ویلنٹائنز ڈے! (نظم)

گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اک سڑک کنارے رکھی ہوئی بنچ پر
نجانے وہ کن خیالوں میں گم تھی بیٹھی
کہ ایک جھونکا ہوا کا آکر
گرا گیا اس کے اجلے دامن پر اک کلی
جو تھی ادھ کِھلی
پھر یہیں خیالوں کے سلسلے نے بھی سمت بدلی
جھکی وہ پلکیں
نگاہیں دامن پر آ رکیں
(اور کلی نے، مرجھانے کو جو تھی بس
بہت ہی نازک سی انگلیوں کا جو لمس پایا
تو کِھل اٹھی یوں
کہ جیسے اس کو حیاتِ ابدی عطا ہوئی ہو)
پھر اک لمحے کو تو اس کی سوچوں کے تانے بانے مزید الجھے
مگر کلی سے ہی آرہی اس محبتوں کی مہک سے اس کو
یہ یاد آیا
کہ آج تو ’چودہ فروری ‘ ہے!
(وفا کے وعدوں، محبتوں کے اظہار کا دن)
یہ سوچا اس نے
گزشتہ کچھ سالوں سے نجانےکیا سلسلہ ہے
کہ ہر برس کے اسی مہینے کے عین اس دن
انہیں لمحوں میں
ہوا کا ایسا ہی ایک جھونکا
گرا کے دامن پر اک کلی
وہ بس اک لمحے میں گزر ہی جاتا
اور اس لمحے میں
وہ اک کلی کے معاوضے میں
سکون، راحت، تمام خوشیاں، قرار دل کا
کچھ اس ادا سے ہے لے کے جاتا
کہ جیسے اگلے ہی پل میں
دگنا سکون، راحت قرار دے گا
وہ چند خوشیاں وہ لے چلا ہے
مرے لئے جاوداں کرے گا
میں ناداں!
اپنا تمام سرمایہ یوں لٹا کر
اس اک کلی کو متاع سمجھ کر سنبھال رکھتی ہوں اس بھروسے
ضرور آئے گا وہ پلٹ کر
سکون لے کر ، قرار لے کر
محبتیں بے شمار لے کر
جو چندخوشیاں وہ لے گیا تھا
انہیں کے جیسی ہزار لے کر
مگر!
کچھ ایسا ابھی تلک تو نہیں ہوا ہے
میں چند کلیوں کے بدلے اب تک
سکون ، راحت، قرار کتنا لٹا چکی ہوں
جو چند تھیں ، وہ بہت سی خوشیاں گنوا چکی ہوں
محبتوں کا ثمر جو اب تک نہیں ملا ہے
میں اس کی خاطر
کیوں اب کے پھر سے اسی مہینے کے عین اس دن
انہی لمحوں میں
سکون ، راحت، تمام خوشیاں
قرار دل کا
فریبِ الفت میں جو گنوا کر، جمع کیا ہے نئے سرے سے
نئے سرے سے لٹا رہی ہوں؟

گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اس سڑک کنارےرکھی ہوئی بنچ سے
اچانک جھٹک کے سر کو
بہت ہی نازک سی انگلیوں سے پریشاں زلفیں سنوار کر
اور جھکا کے پلکیں
لگا کے سینے سے کچھ کتابیں
کلی ہوا کے سپرد کر کے چلی گئی وہ
کہ جیسے اس سے یہ کہہ رہیں ہو

Advertisements
julia rana solicitors

’’دوام ایسی محبتوں کو بھلا کیا ہوگا
کہ جن کے اظہار کے لئے ہی بس ایک دن ہو!‘‘

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply