ڈپریشن/امجد خان محسود

دباؤ بعض لوگوں کے نذدیک یہ ایک کیفیت کا نام ہے اور بہت سے لوگوں اور ماہرِ نفسیات کے مطابق یہ ایک بیماری ہے۔ دراصل اس میں ہوتا یہ ہے کہ ڈپریشن کے متاثرہ شخص کےذہن پر پریشانیوں کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معمولات کو صحیح طریقے پر انجام دینے قابل نہیں رہتا ۔گویا زہنی دباؤ سے اس کا زہن اس قدر متاثر ہوجاتا ہے کہ وہ کسی ایک کام پر یکسوئی کے قابل نہیں رہتا۔
آج کل کی جدید شہری زندگی کی جہاں بہت سی سہولتیں ہیں اور برکتیں ہیں وہاں ہر وقت ایک ایسے عذاب سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے جسے مہذّب اصلاح میں ” ڈپریشن یا ذہنی دباؤ” کہا جاتا ہے۔ڈپریشن کسی بھی سطح کا اور کسی بھی ممکنہ وجہ سے ہوسکتا ہے اور بڑے شہروں کا کوئی بھی شہری یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ وہ ڈپریشن کے آثرات سے بالکل آزاد ہے البتہ ذرا سی توجّہ اور کوشش سے اس بیماری پر قابو ضرور پایا جاسکتا ہے۔
ذہن کی یہ کیفیت کیوں ہوتی ہے اس کا پسِ منظر کیا ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں
دیکھیں! یہ دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں ہمیں خوشیاں اور غم دونوں فراہم کرتی ہے۔ہماری اس زندگی میں خوشیاں تو ہیں لیکن ساتھ ہی مشکلات ، مسائل ، پریشانیاں اورغم بھی زندگی کا حصہ ہیں۔دنیا میں کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے غم نہیں ہے۔کسی کے پاس دولت کے انبھار ہیں دولت کی کمی نہیں، تو کسی کے پاس دولت کی کمی کا دکھ ہے ، کسی کے پاس اولاد نہ ہونے کاغم ہ تو کسی کو اولاد کی ذیادتی نے پریشان کررکھا ہے۔کسی کی شادی نہیں ہورہی ہے تو کوئی ازدواجی مسائل کی وجہ سے متفّکر نظر آتا ہے۔کسی کو خدا نے دولت سے نوازا ہے مگر ایک ایسی بیماری بھی دے دی ہے جس کا علاج ممکن نہیں ۔غرض یہ کہ دنیا کا ہر فرد کسی نہ کسی پریشانی اور مسئلے سے دوچار ہے۔دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ ا ن مسائل اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کی قدرت نے ہر فرد میں ایک خاص استعداد پیدا کی ہے ۔آپ نے زندگی میں مشاہدہ کیا ہوگا کہ مختلف طبیعتوں کے لوگ ہیں۔ایک شخص پر مشکلات اور تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ مسکراتا رہتا ہے۔
لیکن آپ کے آس پاس ہی ایک دوسرا فرد ہے جو تھوڑے سے مسائل سے گھبرا کر پریشان ہوجاتا ہے۔ذرا سا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور وہ نروس نظر آنے لگتا ہے۔ان پریشانیوں کے ہمارے جسم پر آثرات پڑتے ہیں اور سب سے پہلے ہمارےجسم کا جو حصہ متاثر ہوتاہے وہ دماغ ہے۔اس پریشانی کے بارے میں فوراً ہمارا دماغ سیکرونائزڈ فائرنگ شروع کردیتا ہے اور ہم سوچتے ہیں ۔جب تک وہ پریشانی رہتی ہے ہمارا زہن اس کے بارے میں مستقل سوچتا رہتا ہے۔خیالات ہمارے دماغ کو اپنی آماجگاہ بنالیتے ہیں اور اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اور کوئی بھی کام کرتے وقت ہم مستقل اس مسئلے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔

جب پریشانیاں ذہن پر مسلط ہو تو انسان اپنے روزمرہ امور پر پوری توجہ نہیں دےپاتا۔اکثر دیکھا ہوگا کہ جب آپ کا زہن کسی ایک طرف سوچ رہاہو اور کوئی شخص آپ سے کوئی بات کریں تو آپ اس کی بات سن ہی نہیں پاتے اور پھر اس جملے پر چونکتے ہیں ہیں” کہاں کھوگئے بھئ”یہی وجہ ہے کہ جب کسی شخص کا ذہن مسائل میں گھرا ہوتا ہے تو پھروہ اپنے روزمرہ کے کام نارمل طریقے سے کیسے انجام دے سکتا ہے۔یہی ڈپریشن کی ابتدائی  علامات ہوتی ہیں۔اس موقع پر بعض لوگ ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ مسائل سے مقابلہ کرنے کے بجائے ان سے فرار کے حربے تلاش کرناشروع کردیتے ہیں۔کچھ لوگ چڑچڑے اور بدمزاج ہوجاتے ہیں اور بات بات پر لوگوں سے لڑنے اور الجھنے لگتے ہیں۔سیدھے منہ بات نہیں کرتے اور لوگ انہیں بدتمیز اور ان سے دو بھاگنے لگتے ہیں۔

نروس بریک ڈاؤن
ڈیپریشن سے نظام ہاضمہ بھی بُری طرح متاثرہوتا ہے اور دن بدن بگڑتا چلاجاتا ہے دل زور زور سے دھڑکنےلگتا ہے۔قوتِ فیصلہ انتہائی کمزور یا بلکہ تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔اس میں نسیان یعنی بھول کی شکایت پیدا ہوجاتی ہےاور بعض اوقات تو وہ اپنوں کو پہچاننے سے بھی انکار کردیتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ وہ بستر سےلگ جاتا ہے اور اُٹھنے بیٹھنےکےقابل نہیں رہتا۔اس انتہائ کیفیت کو نروس بریک ڈاؤن (Nervous Break Down) کہا جاتا ہے۔یہ ذہنی دباؤ اور انتشار کی انتہائ کیفیت کا نام ہے۔

اس حالت میں مریض کی بھوک اور نیند بالکل اُڑجاتی ہے ۔بھوک ختم ہونےکے باعث اسکا وزن تیزی سے گھٹتا چلاجاتا ہے اور وہ دن بدن لاغر ہوتا چلاجاتا ہے۔اس کیفیت میں بعض کو قبض کی کیفیت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔نروس بریک ڈاون کا مریض نہ صرف رات بلکہ دن میں بھی نہیں سوکتا۔نیند غائب ہونے سے سب سے پہلے سر کے اندرونی اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے اور بھاری رہتی ہے۔

علاج :
آئیے اب دیکھیں کہ اس بیماری یعنی ڈپریشن کا کیا علاج ہوسکتا ہےسب سے پہلے تو میں عرض کرتا چلوں کہ میں کوئیی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات نہیں ہوں کہ اسکا علاج تجویز کردوں۔ماشاءاللہ ہمارے ملک اور ساری دنیا میں جدید علمِ نفسیات کے ماہرین(Psychiatrists) موجود ہیں جو سائنسی طریقوں سے ایسے مریضوں کا اعلاج بخوبی علاج کرنا جانتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ایک مریض نروس بریک ڈاؤن کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے تو اسے لامحالہ ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑے گا۔
لیکن ڈپریشن کی ابتدائی کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ متاثر شخص خود اپنا علاج کرسکتا ہے اور اس مرض کووہ کنٹرول کرسکتا ہے۔یہ کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ ابتدائ علامات ظاہر ہوتے ہی آپ ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔یاد رکھیں کہ اس مرض کی ابتدا پریشانیوں سے ہوتی ہے اورپریشانیوں ہم کو ایسے طریقے معلوم ہونے چائیں کہ خود ہی ڈپریشن پر قابو پاسکیں۔
ضرورت اس بات کہ ہم اپنے اندر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت ، ہمت اور حوصلہ پیدا کریں۔

اس سلسلے میں چند گزارشات ہیں۔
1.سب سے پہلے اپنے ذہن کی تربیت کریں۔
آپنے آپکو یہ بتانا اور دماغ میں بٹھانا ضروری ہے کہ زندگی خوشی اور غم دونوں کا مجموعہ ہے۔کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کوئی خوشی نصیب نہیں اور اس طرح کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ہر غم سے مبرا ہے۔ہم سب اللہ تعالیٰ کے ایک امتحان سے گزررہے ہیں کسی کے پاس دولت کی کمی ہے تو کسی کے پاس اس کی فراوانی ، کوئی بے اولاد ہے توکوئی بیمار ۔غرض یہ کہ ہم دب خدا کے امتحان سے گزرہے ہیں ۔جو ان خوشیوں پر خداکا شکر ادا کرتا ہے اور جو آن غموں کا مقابلہ جوانمردی سے کرتا ہےاور صبر واستقلال سے کام لیتا ہے وہی اس زندگی کے امتحان میں کامیاب ہے۔
2.جب کوئی خوشی نصیب ہوتوخوشی سے پاگل نہ ہوجائیں بلکہ اس پر خدا کا شکر ادا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

3.جب کسی غم کا سامنا پڑے تو یہ کہ یہ تو ہونا ہی تھا اور ہونے والی بات تھی۔ہر ہونے والی بات ہوکر رہتی ہے اور اسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔اکثر پریشانی اتنی مضر نہیں ہوتی جتنا ہمارا دماغ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان رہتا ہے۔ناکامی کا احساس زہنی دباؤ کا باعث ہے۔حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ اس قدر پڏمردہ ہوجاتے ہیں کہ ان میں جینے کا حوصلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔
4.کسی بھی مصیبت کے لئے اپنے ذہن کو تیار کریں کہ اس کے انتہائی  مضر آثرات کیا ہوسکتے ہیں اور پھر اپنے دل اور دماغ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں۔
5.مصیبت کے بارے میں یہ سوچیں کہ کوئی بھی مشکل وقت  زیادہ عرصہ نہیں چلتا۔وقت سب سے اہم ہے۔یہ گزرجاتا ہے اور بعض دفعہ تو انسان اپنے ماضی کے واقعات و حالات کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگتا ہے۔زندگی کے خوشگوار پہلوؤں پر نظر رکھیں اور منفی پہلوؤں کو نظر انداز کریں۔
6.انسان کے بیشتر مسائل ضرورت سے ذیادہ سوچنے سے پیدا ہوتے ہیں ۔ماضی کے گزرے ہوئے واقعات پر افسوس کرنے اور مستقبل میں آنے والے خطرات سے خوفزدہ رہنے والے لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ماضی اور مستقبل کو بھول کر اپنے حال کی فکر کریں۔صرف یہ سوچیں کہ مجھے آج کیا کرنا ہے۔کہیں آج کا دن بے کار کاموں میں ضائع تو نہیں ہورہا۔پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے مسائل خود بخود کم ہورہے ہیں۔
7.اپنے آپکو مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ایسے افراد جو خالی بیٹھے رہتے ہیں سوچیں بہت جلد انہیں اپنے نرغے میں لے لیتی ہیں اور سوچیں کا مطلبب ذہنی پریشانیاں اور دباؤ کا آغاز۔
۱۔مطالعہ ایک بہت اچھی مصروفیت ہے۔
۲۔صاف ستھری اور مثبت سوچیں پیدا کرنے والے کتاب کا مطالعہ کریں۔
۳۔بڑے اور کامیاب لوگوں کی زندگی کے حالات پڑھیں۔
اس سے نہ صرف آپ کے دماغ بٹا رہے گا بلکہ آپکو زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرکے اگے بڑھنے کا حوصلہ بھی گا۔
8.کام اور محنت کے ساتھ سیروتفریح زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ہفتے میں چند گھنٹے ایسے ضرور نکالیں کہ اپنی مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر شہر سے دور کسی تفریحی مقام کو سیر کو ضرور جائیں۔
ایسے میں کھلی فضاء، صحت افزاء مقام سمندر یا دریا کی سیر اور چھوٹی موٹی پکنک کا اہتمام کریں آپ کے جسم پر اچھے آثرات مرتب کرے گا اور آپ کے اوپر زہنی دباؤ خودبخود کم ہوجائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply