• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گندم سبسڈی ،خالصہ سرکار، یو این کی قراردادیں اور گلگت/شیر علی انجم بلتستان۔

گندم سبسڈی ،خالصہ سرکار، یو این کی قراردادیں اور گلگت/شیر علی انجم بلتستان۔

گندم سبسڈی کو گلگت بلتستان کے عوام مسلہ کشمیر سے منسلک متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار گندم سبسڈی کے خاتمے کی اعلان پر خطے کے عوام تمام تر مسلکی علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ حال ہی میں خطے میں گندم سبسڈی کو کیٹگراز کرکے ایک طرح سے معاشرے کو طبقاتی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی رہے جس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے شرائط بتایا جاتا ہے۔تاریخی طور پر گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی کا تذکرہ اقوام متحدہ کے کسی قراداد میں نہیں اور نہ ہی شملہ معاہدے میں اس قسم کے سبسڈی کا کوئی ذکر  نظر آتاہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو  اور اندراگاندھی نے شملہ معاہدے کے بعد  پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کی اکائیوں میں فوڈ سپلائی کے سفری اخراجات حکومتی سطح پر برادشت کرنے پر اتفاق کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذولفقار علی بھٹو پاکستان کا پہلا لیڈر تھا جس نے اُس وقت کے شمالی علاقہ جات, گلگت بلتستان  کے چپے چپے کا دورہ کیا ۔ اُس دور میں خطے کے عوام راجگری نظام کے سائے میں ایک طرح سے غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔  عوام کو اپنی سال بھر کی کمائی کا لگان دینا پڑتا تھا لیکن زرعی ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر تھے۔ یوں بھٹو عوام کے اس کمزوری اور مجبوری کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی ہر تقریر میں عوام سے پوچھا کہ آپکو کیا چاہئے اور لوگوں کا لگان اور اجناس کیلئے رونا دھونا تھا۔ پس اُنہوں نے راجگری سسٹم کا خاتمہ کرتے ہوئے اشیائے خوردنوش پرسبسڈی کا اعلان کیا جس میں چینی، مٹی کا تیل،نمک ، پکانے کا تیل،گندم وغیرہ    شامل تھے لیکن آج صرف گندم پر سبسڈی ملتی ہے جسے وفقے وقفے سے ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ دوسری طرف بھٹو چونکہ مسلہ کشمیر کو عملی طور پر دفن کرکے  قدرتی وسائل سے مالا مال ریاست کی سب سے بڑی اکائی گلگت بلتستان کو کسی  بھی طرح  پاکستان میں ضم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے کوششیں بھی کی لیکن اقوام متحدہ کے متفقہ قردادیں آڑےآنے کی وجہ سےبے بس ہوئے۔ لیکن اُنہوں نے گلگت بلتستان میں قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی شروع کی جس کے وہ مجاز نہیں تھے اور اُنہوں نے بھی خطے میں زرعی ترقی کیلئے بھی کو خاطر خواہ کوئی  کام نہیں کیا اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ پس سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے آج خلاصہ زمینوں کو سرکاری زمین قرار دیکر عوام کو مسلسل بیدخل کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ خالصہ سرکار کی تشریح خطے میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ۔اس اصطلاح کی قانونی اور تاریخی  تعریف کرنےسے  عام آدمی کے ساتھ سیاسی، مذہبی رہنما اور صحافی حضرات بھی قاصر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ خطے میں ایسی زمینوں کو سرکاری ملکیت تصور کرکے بغیر کسی معاوضے کے حکومت اپنی تحویل میں لے کر ضرورت کے حساب استعمال کرتے ہیں اور عوام ہر بار زمینوں کو بچانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف قسم کے مقدمات کا انداراج معمول کی بات ہے۔ اس اصطلا ح کو سمجھنے کیلئےخطے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں، آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 اور257   کے ساتھ معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 اور خالصہ ریاست کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ تقسیم برصغیرکے وقت گلگت بلتستان لداخ سابق ریاست جموں و کشمیر کاصوبہ تھے، یہی پاکستان کے دفتر خارجہ کا آج بھی موقف ہے ۔ ڈوگروں سے پہلے سکھ سلطنت برصغیر میں ایک اہم طاقت تھی جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں ابھری۔ سکھوں نے 1799ء میں لاہور پر قبضہ کرکے اور پنجاب کے گردنواح کے علاقوں میں حکومت قائم کی اور یہ سلطنت 1799ء سے 1849ء تک قائم رہے۔جس کے اثرات اس وقت گلگت بلتستان لداخ اور گردو نواح تک بھی پہنچے۔ لیکن بعدازا ں پنجاب میں لڑی جانے والی انگریز سکھ جنگوں میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہو گیا۔ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں پھیلی نیم خود مختار سکھ یا راجدھانیوں کو منظم کر کے خالصہ سرکار یا سکھا  شاہی حکومت کی بنیاد ڈالی تھی۔ اپنے عروج پر یہ سلطنت خیبر پاس سے لے کر تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ کشمیر تک پھیل چکی تھی۔ زور آور سنگھ کشمیر میں سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کا وزیر تھا جو وہاں سے آگے سکھا شاہی کی قیام کیلئے بڑھا۔ انہوں نے لداخ 1840 میں فتح کیا۔ اُسی  سال اُنہوں نے سکردو کو بھی فتح کرکے بلتی سپاہیوں کو اپنی فوج میں شامل کرکے تبت پر بھی حملہ آور ہوئے۔ دوسری طرف سکھ فوج کا ہی کرنل نتھو شاہ، گلگت پر حملہ آور ہوا اور پہلی مرتبہ راجہ گوہر امان کو شکست دے کر اس نے گلگت میں قدم جما لیے۔ لیکن وہ 1848 میں، نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوگیا۔ اُس وقت خالصہ سرکار کے چار صوبے تھے۔ لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر۔ کرنل زور آور سنگھ گلگت پر سرینگر کی جانب سے حملہ آور ہوا تھا اور سرینگر کے حکمران کو ہی جواب دہ تھے۔ 16 مارچ 1840 کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت اور لداخ بشمول بلتستان کی وزارتیں، جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کیں۔ کرنل نتھو شاہ، حکمران تبدیل ہونے پر پریشان ہو کر سرینگر چلا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ اب اُنہیں تنخواہ اور مراعات کون دے گا۔ ڈوگرہ حکومت نے اسے اپنی گلگت عملداری جاری رکھنے کو کہا۔ بالآخر 1860 میں کرنل نرائن سنگھ گلگت پر پوری طرح سے قابض ہو گیا۔ یوں تاریخی طور  مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839) کے دور میں غیر تقسیم شندہ  زمینوں کو سرکار کی ملکیت قرار دیا جاتا تھا اس عمل کو خالصہ سرکار نام دیا۔یاد رہےخالصہ ریاست بحالی تحریک آج بھی انڈیا کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے ۔ سلطنت پنجاب اور انگریزوں کی جنگ میں سکھ شکست سے دو چار ہوئےتو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ نانک شاہی سکہ بطور تاوان جنگ کے سلطنت سے طلب کیا۔نامور مصنف جی ایم میر اپنی کتاب کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے مصارف جنگ کے تاوان کے طور پر ایک کروڑ روپیہ طلب کیا۔ دلیپ سنگھ کا خزانہ خالی تھا، اس نے کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ انگریزوں کو پیسے کی ضرورت تھی ، انہوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض ریاست جموں کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر کے اسے مہاراجہ کا خطاب دیا۔اس معاہدے کو امرتسر 16 مارچ1846ء کہتے ہیں جس کے شق نمبر ایک کچھ یوں ہے۔ برطانوی حکومت وہ تمام پہاڑی علاق معہ نواحات جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں بشمول چمبہ ماسوائے لاہول کے ، جو اس علاقے کا حصہ ہے جو لاہور دربار نے معابد 9 مارچ 1846 کی دفعہ 4 کے تحت حکومت برطانیہ کے سپرد کیا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کی اولاد کے مستقل اور کلی اختیار میں دیتی ہے۔ یوں گلگت پہلے ہی گلاب سنگھ کے  قبضہ میں تھا۔ یوں مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب لینڈ ریفارفز کیا تو اُنہوں نے خالصہ کے اصطلاح میں ترمیم نہیں کی لیکن اُنہوں اُس وقت کے حالات کے تناظر میں ریاست کے باشندوں کے زمینوں کی تحفظ کیلئے  1927 میں قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون منظور کیا اور یہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے۔ پانچ اگست 2019 تک انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص حاصل تھی جسے مودی حکومت نے ختم کیا اور حال ہی میں سپریم کورٹ آف انڈیا نےحکومت سے جواب طلب کی ہے ریاست پاکستان کا بھی مطالبہ یہی ہے کہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کیا جائے۔یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے۔ لیکن جیسے اوپر ذکر کہ گلگت بلتستان میں  بھٹو نے 1974 میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون معطل کرکے ناردن ایریاز ناتوڑ رولز 1978 کے اطلاق کے ذریعے یہاں کی بنجر اراضیات کو خالصہ سرکار یعنی ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا ہے جو کہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ کیونکہ گلگت بلتستان کشمیر تنازعے کا حصہ ہے پاکستان کے 1973 کے آئین کا حصہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلے بھی موجود ہیں۔ اس خطے کو 1949 سے 1973 تک ایف سی آر جبکہ بعد میں صدارتی حکم ناموں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ آج خطے کے عوام کا بنیادی سوال ہی یہی ہے کہ گلگت بلتستان میں سکھ دور کے اصطلاح کو کس طرح آج کی انتظامی حکومت اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ بات طے ہے کہ اس خطے کی قسمت کا فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن اُس وقت تک کیلئے اقوام متحدہ کے قرارداد 13 اگست 1948 کے مطابق لوکل اتھارٹی گورنمنٹ آج تک قائم نہیں ہوئے ، گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس خطے کی ڈیموگرافی تبدیل ہونے کی خدشات پر مبنی کسی قسم کے قانون سازی کا اختیار نہیں۔ لہذا خالصہ سرکاری کی اصطلاح اُس وقت تک رہے گا جب تک اقوام متحدہ کی موجودگی میں خطے میں رائے شماری نہیں ہوتے۔ اُس وقت تک کیلئے قانون باشندہ ریاست کی معطلی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہاں اگر پاکستان اقوام متحدہ میں یہ بات لکھ کر دیں کہ ہم گلگت بلتستان کی یکم نومبر 1947 والی آذادی کو تسلیم کرتے ہوئے مسلہ کشمیر سے مکمل طور پر دستبردار ہو کر اس خطے کوقانونی طور اپنے ملک میں شامل کرتے ہیں ۔ تب ایسا ممکن ہے کہ گلگت بلتستان آئینی طور کسی صوبے کا حصہ یا صوبہ تسلیم کرکے یہاں لینڈ ریفامز کریں۔ ورنہ جو کچھ آج گلگت بلتستان میں بیورکریسی کر رہا ہے یہ مسلہ کشمیر پر ہندوستان کے موقف کی تائید اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔  وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جس طرح چاروں صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کیلئے  این ایف سی کا ادارہ  موجود ہے بلکل اسی طرح گلگت بلتستان کے وسائل کی حساب کتاب  کیلئے ادارے کی تشکیل  کو یقینی بنائیں ۔ اگر ایسا ہوا تو  سوست ڈرائی پورٹ، شاہرہ قراقرم، دریائے سندھ، کے ٹو، دیامر بھاشا ڈیم، معدنیات،جنگلات  کی رائلٹی اربوں بنتا ہے  جس سے گلگت بلتستان آج تک محروم اور گندم سبسڈی کیلئے احتجاج پر مجبور ہیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply