ثمرِ محبوب: ہان کینگ (ترجمہ: عاصم بخشی)قسط2

اس کے باوجود مجھ میں خواہش کی ہلکی سی گدگداہٹ بھی نہ تھی۔ نہ صرف اس کے کولہوں بلکہ پنڈلیوں اور پسلیوں ، یہاں تک کہ  رانوں کی اندرونی سفیدی تک کو داغدار کرتی زردی مائل سبز خراشیں دیکھ کر مجھے غصے نے جکڑ لیا۔ پھر اتناہی اچانک، یہ طیش اپنی پکڑ کو کمزور کرتا، اپنےپیچھے ایک ناروا دل شکستگی چھوڑ گیا۔ کیا ہمیشہ خیالوں میں گم رہنے والی اس عورت کے ذہن سے نیند نے ایک شام گلی میں نکل جانے کی یاداشت تک محو کر دی ہے؟ ممکن ہے نیند میں مدہوش، کسی سست رفتار گاڑی سے ٹکرا گئی ہو یا پھر پیر پھسلنے سے ہماری رہائشی عمارت کی ان اندھیری سیڑھیوں سے نیچے لڑھک گئی ہو جو کسی ہنگامی صورت حال کے لئے تعمیر کی گئی ہیں؟

اپنے جسم کے زیریں حصے کو ہاتھوں سے چھپائے، کمر پر اختتامِ بہار کی سورج کی دھوپ سمیٹے ، مجھ سے گم سم حالت میں ہسپتال جانے کا سوال پوچھتی میری بیوی کی تصویر اتنی غمگین، بدنصیب اور الم ناک تھی کہ میں کچھ بھی نہ کہہ سکا اور مجھے ایک ایسی شدیداداسی نے آ لیا جو میں نے نہ جانے کب سے محسوس نہ کی تھی۔ میں بس اس کے دبلے پتلے نازک جسم کو بازؤوں ہی میں بھر سکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے سوچا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔اسی لیے بہار کے اس دن اپنی بیوی کا لاغر ڈھانچہ بانہوں میں لیتے ہوئے بولا،’اگر خراشیں تکلیف کا باعث نہیں تو پھر جلد ہی غائب ہو جائیں گی۔ تم تو کبھی ایسے مسائل کا شکار نہیں ہوتیں ، اس مصیبت میں کیسے پھنس گئیں؟‘ لہجے کو ذرا نرم کرتے ہوئے میں نے رسمی سا قہقہہ لگایا۔

آغازِ گرما کی ایک رات گرم مرطوب ہوا اپنے چپچپاتے رخسار قدآور انجیرِ توت کے پتوں سے رگڑ رہی تھی اور گلیاں اپنی لال بھبوکا آنکھوں سے جگمگا رہی تھیں۔ کھانے کی میز پر سامنے بیٹھی میری بیوی نے اپنا چمچ تھالی میں پھینک دیا۔ اُس کی خراشیں میرے ذہن سے بالکل نکل چکی تھیں۔

’بھئی یہ تو کچھ عجیب سی حالت ہے۔۔۔ذرا دیکھنا تو۔‘

اپنی مختصر آستینوں سے نمودار ہوتے مریل بازوؤں کا معائنہ کرتے ہوئے میری بیوی نے فوراً اپنی ٹی شرٹ اور انگیا اتار دی۔ میرے منہ سے ایک ہلکی سی آہ نکل کر رہ گئی۔

خراشیں جو پچھلی بہار میں کسی نوزائیدہ بچے کی مٹھی جتنی تھیں اب تارو کے بڑے بڑے پتوں جتنی ہو چکی تھیں۔اس پر یہ کہ سیاہی مائل بھی تھیں۔ بیدِمجنوں کی شاخوں کی طرح بے چمک ، جس کی زردی مائل سبز رنگت گرما کی آمد کے ساتھ ہی ہلکی سی نیلاہٹ آمیز محسوس ہوتی ہے۔

کانپتا ہاتھ بڑھا کر اپنی بیوی کے خراشوں بھرے شانے کو تھپتھپایا تو یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی اجنبی جسم کو چھو رہا ہوں۔ یہ خراشیں کتنی تکلیف دہ ہوں گی؟

اب جومیں نے ذرا غور کیا تو نظر آیا کہ اس دن میری بیوی کا چہرہ بھی یوں نیلا ہو رہا تھا جیسے تیزابی پانی سے رنگا ہو۔ بال جو کبھی چمکدار ہوتے تھے اب مولی کے پتوں کی طرح سخت اور خشک تھے۔ آنکھوں کی سفیدی پر زرد بنفشی دھند کے سائے تھے جیسے اُس کی غیرمعمولی سیاہ پتلیوں کی سیاہی نکل کر بہہ گئی ہو۔ آنکھیں نمی سے چمک رہی تھیں۔

’میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ باہر جانے کا دل کرتا ہے لیکن جونہی باہر پہنچتی ہوں۔۔۔جیسے ہی سورج کی روشنی پر نظر پڑتی ہے، فوراً کپڑے اتار دینے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میرا جسم لباس سے جدا ہونا چاہتا ہے۔ ‘ میری بیوی اٹھ کر کھڑی ہو ئی اور مجھے گزرے برس میں اپنے لاغر وجود ی ڈھانچے کا سب سے مکمل نظارہ پیش کیا۔ ’پرسو ں تن پر کسی کپڑے کے بغیر میں باہر بالکونی میں جا نکلی اور واشنگ مشین کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ سوچے سمجھے بغیر کہ کوئی مجھے دیکھ لے گا۔۔۔خود کو چھپانے کی کوشش کے بغیر۔۔۔ میرا مطلب ہے جیسے کوئی پاگل پن کا دورہ پڑ گیا ہو!

میں گم سم اپنے ہاتھ میں موجود چاپ اسٹکس کے کناروں پر عالمِ اضطراب میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اپنی بیوی کے لاغر جسم کے اوپری حصے کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔

’بھوک بھی مر چکی ہے۔معمول سے زیادہ پانی پی رہی ہوں۔۔۔پورے دن میں چاولوں کا ایک پیالہ بھی نہیں کھایا جاتا۔ شاید نہ کھانے ہی کی وجہ سے میرے معدے کی تیزابیت بھی دور نہیں ہوتی۔ خود پر جبر کر کے کچھ کھا بھی لوں تو ٹھیک سے ہضم نہیں ہوتا اور بار بار قے آتی ہے۔ ‘ وہ گھٹنوں پر گری کسی ایسی کٹھ پتلی کی طرح اپنا سر میری گود میں رکھ چکی تھی جس کی ڈوریاں کٹ چکی ہوں۔ یقیناً وہ رو تو نہیں رہی تھی؟ میرے پاجامے کے پائنچوں تک ایک گرم مرطوب دھبا بنتا جا رہا تھا۔

’تمہیں معلوم بھی ہے کہ ایک دن میں کئی بار قے کرنا کیسا لگتا ہے؟ یوں جیسے ٹھوس زمین پر کھڑے کھڑے انسان ہچکولے کھانے لگے اور ابکائی آ جائے، بندہ کبڑا ہو جاتا ہے، سیدھا کھڑے ہونا ممکن نہیں رہتا۔ سر درد سے یوں پھٹتا ہے۔۔۔جیسے دائیں آنکھ اس میں سوراخ کر رہی ہو۔ کاندھے کسی چوبی تختے کی طرح اکڑ جاتے ہیں، فرشی سلوں پر ، سڑک کے کنارے موجود درختوں کی جڑوں میں آپ زرد تیزابی مادہ تھوکتے رہتے ہیں۔۔۔‘

جلتے بجھتے فلوری لیمپ سے کسی کیڑے کے ہُوکنے کی اونچی آواز سنائی دی۔ اس کی دبیز روشنی میں اپنی کمر پر کیٹلپا پتے جتنی خراش لیے میری بیوی نے اپنی رندھی ہوئی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔

’ہسپتال جاؤ،‘ ،میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’کل ہی سیدھے داخلی علاج کے شعبے کا رخ کرو۔‘

اس کا نم آلود داغ دار چہرہ بدزیب ہو چکا تھا۔اس کے اکڑے ہوئے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’اور دیکھو دھیان سے جانا۔ دوبارہ اپنے آپ کو زخمی نہ کر لینا۔ اب تم کوئی بچی نہیں کہ اِدھر اُدھر چیزوں سے ٹکراتی، گرتی پڑتی رہو۔‘

