یادگارِ نکلسن ٹیکسلا/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

Nicholson’s Monument
(Column+room)
جی ٹی روڈ پہ راول پنڈی و اسلام آباد سے ٹیکسلا کی طرف جائیں تو قریباً بیس کلومیٹر بعد بائیں ہاتھ پہ ایک بلند مینار نظر آئے گا جس کی تاریخ اور نام کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہاں تک کہ سیاح حضرات بھی۔
مارگلہ پاس کے چبوترے پہ بنا یہ مینار، یادگارِ نکلسن (جسے نکلسن کالم بھی کہا جاتا ہے) ہے جو اس خطے میں نوآبادیاتی دور کی اہم یادگار ہے۔
اسی کے سامنے جرنیلی سڑک کا وہ قدیم پتھریلا راستہ گزرتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شیر شاہ سوری کا بنوایا اصل راستہ ہے۔
یہیں سڑک کی دوسری طرف جنگلے میں قید یونانی طرز کی ایک اور یاد گار ہے جو ”نکلنسن روم“ کہلاتی ہے۔

11 دسمبر 1822 کو آئرلینڈ کے شہر لزبرن میں پیدا ہونے والا جان نکلسن، رائل سکول ڈنگینن میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1839 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ شومئی قسمت کے بھرتی ہونے کے بعد ہی پہلی اینگلو افغان جنگ چھڑ گئی جس میں نکلسن نے بطور لیفٹیننٹ حصہ لیا۔
جنگ میں اُس نے یقیناً کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو گا تبھی، برطانیہ سرکار نے اسے کشمیر میں پولیٹیکل آفیسر اور پھر سندھ کے علاقے سانگھڑ میں کمشنر بنا کے بھیج دیا۔
1845 میں شروع ہونے والی پہلی اینگلو سکھ جنگ میں مارگلہ پاس کے مقام پر سکھوں سے یہ پہاڑی چھیننے پر (جس پر لگی روشنیاں رات کو مسافروں کی رہنمائی کرتی تھیں) جنرل نکلسن زخمی ہو گیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں اس کی یادگار بنائی گئی ہے۔
ٹھیک ہونے کے بعد موصوف نے دوسری اینگلو سکھ جنگ میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔
نکلسن کو پھر 1852 سے 1854 تک بنوں (خیبر پختونخواہ) کا ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا جہاں قانون کی حکمرانی کے لیئے اس نے کئی لاشیں گرائیں۔ 1855 میں چونتیس سالہ نکلسن کو بنگال آرمی کا سب سے کم عمر بریگیڈیٸر جنرل بنا دیا گیا۔
1856 میں اسے پشاور کے ضلعی کمشنر کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا جہاں سے وہ جنگ آزادی کے لیٸے اپنے فوجی لے کر نکلا تھا۔

جنگِ آزادی میں نکلسن کو اس کے ظالمانہ کردار اور منصوبہ بندی کی وجہ سے امگریز سرکار نے “دہلی کے ہیرو” کا لقب دیا تھا۔ اس جنگ میں نکلسن نے کئی ہندوستانیوں کا قتل کیا۔
ستمبر کو نکلسن کشمیری دروازے سے دہلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک مجاہد کالے خان کی گولی سے زخمی ہو گیا۔
ساتھی فوجی اس کو أٹھا کر پہاڑی پر انگریزی فوج کے کیمپ میں لے گئے جہاں 23 ستمبر 1857 کو بریگیڈیٸر جنرل جان نکلسن 35 سال کی عمر میں مر گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعد ازاں 1868 میں مارگلہ کے اس مقام پر نکلسن کی یاد میں یہ یادگاری مینار، ایک فوارہ و حوض، ایک کمرہ اور ساتھ ہی ایک باغ بنوایا گیا۔
یادگار کی بات کریں تو سڑک سے گھوم کہ دوسری جانب اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کئی سیڑھیاں چڑھ کہ جب آپ اس تک پہنچیں گے تو ہوا کے ساتھ ساتھ آپ کو جی ٹی روڈ کا ایک شاندار نظارہ ملے گا۔ یہ گرینائٹ سے بنا ایک عام سا مینار ہے جس کے ایک جانب بنیادی حصے میں جانے کو آہنی زینہ موجود ہے۔
پہاڑی کی بنیاد پر ایک چھوٹا یادگاری چشمہ بھی ہے جس پر یادگاری مینار کھڑا ہے۔
پتھریلے راستے سے نیچے اتریں تو جرنیلی سڑک کے دوسری جانب ایک چار دیواری میں یونانی طرز تعمیر کی ایک اور یادگار موجود ہے۔ دو چھوٹے کمروں پر مشتمل یہ خوبصورت یادگار یونانی طرز کی محرابوں اور ستونوں سے بنی ہے جو مجھے ایتھنز کے ایکروپولس کی یاد دلاتی ہے۔
نکلسن کی دیگر یادگاریں لزبرن اور ڈنگینن (جسے آزادی کے بعد دہلی سے یہاں منتقل کیا گیا تھا)میں بھی موجود ہیں۔
ٹیکسلا یا حسن ابدال جانا ہو تو اس جگہ کو ضرور وزٹ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply