• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خطہ گلگت بلتستان کا صرف آدھا حصہ متنازعہ ہونے کا بیانیہ اور تاریخی حقائق۔۔شیر علی انجم

خطہ گلگت بلتستان کا صرف آدھا حصہ متنازعہ ہونے کا بیانیہ اور تاریخی حقائق۔۔شیر علی انجم

غالباً2016 کی بات ہے، جب سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کی جانب سے تقسیم گلگت بلتستان کی سازش کو استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی رہنما مولانا سمیع نے بے نقاب کیا تھا۔ اُس وقت کی اخباری خبروں کے مطابق قاری حفیظ نے اُن کو اس حوالے سے اعتماد میں لیکر سمجھانے کی کوشش کی، کہ گلگت بلتستان کے کچھ علاقے معاہدہ امرتسر میں شامل نہیں تھے۔ لہذا یہ علاقے پاکستان کا آئینی حصہ بن سکتے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد اُس وقت مختلف سیاسی رہنماؤں کے بیانات کے مطابق صرف سی پیک کے 600 کلومیٹر رقبے کو غیر متنازعہ علاقہ قرار دینا تھا۔ یہ معاملہ شدید عوامی ردِعمل کی وجہ سے شاید آگے بڑھ نہیں پایا۔

اسی طرح مارچ 2019ء میں گلگت میں کچھ گمنام افراد نے دھواں دار پریس کانفرنس کی، جسے مقامی اخبارات میں غیر یقینی طور پر  اچھی کوریج مل گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ استور اور بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا فریق سمجھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ تک متنازعہ رکھا جائے اور گلگت، غذر، نگر، ہنزہ اور دیامر پر مشتمل الگ آئینی صوبہ بنایا جائے۔ انہوں نے دلیل پیش کی کہ مغلوں اور ان سے پہلے کے حکمرانوں کے دور حکومت میں یہ علاقے کبھی بھی کشمیر کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ انگریزوں اور مہاراجہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ امرتسر دریائے سندھ کے مشرقی علاقے تک محدود تھا، اس میں گلگت سے چترال تک دریائے سندھ کے مغربی کنارے شامل نہیں تھے۔ دریائے سندھ کے مشرقی اور بائیں جانب کے علاقے استور سے بلتستان سکردو کارگل لداخ تک کشمیر اسمبلی میں نمائندگی رکھتے تھے جبکہ گلگت چلاس کوہستان عذر گوپس اشکومن یاسین چترال اور ہنزہ نگر کو کبھی بھی کشمیر اسمبلی میں نمائندگی حاصل نہیں رہی، اس لیے جب یہ علاقے کشمیر اسمبلی میں شامل ہی نہیں رہے تو پھر انہیں کشمیر کی نسبت سے متنازعہ علاقہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔

گو کہ معاہدہ امرتسر ہو یا معاہدہ کراچی، ان معاہدات میں زمینوں کے ساتھ قوموں کا سودا ہوا تھا اور جمہوری دنیا میں اس قسم کے اقدام کو کالونیل یا شاہی نظام کہتے ہیں، جہاں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو روندھ کر اشرافیہ اور طاقتور حکومت کے نام پر عوام پر مرضی کے فیصلے مسلط کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کچھ لوگ بھی جہاں عبوری صوبے کے گمراہ کن نعرے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، وہیں آجکل معاہدہ امرتسر کی بنیاد پر گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلے کرانے کے خواہاں دکھائی دے رہے ہیں، جو کہ آنے والے وقتوں میں باقاعدہ مطالبے کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ پرانے وقتوں میں جنگ کرکے فتح کردہ علاقہ جات فاتح ملک کی ملکیت بن جاتے تھے۔ یہی کچھ گلگت بلتستان کے ساتھ ہوا۔

معاہدہ امرتسر 1846ء سے کئی سال پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کرنل زور آور سنگھ نے 1840ء میں خطہ لداخ پر طاقت کے بل بولتے کی بنیاد پر قبضہ کرکے بلتستان کے بادشاہ احمد شاہ مقپون کو خاندان سمیت جلاوطن کرکے کشمیر لے گیا تھا، اُن کی اولادیں آج بھی مقبوضہ کشمیر میں آباد ہیں۔(حوالہ،تاریخ بلتستان) اسی طرح اگر ہم گلگت کی بات کریں تو گلگت میں اقتدار کیلئے جنگ و جدل، خون خرابے اور غیروں کو اقتدار کیلئے اپنی دھرتی پر دعوت ایک تلخ حقیقت ہے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ یوں تاریخ کہتی ہے کہ گلگت کے راجا کریم خان نے 1841ء کے اواخر یا  1842ء میں کشمیر دربار (سکھ دور حکومت) سے اپنا پرانا قبضہ واپس لینے کے لیے مدد طلب کی۔ سکھ حکومت کے گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کرنل سید تنھو شاہ نے ڈوگرہ فوج کے خاندانی طور پر راجپوت ہندو گلاب سنگھ آرمی میں شمولیت اختیار کی (جو بعد میں جنرل بنا)، کی سربراہی میں سکھ فوج روانہ کی۔

یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اس سے پہلے صرف استور تک سکھ دربار کا اثر و رسوخ تھا، جہاں سے سکھوں کو نذرانہ دیا جاتا تھا۔ یوں پہلی بار سکھ افواج دریائے سندھ پار کرکے اس ریجن میں داخل ہوئیں اور انھوں نے کریم خان کے ساتھ ملکر گلگت شہر پر قبضہ کیا۔ اگرچہ اقتدار پر کریم خان کی گرفت تھی، لیکن سکھ دربار کا بھی اس پر کافی اثر و رسوخ تھا۔ حوالہ:(Panikkar 1930 & Drew Frederick 1971)۔ تاریخ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کرنل نتھو شاہ گلگت آکر بس گئے اور یہاں شادی بھی کی اور آج بھی یقیناً گلگت میں اُن کی نسل کے لوگ بھی موجود ہوں گے۔ یوں یہ بات طے ہوگئی کہ معاہدہ امرتسر سے پہلے ڈوگروں نے گلگت اور لداخ کے زذیادہ تر علاقوں پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر ہنزہ، نگر اور چترال کے علاقوں پر قبضہ کرنے میں ڈوگروں کی مدد کی۔

قبضے کی جنگ میں گلگت کے کئی علاقے چلاس سمیت لڑائی میں بھی شامل تھے، جس میں برطانوی فوج کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اس جنگ میں برطانیہ کے سب سے بڑے تین فوجی اعزاز ملٹری کراس بھی دیئے گئے۔ یہ اس علاقے کی دفاعی اہمیت کا تقاضا تھا کہ انگریزوں نے 1935ء میں مہاراجہ کشمیر سے دوبارہ ساٹھ سال کے لئے پٹے پر حاصل کرکے گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر(پونیال، گوپس، یاسین اور اشکومن) کے علاقے کو برٹش انڈیا کے ساتھ ملاکر اپنے پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے دہلی کے ماتحت کر دیا۔

معاہدہ 1935ء کیا ہے؟ عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرنل بیکن گلگت ایجنسی میں تاج برطانیہ کا آخری پولٹیکل ایجنٹ تھا۔ اس سے پہلے بلتستان لداخ وزارت کا حصہ تھے اور براہ راست کشمیر دربار کے زیر کنٹرول تھے۔ معاہدہ 1935ء کے آرٹیکل 1 کے تحت گورنر جنرل آف انڈیا نے گلگت ایجنسی میں سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قائم کرنے کا اختیار حاصل کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ علاقے بدستور مہاراجہ کے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہے گا اور مہاراجہ جموں و کشمیر کی ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا رہے گا۔ اُس معاہدے کے آرٹیکل 5 کے تحت یہ ایگرمنٹ 60 سال تک نافذالعمل تھا، جبکہ آرٹیکل 4 کے تحت مائننگ کے تمام اختیارات مہا راجہ کشمیر کو ہی حاصل تھے۔

یوں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکم نومبر 1947ء کی جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت بلتستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں مہا راجہ ہری سنگھ کو جوابدہ اور ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھیں۔ لیکن یکم اگست 1947ء کو گلگت ایجنسی کے آخری پولٹیکل ایجنٹ کرنل بیکن نے گلگت ایجنسی وقت سے پہلے مہاراجہ کشمیر کو واپس کردی اور گلگت ایجنسی سے برطانیہ کا جھنڈا سرنگوں کرکے کشمیر دربار کا جھنڈا لہرا دیا۔ یوں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنا بھانجا برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو بطور گورنر گلگت (جسے دوبارہ وزارت لداخ میں شامل کر دیا اور بلتستان پہلے ہی وزارت لداخ کا ہی حصہ تھے) مقرر کرکے نیا نام شمالی علاقہ جات سرحدی صوبہ رکھ دیا گیا اور یہی نام UNCIP میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس صوبے کا نام گلگت بلتستان لداخ صوبہ یا بلور بھی کہتے رہے ہیں اور اس صوبے کا ٹوٹل رقبہ 63500 مربع میل ہے اور ریاست جموں و کشمیر 75 فیصد رقبہ گلگت بلتستان لداخ کہلاتے ہیں۔

کرنل گھسنارا سنگھ یکم نومبر 1947ء کو انقلاب گلگت کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور اُن کا جھنڈا بھی سرنگوں کرکے کرنل حسن خان کی ٹیم نے جمہوریہ گلگت کا پرچم لہرایا، لیکن 16 نومبر کو آزاد کردہ علاقہ جات کو باقاعدہ ٹیبل ٹاک کے ذریعے پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے ایک تحصیلدار کو پولٹیکل ایجنٹ کے ماتحت کر دیا اور اُس نے ان علاقوں میں ایف سی آر نافذ کرکے ایک طرح اُس وقت کے صوبہ سرحد میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ یوں جب مسئلہ کشمیر وجود میں آیا تو اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان کی ریاست جموں کشمیر کی ایک الگ اکائی کے طور پر جداگانہ حیثیت کو بھی پاکستان اور ہندوستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد 13 اگست 1948ء میں قبول کیا ہوا ہے۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کی انقلابی حکومت مظفر آباد اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے نام سے مشہور ہے، اس میں بھی گلگت بلتستان کو ریاست کی اکائی کے طور پر پاکستان کو انتظام سنبھالنے کا اختیار ملا، جو آج تک برقرار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مزید براں کراچی ملٹری ایگریمنٹ 27 جولائی 1949ء کے مطابق بھی گلگت بلتستان کو قانونی اور آئینی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ کے مندوبین کی موجودگی جو نقشہ جاری کیا تھا، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان کے پاکستان ہندوستان چین اور افغانستان کے ساتھ انٹرنیشنل سرحدوں کے ساتھ عبوری سیز فائر لائن بھی طے ہونے کے ساتھ اقوام متحدہ اس معاہدے کا ضامن ہے، پاکستان اور ہندوستان دستخط کنندہ ہیں۔ لہذا گلگت بلتستان میں جو بھی لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، یہ لوگ دراصل تاریخ سے لاعلم لوگ ہیں، جنہوں نے مسئلہ کشمیر اور اس خطے کی تاریخ کبھی پڑھی ہی نہیں ہوگی، جبھی تو اس قسم کی غیر منطقی لاجک پیش کرکے سادہ لوح عوام کو بیوقف بنا کر اپنے لئے مراعات مفادات کے راستے بناتے ہیں۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں حقوق دیکر اس خطے کی چھہتر سالہ محرمیوں کا ازالہ کریں۔

Facebook Comments