میری بیوی کے گیلے چہرے پر ایک کپکپاتی ہوئی مسکراہٹ آئی اور ہونٹوں سے چپکے ایک تنہا آنسو نے دراز ہوتے ہوئے خود کو علیحدہ کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا میری بیوی ہمیشہ اسی طرح آنسو بہاتی تھی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ پہلی دفعہ اسے روتے دیکھا تو وہ چھبیس برس کی تھی۔

نوجوانی میں اسے ہنسانا زیادہ آسان تھا، اس کی آواز ہمیشہ ایک زیر لب تازگی لیے ہوتی، ہنسی جیسے رنگوں کی پھوار۔ اکثر مجھے اس آواز کی پرسکون بلوغت اس کی نوجوان شکل و صورت سے متضاد لگتی۔ جب پہلی بار تھرتھراتے ہوئے لہجے میں وہ یوں گویا ہوئی،’ مجھے سانگی ڈانگ کی فلک بوس عمارتوں میں رہنا پسند نہیں۔‘

’ ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے سات لاکھ انسان ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں دم گھٹنے سے جان دے دوں گی۔ سینکڑوں ہزاروں یکساں عمارتوں سے گھن آتی ہے، ایک جیسی چھتیں، ایک جیسے بیت الخلا، نہانے کے ٹب، بالکونیاں اور لفٹ، باغیچے، قیام و آرام کی جگہیں، دکانیں اور فٹ پاتھ۔ مجھے ان سب سے نفرت ہے۔‘

’ہائیں! ایسی بھی کیا قیامت آ گئی؟‘ اپنی بیوی کی بات کی بجائے اس کے لہجے کی نرمی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے میں نے کسی زود رنج بچے کو بہلانے کے سے انداز میں کہا۔’بہت سے لوگوں کے ایک دوسرے کے قریب رہنے میں آخر ایسی بھی کیا برائی ہے؟‘

اُن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میرا انداز ذرا درشت رُو سا تھا۔اس کی آنکھیں جلتی بجھتی سی محسوس ہوتی تھیں۔

’میں ہمیشہ یہی کوشش کرتی کہ جو بھی کمرے کرائے پر حاصل کیے جائیں وہ شہر کی رونقوں کے قریب ہوں۔ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی جگہیں، گلیوں میں موسیقی کا شور شرابا اور سڑکوں پر ہارن بجاتا گاڑیوں کا ازدہام میرے لئے کشش رکھتا تھا۔اس کے بغیر زندگی بے معنی تھی۔ تنہائی جان لیوا تھی۔ ‘ میری بیوی جس تیزی سے اپنے رخساروں پر بہتے آنسو ہتھیلی کے پچھلے حصے سے صاف کیے جا رہی تھی ، اسی بہاؤ سے مزید ان کی جگہ لے رہے تھے۔’اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی موذی مرض کا نشانہ بننے والی ہوں۔ جیسے میں کبھی اس تیرہویں منزل سے نیچے نہ اتر پاؤں گی، جیسے میں کبھی باہر نہ نکل سکوں گی۔‘

’ بھئی کیوں رائی کا پہاڑ بنا رہی ہو؟ اب یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں۔‘

ان اونچے فلیٹوں میں ہمارے پہلے سال کے دوران میری بیوی اکثر بیمار رہتی۔وہ سیٔول کے پہاڑی علاقوں کے فطری ماحول میں کرائے کے کمروں کی عادی تھی اور مرکزی طور پر برقی نظامِ حدت سے گرم کیے جانے والے اس چاروں جانب بند فلیٹ میں دم پخت رہنا اس کے جسم کے لیے ناقابلِ برداشت معلوم ہوتا تھا۔ جلد ہی اس کی جسمانی قوت اس حد تک گر گئی کہ بس دن میں ایک بار عمودی چڑھائی پر تیز قدموں سے چلتے ہوئے اُس اشاعتی ادارے کے دفتر تک پہنچ سکتی تھی جہاں وہ چھوٹی سی تنخواہ پر ملازم تھی۔

لیکن اُس کے نوکری چھوڑنے کی وجہ ہماری شادی نہیں تھی۔نوکری چھوڑنے کے بعد، بلکہ بہت عرصے بعد میں نے اس سے واضح لفظوں میں شادی کی بات کی۔ وہ اپنی تمام جمع پونجی بشمول ماہانہ تنخواہ، پینشن الاؤنس اور ہفتے کے آخر میں ہونے والے زائد جزوقتی کام کی رقم جوڑ کر ملک چھوڑنے کے منصوبے بنا رہی تھی۔

’مجھے اپنی رگوں میں تازہ خون کی ضرورت ہے،‘ اس نے کہا۔ یہ وہ شام تھی جس دن اس نے اپنے افسر بالا کو استعفی تھمایا تھا۔اس نے مجھے یہی کہا کہ وہ اپنی رگوں میں جمع شدہ گندا خون خارج کر دینا چاہتی ہے اور اس کے تھکے ہوئے ضعیف پھیپھڑے تازہ ہوا کے متمنی ہیں۔ کہتی تھی کہ بچپن ہی سے اس کا خواب آزاد جینے مرنے کا ہے ، اس کی تعبیر کو بوجوہ مؤخر کرتی آئی تھی لیکن اس کے خیال میں اب وہ اتنا سرمایہ جمع کر چکی تھی کہ یہ خواب حقیقت میں بدل سکتا تھا۔ منصوبہ یہی تھا کہ وہ کسی ایک ملک کا انتخاب کرے گی، وہاں چھ سات ماہ قیام کرے گی اور پھر آگے بڑھ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ’تمہیں کیا بتاؤں، بس میں مرنے سے پہلے ایسے جینا چاہتی ہوں،‘ اس نے کھکھلاتے ہوئے کہا۔ ’میں دنیا کا آخری کنارہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ قدم بہ قدم دور نکل جانا چاہتی ہوں۔‘

لیکن آخر کار دنیا کی سرحد کی جانب رختِ سفر باندھنے کی بجائے میری بیوی نے اپنی تمام جمع پونجی ہمارے اس فلیٹ اور بیاہ کے اخراجات پر صرف کر دی۔ بس ایک مختصر سے جملے میں ہی اس نے پوری وضاحت کر دی،’کیوں کہ میں تم سے جدا نہیں ہو سکتی۔‘ تو پھر آزادی کا وہ خواب کتنا حقیقی تھا؟ شاید اتنا نہیں کیوں کہ وہ اتنی آسانی سے اس سے دست بردار ہو گئی۔ یہ سارا معاملہ ایک غیر حقیقی ، رومانوی سراب سے زیادہ نہیں رہا ہو گا ، اور اُس کے منصوبے بس اتنے ہی قابلِ عمل ہوں گے جتنا کسی بچے کے چاند پر جانے کے خیالی پلاؤ۔بالآخر اسے خود ہی عقل آ گئی ہو گی ۔ خود کو اس تاخیری آگہی کی وجہ جان کر میں دل ہی دل میں اپنے آپ پر ایک مبہم سا فخر کیے بغیر نہ رہ سکا۔

شاید یہ اس کا مستقل درد اور آہیں کراہیں تھیں لیکن جب میں نے اپنی بیوی کو بالکونی کے بلوریں دروازے سے رخسار لگائے، گوبھی کے مرجھائے پتوں کی طرح دبلےکاندھے لٹکائے دیکھا تو میرا دل ڈوب سا گیا۔ وہ اتنی ساکت تھی کہ صرف سانس کی نہایت مدھم آواز ہی زندگی کی بچی کھچی علامت تھی، گمان ہوتا تھا کہ کاندھوں پر دو موہوم سے بازو کس دیے گئے ہوں، جیسے کسی نادیدہ زنجیر سے منسلک کوئی جسم آہنی گیند اسے جسم کا ایک پٹھا تک ہلانے سے روک رہاہو۔

رات گئے اور پھر صبح صادق میری بیوی سنسان گلی سے کبھی کبھار گزرنے والی کسی ٹیکسی یا موٹر سائیکل کی آواز سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی۔ ’یوں لگتا ہے کہ گاڑیوں کی بجائے سڑک تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہی ہو، جیسے یہ فلیٹ سڑک کے ساتھ بہتا چلا جا رہا ہو،‘ وہ کہتی۔ یہاں تک کہ جب انجنوں کا شور دور فاصلوں میں کھو بھی جاتا اور نیند اسے دوبارہ آ لیتی ، میری بیوی کے خوبصورت چہرے پر موت کی زردی چھائے رہتی۔

اسی طرح کی ایک رات وہ جیسے خواب میں بڑبڑائی، اس کی گلو گرفتہ آواز بمشکل سنائی دیتی تھی۔۔۔ ’یہ سب کچھ کہاں سے آیا۔۔۔یہ سب کچھ کہاں بھاگتا چلا جا رہا ہے؟‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply