روداد ِسفر حصہ 34 /شاکر ظہیر

چائنا قیام کے دوران جس موضوع پر کسی سے بات کرنا تقریبآ ناممکن شمار کیا جاتا ہے وہ ہے سنکیانگ ۔ لیکن میرا مسئلہ یہ تھا کہ مجھے جہاں بھی اس علاقے کے مسلمان ملتے چاہے وہ ایغور ہوں یا ہوئی ( Hui ) نسل کے ان کے چہروں پر عجیب سے خوف کے تاثرات ہوتے تھے ۔ وہ بہت احتیاط سے آپ سے بات کریں گے اور پھر خاص کر ایغور جو ترک نسل کے مسلمان ہیں ، تو بہت ہی اچاٹ سی طبیعت کے مالک ، ذرا سی بات پر ردعمل ایسا ہوتا جیسے ان کےلیے موت زندگی سے زیادہ آسان ہو ۔ آپ بات کچھ کر رہے ہوں گے اور کیا پتہ سامنے والا اس سے کیا معنی اخذ کر رہا ہو ۔ اس کے علاؤہ وہاں رہنے والے مسلمان ایغور ، ہوئی ( Hui ) ، قازق بھی ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ بھی نہیں رکھتے ۔ بلکہ سارے بس اپنی کمیونٹی تک محدود رہتے ہیں ۔

اس موضوع پر آپ سے کیا وہ ایک دوسرے سے بھی بات نہیں کر سکتے کہ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا ۔ وہاں کے مسلمان بھی شاید ہی اس موضوع پر آپس میں بات کرتے ہوں کیا پتہ سامنے والا اس کی باتوں سے کیا نتیجہ اخذ کر لے ۔ پھر وہاں رہنے والے چائنیز سے بھی اس موضوع پر بات کرنا اپنی شامت کو آواز دینے کے مترادف ہے کہ کیا پتہ وہ اس پوچھنے سے کیا مطلب نکالے ۔ شاید میں نے ایک ہی دفعہ کاشغر ائیرپورٹ سے واپس پاکستان کی فلائٹ لی ، وہاں کا عملہ شاید چائنا کا دنیا کے سامنے پیش کرنے کےلیے اخلاق و تہذیب کی پستی کی انتہا ۔ ائیرپورٹ کے عملے کا رویہ ایسا جیسے آپ شاید مجرم ہیں کہ آپ سے یہ اپنی تفتیش مکمل کر کے آپ کو دوسرے ملک کے حوالے کر رہے ہیں ۔ امیگریشن کلیر کرنے کے بعد بھی جب ویٹنگ لاونج میں بیٹھے تو دوبارہ امیگریشن کے عملہ کا کوئی فرد آپ کے پاس آپ کا پاسپورٹ اور ہینڈ کیری چیک کرنے آ جائے گا اور آپ سے ایسے سوال و جواب کرے گا جیسے آپ چائنا کا ایٹم بم کا حکیمی نسخہ چوری کرکے لے جا رہے ہوں ۔ شاید چائنا کے اس ائیرپورٹ پر انتہائی بدتہذیب عملے کو تعینات کیا جاتا ہے کہ ایسا میں نے چائنا کے کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھا ۔ اس کی وجہ مجھے بھی معلوم نہیں کیونکہ میرا قیام سنکیانگ میں ایک دو دن سے زیادہ کبھی نہیں رہا ۔ جو دو تین دن قیام رہا بھی وہ بھی میرے لیے ایک ذہنی ٹارچر ہی تھا ۔ مشکوک سا شہر ، مشکوک سے لوگ ، مشکوک سڑکیں اور مشکوک سی آپ کو دیکھنے والی نظریں اور کسی سے کوئی بات کرتے ہوئے آپ مشکوک ۔

یعنی یہ چائنا کے اندر انتہائی حساس موضوع ہے ۔ پھر ایک دفعہ میں واپس پاکستان آ رہا تھا کہ ارومچی سے پاکستان کی فلائٹ پر ایک بوڑھے شخص نے امیگریشن والوں کی بہت منت سماجت کر کے ایک بارہ تیرہ سال کی بچی کو پاکستان کےلیے جہاز پر چڑھایا ۔ اور وہ منتیں ایسے کر رہا تھا کہ جیسے یہاں سے اس بچی کو نکالنا اس کی زندگی کےلیے انتہائی ضروری ہو ۔ اس بچی کی کیفیت بھی ایسی تھی کہ جیسے خوف سے اس کا دل پھٹا جا رہا ہوں ۔ کپڑے بھی اس نے بہت ہی معمولی سے پہنے ہوئے تھے ۔ اسلام آباد امیگریشن پر پہنچنے پر بھی امیگریشن والوں کی کسی بات کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں تھا ۔ سامان کے نام پر صرف ایک چھوٹا سا بیگ جو اس نے ہاتھ میں پکڑا تھا ۔ اس واقعہ نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں ان کے متعلق جانو آخر ان کے ساتھ ہوا کیا تھا ۔ پھر مجھے کچھ قریبی لوگوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایغور لڑکیاں صرف پاسپورٹ حاصل کرنے کےلیے ہی غیر ملکی سے شادی کر لیتی ہیں کہ کسی بھی طرح وہ یہاں سے نکل سکیں گی ۔ جبکہ باقی چائنیز کے ساتھ ایسی کوئی پابندی نہیں ۔ جب بھی ہمارے گھر کوئی ایغور خاتون آتی دروازے پر کوئی نہ کوئی مشکوک عورت کسی چھوٹے بچے کے ساتھ یا کوئی لڑکا جنہیں کبھی میں نے کالونی میں نہیں دیکھا ہوتا آ کر دستک دیتے اور کسی کا نام لے کر پوچھتے اور کہتے کہ میں سمجھا یہ اس فلاں کا گھر ہے اور دروازے سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ۔ میں عجیب کیفیت میں مبتلا ہو جاتا کہ انہیں خوف خود سے ہے ، مجھ سے ہے یا اس سے جو صرف کچھ وقت کےلیے ہمارے پاس آ گیا ۔ اور آنے والے مہمان نے کبھی بھی کوئی سیاسی یا مذہبی گفتگو نہیں کی بس کچھ ہنسی مذاق کچھ بچوں کے بارے کچھ باتیں ، کچھ باتیں گھر کے بارے اور کھانا کھا کر چلا گیا ۔ بہت تھوڑی تعداد جو ہر دنیا کے ہر خطے میں موجود ہوتی ہے جو برائی کا راستہ اختیار کرتے ہیں جیسے چوری چکاری وغیرہ میں نے اکثر ان ایغور لوگوں کو محنت مزدوری ہی کرتے دیکھا ہے اور کچھ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سٹوڈنٹس کو بھی دیکھا ہے ۔ ظاہر ہے جو سولہ سترہ سال حکومتی سکولوں میں پڑھا ہے اس سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ پھر کبھی کسی نے مجھے سے سیاسی یا مذہبی حوالے سے گفتگو نہیں کی ۔ کئی اچھے کاروبار بھی کر رہے تھے اکثر کے اپنے ریسٹورنٹ بھی تھے اور کئی ایک نان سیخ کباب بیچتے تھے ۔ بری عادات والے تو باقی چائینز بھی میں نے بہت دیکھے ، گینگسٹرز ، جیب کترے ، چور ہر طرح کے پھر یہ لیبل ان ایغور مسلمانوں ہی کےلیے کیوں خاص ہو گیا ۔ دوہزار سترہ 2017 میں میرے دوست نے تین دن اورمچی ( Urumchi ) شہر میں قیام کیا تو بتایا کہ حالت ایسی تھی جیسے ابھی ابھی جاپان کے حملے کا خطرہ ہے سڑکیں سنسان ہر ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ ، ہر طرف کیمرے لگے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظریں ایسی کہ جیسے کہہ رہے ہوں ادھر کیوں آ گئے ۔ وہ بتاتے ہیں پہلے جہاں ہر طرف رونق لگی ہوتی تھی کہیں کوئی سیخ کباب بیچ رہا ہے کہیں کچلے اب تو پورے شہر میں صرف ایک ہی چیز نظر آئی اور وہ تھی ویرانی ۔ سٹرکیں ویران ، مساجد ویران ، مارکیٹیں ویران ۔ اللہ خیر کرے یہ کیا ہوگیا ۔ یہ کون سی بلا آ گئی جو ساری رونقیں ہڑپ کر گئی ، بہار اپنے ساتھ لے گئی اور خزاں اس شہر دے گئی ۔

ایوو ہی میں ہماری جان پہچان ایک ایغور خاتون عائشہ سے ہوئی ( حکومتی نام اللہ ہی جانتا ہے ) عمر کوئی اٹھائیس انتیس سال ہوگی ۔ ان کی شادی ایک یمنی مسلمان سے ہوئی جسے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ شاید واپس یمن گئے اور پھر چائنا نہیں آئے ۔ عائشہ نے ایک سکاف سلائی کا چھوٹا سا یونٹ لگا رکھا تھا ۔ شاید ان کے وہ یمنی خاوند ہی سکاف سعودی عرب لے جا کر بیچتے تھے ۔ خاوند سے علیحدگی یا رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے وہ سکاف کا یونٹ بھی عائشہ کو ختم کرنا پڑا اور ایک الگ چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر اور گوشہ نشین ہو گئیں ۔ ایک دن میں اور میری بیوی ان کے پاس چلے گئے تو عجیب مایوسی کی حالت میں تھیں ۔ ان کا خواب شاید یہ تھا کہ وہ خاوند کے ساتھ یمن چلی جائیں گی لیکن شاید قدرت کو یہ بات منظور نہیں تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر یہاں کرنے کو کچھ نہیں تو واپس اپنے گھر کاشغر چلی جائیں کم ازکم وہاں گھر والے تو ہوں گے یہاں آپ اکیلی ہیں اور آپ نے کیا حالت بنا رکھی ہے ۔ انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ میں جواب دیا یہاں کم ازکم زندہ تو ہوں وہاں تو اس کی بھی شاید کوئی ضمانت نہیں ۔ پھر میں نے ایک غیر ملکی مسلمان سے شادی کی اس کی پوچھ گچھ بھی ہونی ہے ، اس تفتیش کو کون برداشت کرے ۔ میں نے کہا پھر کیسے گزرے گی ۔ جواب دیا جو وقت بھی گزر جائے وہی اچھا ہے ۔

میں نے انہیں حوصلہ دینے کےلیے کچھ باتیں کیں لیکن مجھے اپنی باتیں ہی کھوکھلی محسوس ہوئی کہ ان کی حالت تو وہ تھی کہ شاید ان کےلیے زندگی سے زیادہ موت آسان اور پرکشش ہو ۔
میری بیوی ایک دفعہ کسی کام کے سلسلے میں ارومچی گئی ۔ جاتے ہوئے اپنے صوبے گانسو کے شہر لانزو سے بذریعہ بس اورمچی کا سفر کیا ۔ واپسی پر مجھے ایک دن میری بیوی نے بتایا کہ سنکیانگ صوبے میں داخل ہونے کے بعد جگہ جگہ چیک پوسٹوں بنی ہوئی ہیں جو مسافروں میں سے ایغور اور باقی مسلمانوں کو سختی سے چیک کرتے ہیں ۔ ایک خاتون جنہوں نے سکاف پہننا ہوا تھا بس سے نیچے اترتے ہی سیکورٹی والے نے انتہائی نفرت سے وہ سکاف کھینچ کر اتارا اور ایک طرف پھینک دیا ۔ اس مسلمان خاتون کے چہرے پر بے بسی کی انتہاء تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ میرے اس سکاف سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن شاید خطرے سے زیادہ یہ نفرت کی انتہاء تھی کہ آپ اپنے سوا کسی دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں اور آپ اپنے زیر دست کو کوئی بنیادی انسانی آزادی دینے کو بھی تیار نہیں جو دنیا کے ہر انسان کو خدا نے دے رکھی ہے ۔

اور بہت سے سوال تھے جو بیان کیے نہیں جا سکتے لیکن کچھ تو معلوم ہو ، ادھورا ہی سہی کہ آخر ہوا کیا ۔ کیمونسٹ حکومت کے قیام کے وقت تو مخالفت کرنے والے آخر نیشلسٹ حکومت کا ساتھ دینے والے چائنیز بھی تھے جو لڑے بھی مرے بھی اور مارتے بھی رہے ۔ پھر یہ سلوک آخر انہی سے کیوں صرف انہیں کیوں حساس گنا جاتا ہے ۔ صرف یہ لوگ کیوں آج تک الگ تھلگ ہیں ۔ ساتھ دینے والوں نے تو جاپان کا ساتھ بھی دیا پھر اگر کسی نے رشیاء کی سمت منہ کر لیا تو کیا قیامت آ گئی ۔ یاخدا یہ ماضی مٹا دے تاکہ تیرے یہ عاجز کم ازکم حال میں زندگی کی بھیک نہ مانگ رہے ہوں ۔ بعد میں ہمارے پاکستان کے علماء کے بہت بڑے وفد کو حکومت چائنا اپنے خرچے پر سی پیک پروجیکٹ کے حوالے سے چائنا لے کر گئی اور سنکیانگ کی مساجد میں لے کر گئے ۔ پھر اس مذہبی وفد نے بتایا کہ ہر طرف سکون و اطمینان ہے اور لوگ مطمئن ہیں ۔ پھر کبھی کوئی بات کرنے کہنے والا سامنے نہ آیا شاید سب کو بہت اطمینان دلا دیا گیا ۔

ان کی اس بات سے مجھے اپنی سکول کی ٹیچر مس تاج یاد آ گئی کہ جب کسی افسر کا سکول کا وزٹ ہوتا تھا تین دن پہلے ہم سے خوب صفائیاں کرائی جاتیں ۔ یہ بھی شاید وہی حالت تھی ۔

یہود کو جرمنی میں جب نازی مظالم کا سامنا کرنا پڑا تو ان مظالم کو بیان کرنے کےلیے جب لفظ ” نسل کشی ” کفایت نہ کرتا تھا ، تو انہوں نے اس کےلیے ایک لفظ تخلیق کیا ” ہولو کاسٹ ” ۔ اس لفظ کو بیان کرتے ہی وہ تمام مظالم اور مظلوموں کی بےبسی تصور میں سامنے آجاتی ہے ۔ یہاں سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ اس ظلم کو بیان کرنے کےلیے لفظ ” ظلم ” ” نسل کشی ” بہت ہی ناکافی ہیں اور لغت کے پاس اس حالت کو بیان کرنے کےلیے لفظ بھی نہیں ۔ یہاں تو ان عمارتوں سے بھی ضد ہے جو کسی نے اپنے خالق کے سامنے جھکنے کےلیے اینٹ پتھر سے بنائی ہیں ۔ اس زبان سے بھی نفرت ہے جو انسان اپنا مدعا بیان کرنے کےلیے فطرتاً تخلیق کرتا ہے ، اس لباس سے بھی نفرت ہے جو انسان خود کو فطرتاً ڈھانپنے اور نمایاں کرنے کےلیے اپناتا ہے ۔ شاید مستقبل میں اس ظلم کےلیے بھی ماہر لسانیات کوئی لفظ تخلیق کر لیں لیکن شاید اس وقت تک ظلم سہنے والا ہی باقی نہ رہے ۔ کبھی ظلم سہنے والے کےلیے موت دلفریب بن جاتی ہے اور وہ اس کی شدید خواہش کرتا ہے ۔ ویسے موت ہے بھی بڑی خوبصورت سی چیز ، اس کے حسن پر قدرت نے پردہ ڈال رکھا ہے ورنہ اس انتہاء کا ظلم سہنے والے انسانوں کو اگر اس کی اصل حقیقت کا اندازہ ہو جائے تو وہ زندگی کا حوصلہ کھو دیں ۔

بہت تلاش کے بعد مجھے دو ایسے نوجوان مل گئے جو تھے تو پاکستانی لیکن وہ کسی دور میں سنکیانگ سے ہجرت کرکے آئے تھے ۔ ان نوجوانوں کے بارے میں تفصیلات لکھنا مناسب نہیں ۔ اور یہ بھی مناسب نہیں کہ بتاؤں کہ ان سے ملاقات کہاں اور کیسے ہوئی بس جو تفصیلات ہیں وہی بتا سکتا ہوں کچھ ان سے معلوم ہوئیں اور کچھ کا ماخذ کچھ اور ہے ۔ اس سے پہلے ایک متصل علاقے کی پرانی داستان امام ابوبکر سنا چکے تھے ، وہ داستان کچھ پرانے وقت کی تھی اس لیے انہوں نے سنا دی یہ داستان نئی ہے اور ابھی تک جاری ہے اس لیے اسے سنانے کےلیے امام ابوبکر بھی کبھی تیار نہ ہوتے ۔ اور یہ بات مجھے بھی معلوم تھی اس لیے انہیں زحمت نہیں دی

1911 کا انقلاب جس نے چائنا کے اندر بادشاہت کا خاتمہ کر دیا ، چھن ( Qing ) حکومت کے سنکیانگ صوبے کے گورنر نے ارومچی شہر کو چھوڑ دیا ۔ صوبے میں موجود چھن ( Qing ) حکومت کی ( Beiyang army ) کے یونان ( Yunan ) صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک یونٹ نے جنرل یانگ (Yang Zengxin ) جن کا تعلق ہونان ( hunan ) صوبے سے تھا ، کی قیادت میں فوجیوں نے حالات کو قابو میں کر کے سنکیانگ صوبے کی حکومت سنبھال لی ۔ جنرل صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو جھن خاندان ( Qing dynasty ) کی بادشاہت کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔
اس وقت کے مرکزی حکومت کا کنٹرول جنرل یوآن شیکائی ( yuan Shikai ) کے پاس تھا ۔ انہوں نے جنرل یانگ ( Yang zengxin ) کی صوبائی حکومت کو تسلیم کر کے انہیں سنکیانگ کے گورنر کا عہدہ دے دیا ۔ گورنر کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جنرل یوآن شیکائی صاحب کے بادشاہت کے اعلان کی حمایت کی حالانکہ جنرل صاحب نے چھن ( Qing ) بادشاہت کو ختم کرکے ملک کا اقتدار سنبھالا تھا ۔ گورنر یانگ ( Yang zengxin ) نے اپنی فوج کے ان فوجی افسران کو راستے سے ہٹا دیا جو یونان ( Yunnan ) صوبے کے وار لاڈز (CAI E ) کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے ۔
مرکز میں جنرل یوآن شیکائی کی وفات کے بعد گورنز یانگ ( yang Zengxin ) نے مرکز میں قائم ہر حکومت کی حمایت کی اور خود نیوٹرل پالیسی اپنائی ، باقی علاقوں کے وار لارڈز کی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے ۔ کئی یونان ( Yunnan ) صوبے کے ہوئی ( Hui ) مسلمان گورنر صاحب کے ساتھ ان کی فوج کی یونٹ میں موجود تھے اور ان کی گورنری میں خدمات انجام دیتے رہے ۔

1928 میں نانجنگ ( Nanjing ) کی نیشلسٹ حکومت کو تسلیم کرنے کے چند دن بعد گورنر ‘ یانگ ” کو اپنی ہی فوج کے فنگ یو ناں ( Fan Yaonan ) نے قتل کر دیا ۔ اس کے بعد عہدہ جن شورین ( Jin Shuren ) نے سنبھال لیا جن کا تعلق کانسو ( Gansu ) صوبے کے ہان ( Han ) نسل کے چائنیز سے تھا ۔ جن شورین ( Jin shuren ) نے صوبے میں بدانتظامی کی انتہاء کر دی اور سنکیانگ کی مسلم اکثریت پر بہت سختیاں کیں ۔ 1931 میں صوبے کی مسلم اکثریت نے گورنر کے خلاف بغاوت کر دی ۔ کانسو کے ہوئی ( Hui ) وار لارڈز ( Ma Zhongying ) نے اس بغاوت کی حمایت میں حملہ کر دیا ۔ جلد ہی دوسرے گروہ بھی گورنر کے خلاف بغاوت میں شریک ہو گئے اور اکثر ایک دوسرے کے ساتھ ہی لڑتے رہے جن میں الگ ہونے والی پہلی مشرقی ترکستان جمہوریہ بھی شامل تھی ۔
گورنر جن ( Jin ) کو بغاوت کرنے والوں نے ہٹا کر ( Sheng Shica ) شینگ شیکائی کو گورنر بنا دیا جو پہلے دو گورنروں یانگ یا جن میں سے کسی کے نظریات سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔ شینگ شیکائی پہلے منچوریا کے وار لارڈ ( Fengtian clique ) کے ماتحت افسر تھے اور بعد میں منحرف ہو کر ( Guominjun ) گروہ میں میں چلے گئے جو منچوریا کے ( Fengtian clique ) سے ٹوٹ کر بنا جسے نارتھ ویسٹ نیشل آرمی ( kmc ) کا نام دیا گیا ۔ یعنی ہر گروہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا ۔ یہ وہی حالت تھی کہ جسے جہاں بہتر آفر ملی اس طرف ہو گیا آخر جنگ بھی ان کےلیے کاروبار تھا ۔

ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی لڑائی ختم نہ ہو سکی اور نانجنگ ( Nanjing ) حکومت مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ۔ نانجنگ حکومت سے مایوس ہو کر گورنر شینگ ( sheng shica ) نے 1934 میں سویت یونین کا رخ کیا ۔ سویت حمایت کے ساتھ گورنر شینگ نے مسلمان ما حسین ( Ma Hushan ) جن کا تعلق کانسو صوبے سے تھا کو شکست دی ، ما حسین ( Ma Hushan ) کے زیر قبضہ خودمختار جنوبی سنکیانگ کا علاقہ تھا جسے تنگستان (Tunganistan) کہا جاتا تھا ۔ گورنر شینگ نے اس کے بعد سنکیانگ صوبے کو سوویت یونین کے محافظ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیے محفوظ پناہ گاہ میں بدل دیا ۔

گورنر صاحب نے مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر 16 مئی 1935 کو سویت حکومت سے پانچ ملین گولڈ روبل کا پانچ سالہ قرض کا معائدہ کر لیا ۔ 1937 میں سویت یونین نے اپنی فوجیں سنکیانگ میں داخل کر دیں جس کے خلاف ہوئی ( Hui ) اور اریغور مسلمانوں نے مزاحمت شروع کر دی ۔ سویت یونین نے اپنی فوجیں نکالنا شروع کر دیں لیکن ایک رجمنٹ کومل ( kumul ) کے علاقے میں جاپان کی فوج کے خلاف برقرار رکھی جس کے منگولیا سے سنکیانگ پر حملے کا خطرہ تھا ۔

اس فوج کے قیام کے بدلے میں سنکیانگ کے تیل اور ٹن کی کانوں کا قبضہ سویت یونین کو دیا گیا ۔ 26 نومبر 1940 کو گورنر شینگ شیکائی نے سوویت یونین کو سنکیانگ صوبے میں پچاس سال کے لیے اضافی رعایتیں دینے کا معاہدہ کیا ، جس میں ہندوستان اور تبت سے متصل علاقے بھی شامل ہیں ۔ گورنر صاحب نے سنکیانگ کو عملی طور پر سوویت یونین کے مکمل سیاسی اور اقتصادی کنٹرول میں کر دیا ، صرف برائے نام چین کا حصہ بنا دیا ۔

1941 میں جب نازی جرمنی نے سویت یونین کو شکست دی تو گورنر شینگ نے نانجنگ ( Nanjing ) کی نیشلسٹ حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور سویت یونین کے ایڈوائزر اور کیمونسٹوں کو سنکیانگ سے نکال دیا ۔ نانجنگ حکومت کے چن کائی شیک ( Chiang Kai chik ) گورنر شینگ پر اعتبار کرنے کےلیے تیار نہیں تھے اس لیے گورنر شینگ نے دوبارہ سویت یونین کے جوزف سٹالن سے بات چیت کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ نانجنگ حکومت نے انہیں معزول کر دیا اور سنکیانگ کو اپنے مرکز کے زیر انتظام لے کر نئی انتظامیہ تشکیل دی ۔ ان اقدامات نے ایک نئی بغاوت کو جنم دیا ۔ اس بغاوت کے بطن سے دوسری مشرقی ترکستان سٹیٹ وجود میں آئی ۔

یہ دوسری مشرقی ترکستان حکومت ( ETR ) 12 نومبر 1944 سے 22 دسمبر 1949 تک شمال مغربی سنکیانگ میں سوویت یونین کی زیر نگرانی قائم کردہ ایک مختصر مدت کی حکومت تھی ۔ اس کا آغاز تین اضلاع آئی لی ( illi ) تربغتائی ( Tarbaghatai ) اور التائی (Altai ) میں بغاوت سے ہوا ۔
تھا ۔ اس بغاوت کے لیڈر احمد قاسم جان نے سویت یونین سے تعلیم حاصل کی تھی اور کیمونسٹ خیالات رکھنے والے ترقی پسند اور ” سٹالن کا آدمی ‘ کہلاتے تھے ۔ قاسم جان نے اپنی کنیت ” کاسیموف ” رکھی تھی اور سویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کے رکن تھے ۔

سویت یونین کے سنکیانگ سے نکلنے کے بعد اور جمہوریہ چین ( Republic of China ) کی نیشلسٹ حکومت کی فوج کے یونٹ اور کانسو صوبے کے مسلمان جنرل ما بوفانگ ( Ma bufang ) سے تعلق رکھنے والے فوجی یونٹ صوبے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے سنکیانگ میں چلے گئے ۔ جنرل ما بوفنگ ( Ma bufang ) نے نیشنلسٹ حکومت ( KMT ) کو چنگھائی ( Qinghai ) اور سنکیانگ ( xinjiang ) کو جوڑنے والی سڑکیں بنانے میں مدد کی ، جس سے مرکزی حکومت کو سنکیانگ کو اپنے زیر اثر لانے میں مدد ملی ۔ بعد میں جنرل صاحب کیمونسٹ فوج کے چائنا پر کنٹرول کے بعد تائیوان چلے گئے اور وہیں 1977 میں وفات پائی اور تائپے ( Taipei ) شہر میں مدفون ہیں ۔

1946 کے دوران مشرقی ترکستان کی حکومت ( ETR ) نے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ، سنکیانگ کی صوبائی مخلوط حکومت میں حصہ لیا ۔ اگست 1947 میں ، ای ٹی آر ( ETR ) کے حکام نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی آزادی پر دوبارہ زور دیا ، اور یہ مطالبہ کیا کہ سارے سنکیانگ کو چینی حکمرانی سے آزاد کرایا جانا چاہیے ۔ اس وقت سنکیانگ کا باقی حصہ نیشلسٹ ( Kuomintang ) حکومت کے کنٹرول میں تھے ۔

چینی خانہ جنگی کے اختتام پر ، ستمبر 1949 میں جب چیرمین ماؤ کی فوجوں نے لانزو ( Lanzhou ,) پر قبضہ کر لیا تو سنکیانگ میں موجود نیشنلسٹ حکومت ( KMT ) کی فوج اور سنکیانگ کی صوبائی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (CPC) کی حمایت کا اعلان کر دیا (جیسے سیف الدین عزیزی) ۔ اس نیشنلسٹ فوج کو چینی پیپلز لبریشن آرمی کی پانچویں فوج میں تبدیل کر دیا گیا ، پھر 1950 کی دہائی میں اسے سنکیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کور کے ایک حصے میں تبدیل کر دیا گیا ۔ اس وقت نیشلسٹ فوج ( KMT ) کے کچھ فوجی جن کی حمایت نیشنل گورنمنٹ کے ساتھ تھی پاکستان ، انڈیا اور افغانستان کی طرف چلے گئے لیکن زیادہ تر نے کیمونسٹ فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔

جیرمین ماؤ نے ان تین اضلاع ( (Ili, Tarbaghatai and Altai ) کے لیڈروں کو جنہوں نے ایسٹ ترکستان اسٹیٹ تشکیل دی تھی کو مذاکرات کےلیے بیجنگ بلایا تو وہ رشیاء جہاز میں روانہ ہوئے ۔ رشیاء نے بعد میں اطلاع دی کہ وہ جہاز پرواز کے دوران ہی بیکال جھیل میں گر کر تباہ ہو گیا اور کوئی ژندہ نہیں بچا ۔ پھر ان کی ناقابل شناخت لاشیں کچھ ماہ بعد اس وقت حوالے کی گئیں جب کیمونسٹ فوجوں نے پوری طرح سنکیانگ کا کنٹرول سنبھال لیا اور ان تین اضلاع کے پیچھے بچ جانے والے لیڈر سیف الدین نے چیرمین ماؤ کے ساتھ رشیاء جا کر رشیاء چائنا دوستی معاہدے پر دستخط کیے ۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک سویت آفیسر نے بتایا کہ ان تین اضلاع کے لیڈروں کو چیرمین ماؤ اور سٹالین کے درمیان معائدے کے تحت گرفتار کرکے قتل کیا گیا ۔ یہ کوئی جہاز کا حادثہ نہیں تھا ۔

باقی سب کی بغاوتیں اور غداریاں بھلا کر زندگی آگے کی طرف سفر کر رہی ہے ۔ لیکن یہ درد کی کہانی آج بھی جاری ہے ۔ شکایت کرنے والے اب اپنے رب سے ہی راز و نیاز میں شکایت کرتے ہیں کہ تیرا نام لے کر ہم نے کون سا جرم کیا ہے جو تو نے ہم سے زندگی تو زندگی چھینی ، موت سے بھی ہمیں محروم کر دیا ۔
یہاں تک پہنچ کر ان دونوں نے اپنی کہانی روک دی کہ اس سے آگے کی بات ان کےلیے بتانا اور میرے لیے لکھنا کسی کو اپنی طرف زبردستی متوجہ کرنا ہوتا ۔

یہ تو غیروں کا سلوک تھا ، اپنوں نے اپنوں کے ساتھ جو کچھ کیا اسے بیان ایسے ہی کیا جا سکتا ہے کہ نازی کیمپوں کو سنبھالنے کےلیے جرمن افسروں نے ان ہی یہودی قیدیوں میں سے کچھ کو چن کر ” کاپو ” کا انتظامی عہدہ دے دیا ۔ یہ کاپو اپنے ہی ہم مذہب اور اپنے جیسے قیدیوں سے کیمپ کے اصول و ضوابط کی پابندی کرواتے تھے ۔ ان کاپو کو خاص طرح کا اقتدار حاصل ہو گیا تھا جسے برقرار رکھنے کےلیے اپنے ہی ہم مذہب اور اپنے ہی جیسے قیدیوں پر وہ ظلم ڈھاتے جس کا تصور شاید جرمن بھی نہ کر سکتے ۔ اپنوں پر اتنی سختی کی وجہ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں یہ حاصل شدہ اقتدار کسی نرمی سے چھن ہی نہ جائے ۔ یہی کچھ شاید یہاں بھی ہو رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان بھی کتنا بہانے باز اور اصولوں سے انحراف کرنے والا ہے ۔ جو اس پر جاپانیوں نے نانجنگ میں کیا وہ تو تاریخ میں انسانیت کے خلاف ظلم عظیم ہے ۔ لیکن جو وہ خود کسی پر کر رہا ہے وہ ری ایجوکیشن ہے اور نئے دور کے تقاضوں سے مدمقابل کو آشنا کرنا ہے چاہیے ایسی ری ایجوکیشن سے انکار پر مدمقابل کو مٹا ہی دیا جائے ۔ یہ انسان اصول بھی خود ہی بناتا ہے پھر اسے اپنے مفاد کےلیے بہانوں سے توڑتا بھی خود ہی ہے ۔ لیکن اسی تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ پھر ایسے جب اپنے بھی بازاروں میں مول لگوانے لے جائیں تو غیروں سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے ۔ پھر تو چہروں پر خوف اور موت زندگی سے زیادہ پیاری لگنے لگتی ہے ۔ پھر ہر لمحہ قیدی فرار کے راستے ہی ڈھونڈ رہا ہوتا ہے ۔ اور نگاہیں ہر قیمت پر صرف آزاد آسمان دیکھنے کو ترستی ہیں ۔ پھر قیدی یہ قیمت سب کچھ لٹا کر چکانے کو تیار ہو جاتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply