تتھاگت نظم(29)…زنخا بکھشو 2

زنخا بھکشو
دوسری اور آخری قسط
گزشتہ قسط کا آخری بند یہ تھا
…………………………………..
رو پڑا وہ
سسکیوں کے بیچ میں اتنا کہا پھر
پچھلے دو جنموں میں بھی میں اک نپُنسک ہی تھا ، سوامی ن پُ ن س ک۔ نپنسک۔ (زنخا)
میں تو اتنا جانتا ہوں۔
کیوں تھا؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے
جنس کی پہچان میری کچھ نہیں تھی
پچھلے دو جنموں سے پہلے کیا تھا میں؟
اک مرد ، یا عورت، یا زنخا؟
مجھ کو اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اب آگے پڑھیں

روتے روتے اس کی گگھّی بندھ گئی تو
بُدھّ نے شفقت سے اس کی سمت دیکھا
پھر کہا
’’مرد تھے تم … اس سے پہلے کے جنم میں!‘‘

’’’’پھر تتھاگت؟
کون سا ایسا گنہ سرزد ہوا تھا، جس کے کارن
تین جنموں سے مجھے یہ کشٹ سہنا پڑ رہا ہے
اور آگے آنے والے دو جنم بھی مجھ کو ایسے ہی ملیں گے
اور اس کے بعد ؟
کیا کوئی بے حد بھیانک تھی مری کرتوت، سوامی؟‘‘

بُدھّ کچھ لمحے تو آنکھیں بند کر کے اپنے اندر کھو گئے
’’جاننا اتنا ضروری ہے، تو سن لو
یہ تمہاری داستاں ہے
ایک سوداگر تھے تم اپنے جنم میں
جب سفر سے لوٹتے، کچھ دن ٹھہرتے
مال اپنا بیچتے
پھر اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر
اک بار پھر جاتے کہیں پردیس میں سوداگری کو
بیویاں کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہوں
ان کو اکیلا چھوڑ کر جانا سمجھداری نہیں ہے ۔۔۔‘‘

رک گئے دو چار لمحے
اور پھر دھیرے سے بولے
’’اُس نے بھی، یعنی تمہاری بیاہتا بیوی نے
اکلاپے کو اپنے دور کرنے کے لیے
تب دوستی کر لی تمہارے اپنے بھائی سے ہی، یعنی
اپنے دیور بھائی سے ہی …..‘‘

’’پھر ، تتھاگت؟‘‘

’’تم نے جب آ کر انہیں
پکڑا تو وہ سمبھوگ کی حالت میں تھے سمبھوگ: (اختلاط)
… تب کرودھ کی حالت میں ان کو مار ڈالا کرودھ: (غیض و غضب)
اس پہ بھی غصہ تمہارا اس قدر تیکھا تھا ، تم جب
ان کی ہتیا کر چکے تو دونوں کے ہی ہتیا : (قتل)
گُپت انگ خنجر سے اپنے کاٹ ڈالے گُپت انگ: (پوشیدہ عضو)
جنس کی پہچان جیسے اک برابر ہو گئی دونوں کی … ‘‘

رُک گئے کچھ دیر کو جب بُدھّ
تو آنند پہلی بار بولا۔’’جنس کی پہچان کھونا ..
کیا یہی اس کی سزا ہے؟‘‘

’’ہاں، یہی کارن ہے، بھکشو!‘‘
جنس کی پہچان تک
گم کر دی ہے اس نے اپنے پچھلے تین جنموں سے…
یہ خود بھی جانتا ہے
اگلے دو جنموں میں بھی ایسا رہے گا!ُ‘‘

’’اور اس کے بعد پھر؟‘‘
آنند نے بے چین ہو کر ایسے پوچھا
جیسے اپنی ہی سزا ہو

Advertisements
julia rana solicitors

بُدھّ اب گویا ہوئے زنخا سے
’’اُٹھو! بھکشوؤں کا بانا پہنو
آشرم میں کرو پرویش…. پرویش : (داخل ہونا)
سواگت ہے تمہارا
یہ جنم اپنا سنوارو … یہ جنم سُدھرا اگر تو
اِس سے اگلے دو جنم بھی ایسے ہی سُدھریں گے ….
اس کے بعد کے جنموں میں
اپنی جنس کی کھوئی ہوئی پہچان پھر سے پا سکو گے
استری یا پُرش کی کایا ملے گی!‘‘ کایا : (جسم)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply