مرزا کی دوستی” ہزار جزیرے” اور ادھوری محبت….. ڈاکٹر خالد سہیل

میرے مزاح نگار دوست مرزا یاسین بیگ نے بڑی محبت اور اپنائیت سے میری سترھویں سالگرہ پر مجھے ایک نارنجی رنگ کا کرتہ تحفے میں دیا۔ میں نےتصویر اتروا کر دوستوں کو بھیجی تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا میں نے جوگی بننے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اور میں سوچنے لگا کہ نجانے کتنی دخترانِ خوش گل اپنے دل کے نہاں خانوں میں یہ گنگناتی رہتی ہیں

؎ میں جاناں ہے جوگی دے نال

کسی دختر خوش گل کی بجائے جب مرزا نے میرے ساتھ سفر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نےان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ سفر کر کے گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں

وہ کیسے؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا

میں نے کہا آپ مسکراہٹوں اور قہقہوں کے عادی ایک خوش مزاج انسان ہیں اور میں فلسفیانہ موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے والا ایک سنجیدہ انسان۔ میں تو سفر کے دوران آپ کی باتوں سے خوب محظوظ ہوتا رہوں ہوں گا لیکن کہیں آپ میری سنجیدہ گفتگو سے بور نہ ہو جائیں۔ آپ کو کینیڈا کے مقبول مزاح نگار احمد رضوان یا سید حسین حیدر کے ساتھ سفر کرنا چاہیے تا کہ آپ دونوں ایک دوسرے کو محظوظ کر سکیں اور قہقہوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔

مرزا کہنے لگے کہ وہ میری باتوں سے کبھی بور نہیں ہوئے۔

مرزا کے اصرار نے میرے انکار کر اقرار میں بدل دیا اور میں اس شرط پر راضی ہو گیا کہ

TRAVEL AT YOUR OWN RISK

میں نے کہا میں آپ کو سفر سے پہلے ہی وارننگ دے رہا ہوں۔

مرزا نے مسکراتے ہوئے وہ شرط قبول کر لی۔

ہم HUMANISTکار پلیٹ والی شوخ رنگ سرخ گاڑی میں بیٹھ کر کینیڈا کی سب سے لمبی شاہراہ HIGHWAY 401پر چل پڑے۔ میں نے راستے میں عابدہ پروین اور نیرہ نور کی غزلیں لگائیں تا کہ پیش منظر میں نہ سہی کم از کم پس منظر میں مرزا کی دلچسپی کا سامان موجود رہے۔

میں نےمرزا کومشورہ دیا کہ ہم راستے میں BIG APPLEکے پاس رکیں تا کہ میں مرزا کو بچوں کا پارک دکھا سکوں۔ مرزا راضی ہو گئے۔

بگ ایپل کے پارک میں ہم نے بچوں کا چڑیا گھر دیکھا اور آئس کریم خریدی ’ بگ ایپل کے ساتھ تصویریں کھینچیں اور پھر آئس کریم کھاتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ہم نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ زندگی کی رعنائیوں سے پوری طرح محظوظ ہوتے ہیں اور بعض ساری عمر شکوہ و شکایت کرتے گزار دیتے ہیں۔ بقول احمد فراز

؎  رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے

              ورنہ اتنا ہمیں ملال نہیں

جب مرزا نے مجھے بتایاکہ انہیں نوجوانی سے مزاح پڑھنے سننے اور لکھنے اور مزاحیہ فلمیں دیکھنے کا شوق تھا تو میں نے کہا کہ تحلیل نفسی کے باوا آدم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا خیال ہے کہ ذہنی طور پر صحتمند اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے مزاح ایک عمدہ حفاظتی تدبیر ہے۔ جو شخص زندگی کی کج ادائیوں اور بے وفائیوں اور اپنی برائیوں پر ہنس سکتا ہے وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ مرزا نے یہ ادبی خبر بھی سنائی کہ وہ اپنے مزاحیہ مضامین اور خاکوں کا  تیسرا مجموعہ تیار کر رہے ہیں اور اس کا نام۔۔۔۔قرض ہنسنا۔۔۔۔ہوگا۔ میں نے کہا میں آپ کے مزاح کا سنجیدہ مداح ہوں اور نئی کتاب کا شدت سے انتظار کروں گا۔

ہم بگ ایپل پارک سے محظوظ ہونے کے بعد پھر شاہراہ پر آ گئے اور کنگسٹن کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں “گینانوکوے” GANANOQUE جس کی آبادی صرف چند ہزار ہے پہنچ گئے اور اپنا ہوٹل COMFORT INNتلاش کرنے لگے جو سینٹ لارنس دریا سے صرف دو منٹ کے فاصلے پر تھا۔

راستے میں گانے اور غزلیں سننے کے ساتھ ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو ادبی’نیم ادبی اور غیر ادبی لطیفے بھی سنائے۔

ہوٹل کے کمرہ نمبر ایک سو سترہ میں رات دیر تک مرزا انٹرنیٹ پر پاکستانی سیاست کی  بیہودگیوں ’ کج ادائیوں اور سیاسی بے وفائیوں کو پڑھ پڑھ  کر ہنستے اور قہقہے لگاتے رہے اور میں جیمز جینز کی مشہور کتاب THE MYSTERIOUS UNIVERSEپڑھ کر کائنات کے اسرار و رموز پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیوں نہ اردو میں ایک ایسی کتاب لکھوں جس میں جدید دور کی جدید تحقیق کا خلاصہ پیش کروں تا کہ اردو کے قارئین جان سکیں کہ پچھلی دو صدیوں میں بشریات و نفسیات اور سماجیات و افلاکیات کے علوم میں کس کس نے گرانقدر اضافے کیے ہیں۔

اگلے دن ہم اس جہاز پر پہنچے جس نے ہمیں ایک ہزار جزیروں کی تین گھنٹے کی سیر کروانی تھی۔ایک ہزار جزیروں کی ایک ہزار کہانیاں تھیں۔

ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جو ہارٹ آئی لینڈ کہلاتا ہے کیونکہ اس جزیرے پر ایک ٹوٹے ہوئے دل کی ادھوری محبت کی کہانی ایک دیدہ زیب بلڈنگ کی صورت میں رقم ہے۔ ایک عاشق نے اپنی محبوبہ کے لیے ایک شاندار عمارت بنانے کی کوشش کی تھی جیسے کسی چاہنے والے نے ہندوستان میں محبت بھرا تاج محل بنایا تھا جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی نے کہا تھا

؎ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق

 امریکہ کے عاشق کا تاج محل ابھی آدھا ہی بنا تھا کہ اس کی محبوبہ فوت ہو گئی اور وہ اتنا بددل ہوا کہ محل کی تعمیر روک دی گئی۔

کئی سالوں کے بعد تھاؤزینڈ آئی لینڈ کے اصحاب بست و کشاد نے اس کی تعمیر کی ذمہ داری لی تا کہ زیادہ سے زیادہ ٹورسٹ  اس کی سیر کر سکیں اور محبت کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کر سکیں۔

ویسے تو یہاں بہت سے جزیروں کی بہت سی کہانیاں دلچسپ ہیں لیکن ایک جزیرہ مجھے بہت پسند ہے کیونکہ وہ آدھا امریکہ میں ہے اور آدھا کینیڈا میں ہے۔ ان دونوں حصوں کو ایک پل ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔

اس جزیرے پر ایک شادی شدہ جوڑا برسوں سے مقیم ہے۔ اس جوڑے کی جب لڑائی ہوتی ہے اور بیگم غصے میں شوہرکو گھر سے نکلنے کو کہتی  ہے تو وہ صرف گھر سے ہی نہیں ملک سے بھی نکل جاتا ہے۔ لیکن جب بیوی کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ اسے منانے آ جاتی ہے۔

شوہر کہتا ہے کہ بیوی نے طلاق دینے کی دھمکی تو کئی بار دی ہے لیکن کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔  یہ واقعہ سن کر مجھے جمال زبیری کا مذاحیہ شعر یاد آ گیا

؎ میری بیوی کہہ رہی ہے کہ طلاق مجھ سے لے گی

                                  ‘میں خوشی سے مر نہ جاتا اگر اعتبار ہوتا’

ہزار جزیروں کی سیر کے دوران جہاز کے کپتان نے ایک ڈوکومنٹری فلم بھی دکھائی جس میں ان جزیروں کا پس منظر بھی دکھایا اور ان جہازوں کی کہانی بھی سنائی جو طوفانوں یا کپتانوں کی کم علمی یا کم تجربہ کاری کی وجہ سے زیر آب آ گئے۔

وہ فلم دیکھتے ہوئے مجھے ایک شعر یاد آیا

؎ اس قدر بوجھ تھا گناہوں کا

                     حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا۔

جہاز کے تین گھنٹوں کے سفر کے دوران ہماری لمبی لمبی سیٹوں پر ہمارے ساتھ تین مشرقی جوڑے بھی بیٹھے تھے۔ وہ کسی ایسی ہندوستانی زبان میں گفتگو کر رہے تھے جس سے میں نابلد تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ مرد تو خوش گپیوں میں مصروف تھے لیکن ان کی بیگمات بت بنی ساکت بیٹھی تھیں۔ میں نے سوچا عورتیں بیچاری ویسے ہی بدنام ہیں کہ وہ باتیں بہت کرتی ہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو بیویاں بن چکی ہیں اور اب وہ اپنے شوہروں کے سامنے منہ کھولتے گھبراتی ہیں کیونکہ وہ اگر سچ بولیں گی تو وہ کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔

مرزا کے ساتھ ہزار جزیروں کی سیر کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مجھے مشرق اور مغرب دونوں ثقافتوں میں زندگی گزارنے اور ان کی اعلیٰ روایات کو اپنی زندگی اور شخصیت میں جذب کرنے کا موقع ملا ہے۔

مشرق میں دو مردوں کی دوستی اور مغرب میں ایک مرد اور ایک عورت کی دوستی کا رواج ہے۔ اس لیے جب میں کینیڈا کی کسی محفل میں جاتا ہوں تو مشرقی مرد اور مغربی عورت سے گلے ملتا ہوں اور مشرقی عورت اور مغربی مرد سے ہاتھ ملاتا ہوں۔ایک مشرقی عورت نے یہ کہہ کر ہاتھ ملانے سے بھی انکار کر دیا کہ آپ نامحرم ہیں اور نامحرم سے ہاتھ ملانا گناہ ہے ۔ یہ  علیحدہ بات کہ چند منٹوں کے بعد وہ میرے ساتھ تصویر اتروانا چاتی تھیں۔

ناشتے کی میز پر مرزا نے مجھے عامر لیاقت کی مختصر سوانح عمری سنائی اور اپنی رائے دی کہ اسے ایک ماہر نفسیات کی ضرورت تھی۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ صرف عامر لیاقت کو ہی نہیں نجانے کتنے ادیبوں شاعروں فنکاروں اور دانشوروں کو ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی تو ہے لیکن وہ اس ضرورت کو عمر بھر قبول نہیں کرتے۔  وہ اپنے آپ کو اتنا معزز معتبر اور محترم سمجھتے ہیں جیسے وہ عقل کل ہوں۔۔۔بقول رفیق سلطان ایسے لوگ “میں علیہ السلام”  ہوتے ہیں۔

واپسی پر میں نے مرزا کا تعارف اپنے شاعر اور دانشور دوست مظفر عباس کے والد علی عباس زیدی کی غزلوں کی البم “گل مہر”سے کروایا ۔اس البم میں شمائلہ رحمت نے بڑے اہتمام سے  علی عباس زیدی کی غزلوں کو گا کر اس کے حسن اور معنویت کو دوبالا کر دیا ہے۔

؎ بات کو بڑھنے نہ دو حد ادب رہنے دو

بعض الفاظ کو تشریح طلب رہنے دو

مرزا اور میرے درمیان کچھ ایسے موضوعات پر ایسی باتیں بھی ہوئیں جو ہم دونوں کے درمیان ہی رہیں تو بہتر ہے ورنہ مجھے اپنی والدہ کی یاد آ جائے گی جو فرماتی تھیں

‘ سہیل بیٹا جو باتیں چھپانے کی ہوتی ہیں وہ آپ چھاپ دیتے ہیں’۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ رائے تو اس دلچسپ سفر کے بارے میں میری رائے ہے ہو سکتا ہے یہ ڈائری پڑھ کر مرزا یاسین بیگ اس سے کہیں زیادہ دلچسپ روداد لکھیں کیونکہ وہ اردو زبان سے مجھ سے کہیں زیادہ اپنائیت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ اردو زبان جو ان کی مادری زبان اور میری محبوبہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply