے جہادِ کشمیر کے بارے میں سوال کیا۔ وہ پہلے خاموش رہے۔ مگر بار بار اصرار پر فرمایا کہ ‘‘قرآن کی رُو سے صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے۔ غیر مسلّح ریاستی جتھّے اپنے طور پر کسی ملک یا ریاست کے خلاف جہاد شروع نہیں کرسکتے”۔
اگر کشمیر کی “لوکل تحریک آزادی” میں “انٹرنیشنل کھلاڑی” دوبارہ کودے تو کہیں بنگالیوں اور افغانوں کے بعد کشمیری بھی ہم سے نفرت نہ کرنے لگیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(کشمیریوں کی حالتِ زار کا قصہ بی بی سی کی سہیل علیم کی رپورٹ سے لیا گیا ہے)
مولانہ مودودی کا فرمان الطاف حسین قریشی نے اردو ڈائجسٹ کے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا تھا۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply