محی الدین نواب کا ناول ’’ہند سے یونان تک‘‘ تلخیص و تجزیہ /یحییٰ تاثیر(1)

محی الدین نواب کا لکھا ہوا ناول ’’ہند سے یونان تک‘‘ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے تاریخی حقائق پیش کرنے کی پھرپور کوشش کی ہے۔ ناول میں بنیادی طور پر سکندر اعظم کا خاندانی پس منظر، زندگی، تعلیم و ترتیب اور فتوحات وغیرہ کو پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے اسے ایک مربوط پلاٹ کے ساتھ انتہائی آسان زبان میں لکھا گیا ہے۔ قاری پڑھتا ہوا کہیں بھی کوئی رکارٹ یا اکتا ہٹ محسوس نہیں کرتا کیوں محی الدین نواب نے خشک تاریخی واقعات میں وہ افسانویت بھر دی ہے جس سے تجسس جنم لیتا ہے۔

ناول کے آغاز میں اُس تاریخ پر تھوڑی روشنی ڈالی گئی ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے راجاؤں مہاراجاؤں کے ادوار پر مشتمل تھی۔ ابتدا انھو ں نے مگدھ سلطنت سے کی ہے جو بنارس اور گیا کے علاقوں میں قائم تھی جس میں شیش ناگ خاندان کے ایک راجہ بمب سار کا نام اہم ہے۔ یہ انتہائی عادل، انصاف پسند، معاملہ فہم راجا تھا جس نے آس پاس کے راجاؤں کے ساتھ انتہائی خوش گوار معاملے طے کیے اور امن قائم رکھنے کی پھرپور کوشش کی۔ امن ہی کے واسطے اپنے خاندان کی بہنوں بیٹیوں کی شادیاں دوسروں کے ساتھ ہنسی خوشی کیں اسی طرح دوسرے خاندانوں سے بھی رشتے طلب کیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے عہد میں کوئی جنگ نہ ہوئی۔ بمب سار نے کئی شادیاں کی تھیں لیکن وشالی خاندان کی ایک راجکماری سے اس کا بیٹا اجات شترو پیدا ہوا تھا۔ جو بمب سار کے بعد تخت پر باپ کی ایما پر بیٹھا۔ اجات شترو اپنے باپ سے مکمل متضاد ذہنیت کا ملک تھا۔ آس پاس کے راجاؤں کے ساتھ اس کے تعلقات بالکل بھی ٹھیک نہیں تھے۔ اس کے علاوہ وہ جنسی بحران کی وجہ سے جنسیت اور شراب نوشی کی طرف مائل تھا۔ باپ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا تھا اس لیےوہ اپنے باپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اجات شترو کا راز دار اس کا ماموں تھا جو اس کےلیے بوتل اور کباب و شباب کا انتظام کرتا تھا۔ جب بمب سار کو پتا چلا تو انھوں نے اپنے سالے کو دھکے دے دے کر محل سے نکال دیا۔

بالآخر باپ ‘ بیٹے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس کےلیے چاند سی بہو محل  میں لے آیا۔ بہو بھی خوب ڈھیٹ نکلی ۔ وہ مہارانی بننے کے خواب دیکھنے لگی اور اپنے شوہر اجات شترو کے کان شادی کی پہلی رات ہی سے بھرنے لگی۔ آخر بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہو کا تیار کردہ زہر ہی بمب سار کی موت کا باعث بنا جو وہ خوراک میں ملاتی تھی جس کی وجہ سے بمب سار کی  بھوک بڑھتی گئی ا  ور وہ بھوکا پیاسا مر گیا۔ اسی طرح شکار کے دوران تخت کا دوسرا وارث یعنی اجات شترو کا بھائی بھی کسی نامعلوم طرف سے تیر لگنے سے مارا گیا۔ اجات شترو نے کافی مظالم ڈھائے اور کئی امن پسند راجاؤں کو قتل کیا لیکن آخر میں اس میں کچھ تبدیلیا آئیں اور خود کوپاپی محسوس کرکے مہاتما بدھ کے سامنے دو زانوں ہوا ،اور اس سے قلبی تسکین پانے کی بھیک مانگنے لگا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کے راجا یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ آخری راجا کا نام راجا مہا نندن تھا جس کے خون خوار بیٹے مہا پدم نند نے شیش ناگ خاندان کا نام تبدیل کرکے اپنے نام پر نند خاندان رکھ دیا۔

مہا نندن ایک نیچ ذات لڑکی چمیلی پر عاشق ہوا تھا۔ محل میں اسے لایا تھا لیکن دوسری رانیاں اس کے ساتھ محل میں رہنا نہیں چاہتی تھیں۔ مہا نندن چمیلی کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا کیوں کہ وہ بلا کی خوب صورت تھی۔ چمیلی نے ایک بیٹے مہا پدم نند کو جنم دیا۔ چمیلی اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے کےلیے مہا نندن کے سامنے بضد  تھی لیکن یہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ محل میں اصل رانیاں بھی موجود تھیں۔ آخرکار چمیلی نے اپنے شوہر کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اعلیٰ ترتیب پاکر سینا پتی بنے گا اور فوج کو سنبھالے گا۔ لیکن ماں مہا پدم نند کو سمجھاتی رہتی تھی کہ اصل مقام تخت و تاج ہی ہے۔ اس لیے جب وہ بڑا ہوا تو انھوں نے بغاوت کرکے اپنے باپ کو نظر بند کرکے اپنے سوتیلے بھائیوں کو قتل کیا اور محل سے تمام سوتیلی رانی ماؤں کو باہر نکال دیا۔ وہ سب معزز خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے اپنے میکے چلی گئیں جہاں پر غم و غصے کا ماحول پیدا ہوا اور سب مہا پدم نند کے خلاف متحد ہوگئے۔ لیکن انھوں نے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کی تھی اور بغاوت پر پانی پھیر دیا۔ یہ صدمہ اس کا باپ بھی برداشت نہ کرسکا اور سلاخوں کے پیچھے دم توڑ دیا۔ یوں شیش ناگ خاندان کا خاتمہ ہوا اور نند خاندان کے جھنڈے لہرانے لگے۔ صورت حال کی اس تبدیلی میں جو مکارانہ قوت موجود ہے اس کا بیان محی الدین نواب ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ یہ کیسے ہوتا ہے؟ حکومتیں کیسی بدل جاتی ہیں؟ کیا محض دو بادشاہوں کے لڑنے سے تاریخی واقعات بدل جاتے ہیں؟ اور ایک کے بعد دوسرے بادشاہ کا دور شروع ہوجاتا ہے؟جنگ لڑنے اور بادشاہوں کے بدلنے کے پس پردہ اور کون سی قوتیں کارفرما رہتی ہیں؟
اس کا جواب ہے قوت النساء۔۔۔۔ عورتوں کی قوت۔۔۔ بیگمات اور شہزادیاں، درباری رقاصائیں اور کنیزیں اپنے حسن و شباب سے اپنی ساحرانہ اداؤں سے ایسی چالیں چلتی ہیں کہ حکمرانوں کی بازیاں پلٹ جاتی ہیں۔‘‘(۱)

محی الدین نواب کے بیان کی تائید میں دلیل یہ دی جاسکتی کہ مذکورہ صورت حال میں اجات شترو کو بھڑکانے والی اس کی بیوی ہی تھی جس کی چنگاری سے وہ اتنے جوش میں آگئے کہ اپنے باپ تک کو بھی نہیں چھوڑا۔ اسی طرح ایک ماں نے اپنے بیٹے مہا پدم نند کو اتنا ہوس دیا کہ پورا کا پورا خاندان ہی ملیا میٹ کردیا۔
محی الدین نواب کے مطابق اس کے بعد چندر گپت موریا کا دور شروع ہوجاتا ہے لیکن چوں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سکندراعظم دنیا کو تسخیر کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس لیے ناول نگار کہانی سکندراعظم کی طرف پلٹ دیتا ہے اور بالخصوص ان واقعات کو سامنے لاتا ہے جو سکندر کے متعلق پس پردہ رہے ہیں۔ سب سے پہلے وہ سکندر کی ماں کی شخصیت کو بیان کرتا ہے جس کا نام المپیاس تھا۔ یہ عجیب قسم کی عورت تھی جو دیوتا زیوس کی معشوق پجارن تھی۔ پالتو سانپ پالنا اور ان سے کھیلنا اس کا مرغوب مشغلہ دیا۔ جب یہ شاہِ مقدونیہ فیلقوس کی بیوی بنی تھی تو اپنے ساتھ بہت سانپ بھی محل لے کر رانی بننے کی غرض سے داخل ہوئی تھی۔ یہ بلا کی خوب صورت تھی اور خوب صورتی بھی ایسی ساحرانہ کہ محل میں اگر موجود تمام رانیاں ستارے ہیں تو بہ قول مصنف یہ ان کی درمیان چاند کی طرح تھی۔محل میں اپنا سکہ منوانا ان کو اچھا لگتا تھا۔ یہ چاہتی تھی کہ محل میں اگر کوئی حکم صادر ہوتا ہے تو پہلے راجا مجھ سے پوچھا کرے۔ یہ شاہ فیلقوس کی کسی بھی بیگم سے راہ و رسم نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس فیلقوس کی دوسری بیوی آرسی نوئی جو کہ نسلاً طوائف تھی وہ اولمپیاس کے آنے سے خوش نہیں تھی ۔ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ فیلقوس اسی کو ہی تاج پہنائے گا۔
اس کے بعد یہ خبر محل میں گردش کرنے لگتی ہے کہ آرسی نوئی کے پاؤں بھاری ہوگئے ہیں۔اس سے آرسی نوئی کے دل میں یہ امید جنم لیتی ہے کہ میں تو رانی نہ بن سکوں گی لیکن میرا بیٹا ولی عہد ضرور بنے گا۔ لیکن فیلقوس اسے کہتا ہے کہ اگر یہ بیٹا ہوا تو تجھے خوب پتا ہے کہ ولی عہد شاہی خاندان کی کسی خاتون کا بیٹا ہوتا ہے۔ اس خبر سے آرسی نوئی نڈھال پڑ جاتی ہے۔ اولمپیاس اس خبر سے نرغے میں چلی جاتی ہے کہ کہیں آرسی نوئی اس کی چہیتی نہ بن جائے۔ المپیاس چوں کہ خود کو منوانا چاہتی ہے اس لیے وہ پیشن گوئی کرنے کےلیے چپکے چپکے دیوتا زیوس کے مندر کے ایک کاہن کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ جو اسے کہتا ہے کہ بیٹا ہوگا ۔ المپیاس فیلقوس کو مبارک باد دیتی ہے کہ مبارک ہو دیوتا زیوس نے مجھے بتا دیا ہے کہ اگلے دو برس میں فیلقوس کی جو بھی بیوی حاملہ ہوگی اس کا بیٹا ہوگا۔ نو ماہ بعد آرسی نوئی کے ہاں بیٹے نے جنم لیا جس کے دو ماہ بعد اولمپیاس کے ہاں بھی بیٹے کی آمد ہوئی۔ شاہ فیلقوس یکے بعد دیگرے دو بیٹوں کا باپ بن جاتا ہے۔ آرسی کے بیٹے کانام بطلیموس اور المپیاس کے بیٹے کا  نام سکندر رکھا گیا۔ اولمپیاس اپنے بیٹے کو امتیاز کے ساتھ رکھنا چاہتی تھی کہ یہ کسی طوائف کے بیٹے کےساتھ نہیں گھومے گا۔ لیکن فیلقوس نے وعدہ کیا تھا کہ دونوں کی ترتیب شاہی وقار کے مطابق ایک جیسی ہوگی۔ جب دونوں بھائی شمشیر زنی کی مشق کرتے تو بطلیموس اس میں ماہر نظر آتا اور خوب پینترے بدلتا رہتا جب کہ سکندر کے دو شوق تھے، ایک کتب بینی اور دوسرا گھڑ سواری۔ اولمپیاس اس سے بہت پریشان تھی وہ چاہتی تھی کہ میرا بیٹا کتابوں کی دنیا اور گھڑ سواری کے شوق سے باہر نکلے اور فنِ سپاہ گری میں مہارت حاصل کرے۔ اس لیے وہ اسے بھڑکاتی رہتی کہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا، تجھے آگے ولی عہد بننا ہے اور کسی بھی بادشاہ نے ہاتھ میں کتاب لے کر حکومت نہیں کی۔ حکومت طاقت اور تلواروں سے کی جاتی ہے۔ ان باتوں نے سکندر پر اتنا اثر کیا کہ ایک مرتبہ وہ بطلیموس کو گویا مار ہی دیتا اگر نگران سپاہی وقت پر نہ پہنچتا۔جب سکندر شمشیر زنی کی مشق میں بطلیموس سے ہارتا تو المپیاس کے خون میں ابال آجاتا جب کہ سکندر گھڑ سواری میں بطلیموس کو شکست سے دوچار کرتا۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ دونوں بھائیوں کے دل میں ایک دوسرے کےلیے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس کی جڑ ان دونوں کی مائیں ہی ہیں۔ البتہ سکندر کا رویہ دل ہی دل میں اپنے بھائی کےلیے مثبت ہوتا ہے۔ جب بطلیموس کو سانپ ڈس لیتا ہےتو اس کا علاج صرف المپیاس کے پاس ہوتا ہے ۔ سکندر کو پتا ہوتا ہے کہ میری ماں میرے سوتیلے بھائی کا علاج نہیں کرے گی اور وہ مرجائے گا۔ اس لیے یہ ترکیب بناتا ہے کہ میری ماں سے کہو کہ سکندر کو سانپ نے ڈس لیا اور وہ بطلیموس کے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ لیتا ہے۔ المپیاس اپنے بیٹے کے متعلق یہ سن کر دوڑی چلی آتی ہے اور چہرے کو بِنا دیکھے علاج شروع کرتی ہے۔ اس طرح سکندر اپنے بھائی کی زندگی بچا لیتا ہے۔ جب المپیاس کو پتا چل جاتا ہے تو وہ خوب آگ بگولہ ہوجاتی ہے۔

شاہ فیلقوس اپنے دونوں بیٹوں کے تعلیم کےلیے ارسطو کو مقدونیہ بلاتا ہے اور ان کےلیے ایک پرانے مندر کو ازسرنو مرمت کرا تا ہے۔ محل سے دونوں بھائی مندر منتقل ہوجاتے ہیں اور ارسطو کی شاگردی اختیار کرتے ہیں۔ ارسطو چوں کہ مشہور زمانہ فلسفی افلاطون کا شاگرد ہوتا ہے اس لیے ہر جگہ اس کا چرچا ہوتا ہے۔ ارسطو دونوں بھائیوں کی تعلیم و تربیت یکساں طریقے سے شروع کرتا ہے۔ ارسطو اگرچہ افلاطون کا شاگرد تھا لیکن بعض تصورات میں اپنے استاد سے اختلاف بھی رکھتا تھا۔ افلاطون تصوراتی اور یوٹیوپیائی چیزوں پر یقین رکھتا تھا جس کا ثبوت اس کا نظریہ اعیان ہے لیکن اس کے بجائے ارسطو عقلی اور تجرباتی ذہنیت کا مالک تھا۔ اس کا پتا ناول سے چلتا ہے کہ جب المپیاس ارسطو سے ملاقات کرتی ہے اور وہاں پر پریوں کے مجسّمے دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ کتنے خوب صورت مجسمے ہیں۔ اس پر ارسطو کا جواب ہوتا ہے ، ’’ ان کی خوبصورتی سنگ تراش کے ہاتھوں کے مرہونِ منت ہے۔ وہ چاہتا تو انھیں بے ڈھنگی اور بد صورت بھی بنا سکتا تھا۔‘‘(۲)اولمپیاس اسے کہتی ہے کہ پریاں بدصورت نہیں ہوتیں۔ ارسطو جواب دیتا ہے کہ کیا تو نے پریاں دیکھی ہیں جس چیز کا سرے سے وجود ہی نہ ہو وہ کیسے دکھائی دے سکتی ہے۔ المپیاس چونک جاتی ہے کہ میں نے زندگی میں پہلا شخص دیکھا ہے جو پریوں کی موجودگی سے انکار کررہا ہے۔ لیکن ارسطو تو وہ فلسفی ہے جو ’’کیسے ہیں‘‘ سے زیادہ ’’کیا ہے‘‘ کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ ناول میں ارسطو اپنا تصور واضح کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ مصنف ہو، مصور ہو یا سخت اور بھدے پتھروں کو خوب صورت مورتیوں میں ڈھالنے والا کوئی سنگ تراش ہو، یہ سب ہی تخلیق کار خیالوں کی دنیا میں گم رہتے ہیں اور طرح طرح کے خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔‘‘(۳)
اس کے بعد ارسطو المپیاس کے سامنے یہ بھی کہہ دیتا کہ اگرچہ میں دیوتاؤں کے اختیار و اقتدار کو مانتا ہوں لیکن انکار اس بات کا ہے کہ دنیا کے کسی بندے نے انھیں آج تک مجسم نہیں دیکھا ہے۔ المپیاس خوب پڑھائی کرکے محل میں ارسطو کو زیر کرانے آئی تھی لیکن ارسطو نے ہر بات کے ایسے عجیب اور عقلی دلائی پیش کیے کہ وہ مایوس ہوکر شاہ فیلقوس کو شکایت کرنے لگی کہ یہ استاد مجھے پسند نہیں آیا۔ لیکن فیلقوس کو پتا تھا کہ اس کی بیوی ایک نرگسی عورت ہے جو خود سے کسی کو برتر نہیں سمجھتی۔
اس کے بعد آرسی نوئی بھی ارسطو سے ملنے مندر جاتی ہے۔ وہاں پر بطلیموس غلط فہمی کا شکار ہوکر اپنی ماں سے کہتا ہے کہ ارسطو سکندر کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے۔اس پر آرسی نوئی بھڑک اٹھتی ہے اور ارسطو سے کہتی ہے کہ ارگرچہ دونوں بھائیوں کی مائیں الگ الگ ہیں لیکن باپ ایک ہے اس لیے تعلیم میں کیوں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ ارسطو اسے قائل کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ مندر کی چار دیواری کے اندر میرے صرف یہی دو شاگرد ہیں جن میں کوئی ادنیٰ ، اعلیٰ نہیں ہے۔میں دونوں کو ایک ساتھ یکساں تعلیم دیتا ہوں باقی کچھ حاصل کرنا نہ کرنا ان دونوں کی توجہ اور قابلیت پر منحصر ہے۔ لیکن آرسی نوئی کو بھی ارسطو پسند نہیں آتا۔

دونوں بھائی ایک دو ہفتے بعد مندر سے محل کا چکر بھی لگاتے اور محل میں ان کی مائیں دونوں کا خوب استقبال کرتیں۔ اسی طرح ایک مرتبہ آتے ہوئے سکندر کو جنگل میں سنبوری نام کی لڑکی مل جاتی ہے۔ یہ ایک کسان کی بیٹی ہوتی ہے جوکہ انتہائی خوب صورت ہوتی ہے۔ سکندر اس پر عاشق ہوجاتا ہے۔ لیکن بطلیموس جو لڑکیوں کا رسیا ہوتا ہے ، بہ باطن سنبوری کے متعلق اچھا نہیں سوچتا۔

دوسری طرف المپیاس نے بھی محل میں سکندر کےلیے کنیز کا بندوبست کیا ہوتا تاکہ لڑکا باہر کی کسی لڑکی کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ لیکن سکندر کا مزاج ایسا نہیں ہوتا وہ ہوس پرستی اور ناجائز تعلق کو برا سمجھتا ہے اس لیے کنیز کو وہ توجہ نہیں دیتا بس اپنے مطالعے میں غرق رہتا ہے۔ آخر کار بطلیموس کی معشوقہ بیدیاس المپیاس کو بتا دیتی ہے کہ تیرا بیٹا باہر عاشق بنا پھرتا ہے۔ اس پر وہ غصہ ہوجاتی ہے اور سنبوری کو زبردستی محل میں پیش کرنے کا حکم صادر کرتی ہے۔ اسے محل پہچایا جاتا ہے ۔ اولمپیاس اس بات کی تصدق کرانا چاہتی ہے کہ سکندر نے کہیں اس کے بدن کو چھوا نہ ہو۔ جب تصدیق ہوجاتی ہے تو اسے بازارِ حسن بھیج دینے کا فیصلہ کرتی ہے اور سزا کے طور پر یہ حکم دیتی ہے کہ اسے ہر روز نئے گاہک کے حوالے کیا جائے۔

دوسری طرف سکندر اپنے خواب گاہ میں آرام سے سنبوری کے خیالوں میں مگن پڑا رہتا ہے اور اس صورت حال کا اسے کوئی علم نہیں ہوتا۔ جب بطلیموس کو پتا چل جاتا ہے تو وہ اپنی ماں سے مشورہ کرکے سنبوری کو بازار حسن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اغوا کرتا ہے اور اپنی دور دراز زمینوں میں کسی پرانی عمارت پر اسے لے جاتا ہے۔وہاں اس کے سامنے یہ شرط رکھ دیتا کہ اگر سکندر سے ملاقات کرنا ہے تو پہلے میرے قریب آنا پڑے گا ورنہ موت کےلیے تیار ہوجا۔ سنبوری موت کو قبول کرنا چاہتی ہے لیکن موت سے پہلے سکندر سے ملاقات کےلیے تڑپ رہی ہوتی ہے۔ بطلیموس اپنے ہوس کے کتے کی بھوک مٹا دیتا ہے لیکن اپنے دھن کا پکا ہوتا ہے۔ سنبوری کو دھمکے دیتا ہے کہ بھائی کے سامنے اگرکچھ کہا تو موت تمہاری منتظر ہوگی۔ بطلیموس سکندر کو وہاں لاتا ہے ۔ دونوں کی ملاقات ہوتی ہے لیکن وہ پہلے ہی زہر کا پیالا نوش کیے ہوتی ہے اور سکندر کے آغوش میں سانس تھوک دیتے ہوئی کہتی کہ تیرے سوتیلے بھائی نے مجھے لوٹ لیا ہے۔

اس وقت سکندر کا خون ٹھاٹیں مار رہا تھا۔ وہ اپنے بھائی کو مارنے کےلیے اسے ہر جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔ فیلقوس بہت پریشان تھا کہ بھائیوں کے درمیان جب لڑائی شروع ہوجاتی ہے تو تخت کا تختہ بن جاتا ہے۔ اس نے بہ طور انصاف سکندر کو کہہ دیا تھا کہ میں ایک باپ ہوں ، ایسا نہیں کرسکتا کہ بطلیموس کو تیرے سامنے پیش کروں لیکن اتنا کہہ دیتا ہوں کہ اسے ڈھونڈ اور اپنا انتقام لے۔ اس سے پہلے کہ سکندر اپنے بھائی کو مارتا ،شاہ فیلقوس نے حکم کیا کہ سکندر کو خبر دو کہ ایک اہم مہم پر نکلنے کی تیاری کرے۔ دونوں باپ اور بیٹا ایک خاص مہم پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ راستے میں فیلقوس کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے اور وہ واپسی کا راستہ لیتا ہے۔ اسی دوران وہ سکندر کو پیلا کی تخت بھی سونپتا ہے۔ فیلقوس نے سکندر سے کہا کہ اینٹی پیٹر کو اپنا فوجی مشیر بنا لے۔ ارسطو اور اینٹی پیٹر ایسے بندے ہیں جن پر تو اندھا دھند اعتماد کرسکتا ہے۔ سکندر نے تخت سنبھالتے ہی کافی فتوحات کیں۔ اس کی ماں اولمپیاس بہت خوش تھی۔ جب سکندر فاتح بن کر واپس پہنچا تو اس زہریلی ناگن اولمپیاس نے اس سے کہا کہ تو فیلقوس کا نہیں بل کہ دیوتا زیوس کا بیٹا ہے۔ اس سے سکندر کو کافی صدمہ پہنچتا ہے حالاں کہ وہ اپنے استاد کی تعلیم پر قائم تھا ۔ اس نے بات کو بے معنی قرار دیا۔

جب یہ بات فیلقوس تک پہنچی تو اس کاخون کھولنے لگا۔ اس نے المپیاس کو دھکے دے دے کر محل سے باہر نکال دیا۔ اس وقت سکندر ایک اور مہم پر نکل چکا تھا جب آیا تو ماں نہیں تھی۔ سارا ماجرا سمجھ گیا اور فیلقوس سے کہا کہ کوئی بھی طاقت ہم باپ بیٹے کو الگ نہیں کرسکتی۔ شاہ فیلقوس اولمپیاس کو محل میں آنے کی اجازت نہیں دیتا البتہ سکندر سے کہہ دیتا کہ تو جب چاہے اپنی ماں سے مل سکتا ہے لیکن ملازم تمہارے ساتھ رہیں گے تاکہ وہ ناگن میرے خلاف کوئی زہر نہ اگلوائے۔ سکندر ماں کے پاس چلا جاتا ہے جو ایک قبرستان کے قریب پرانے مکان میں ابتر حالت میں رہ رہی ہوتی ہے۔ اس حالت میں بھی وہ سکندر کو باپ کے خلاف باتیں کرتی رہتی ہے لیکن سکندر ان باتیں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتا اور واپس پلٹ جاتا ہے۔

یونان میں موجود ریاستیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں جس کو موقع جان کر فیلقوس اس پر حملے کی تیاری کرتا ہے۔ اس لڑائی میں سکندر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ فیلقوس جنگی چالبازیوں میں ماہر ہوتا ہے اس لیے مختلف چالوں سے جنگ کا آغاز کرتا ہے۔ ایک خون خوار جنگ ہوجاتی ہے جس میں یونانی اور مقدونوی دونوں افواج کے سپاہی زیادہ مقدار میں کام آتے ہیں تاہم اس لڑائی میں سکندر کافی بہادری دکھاتا ہے اور مقدونوی فوج جیت جاتی ہے۔ اس فتح کا سہرا سکندر کے سر باندھ دیا جاتا ہے۔

فیلقوس کے لشکر میں اطالوس نامی ایک سپاہی ہوتا ہے جس نے انتہائی بے غیرتی کے ساتھ اپنی حسین بھتیجی قلوپطرہ کو فیلقوس کے حوالے کیا ہوتا ہے۔ فیلقوس بھی حسن پرست ومادہ پرست ہوتا ہے ۔ وہ اسے محل میں لانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنی بیوی بنانا چاہتا ہے۔ اس پر المپیاس اپنے بیٹے سکندر سے کہتی ہے کہ تیرا باپ تیرے خلاف کام کرنے لگا ہے۔ وہ قلوپطرہ کو محل میں لاکر ایک ولی عہد پیدا کرے گا۔ بھتیجی کو فیلقوس کے حوالے کرنے سے اطالوس ایک معمولی سپاہی سے بڑا عہدیدار بن گیا تھا۔ سکندر سے باتوں میں الجھ پڑتا لیکن سکندر کو جو منہ نہیں لگاتا تھا۔ اطالوس نے سکندر سے کہاں کہ جب میری بھتیجی ایک بیٹے کو جنم دے گی تو وہ ولی عہد بنے گا کیوں کہ تو فیلقوس کا نہیں دیوتا زیوس کا بیٹا ہے اس لیے تیرا ولی عہد بننا ممکن نہیں۔ اس سے سکندر کے خون میں ابال آگیا اور وہ اطالوس پر جھپٹ پڑا۔ چوں کہ اطالوس نے قلوپطرہ کو فیلقوس کے حوالے کیا تھا اس لیا فیلقوس بھی اطالوس کی طرف مائل ہوا تھا اس چیز نے بھی سکندر کو کافی پریشان کررکھا تھا۔

باپ بیٹے کے درمیان چپقلش بڑھنے لگتی ہے کہ سکندر محل چھوڑ کر گھوڑے پر بیٹھ کر ماں کی طرف آجاتا ہے۔ ماں سے کہتا ہے کہ میرے ساتھ چل ہم پیلا چھوڑ رہے ہیں۔ المپیاس اپنے بیٹے کے بدلتے تیور دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے۔ سکندر سے حالات دریافت کرنا چاہتی ہے لیکن سکندر کچھ نہیں کہہ پاتا بالاخر بیٹے کے ساتھ روانہ ہوجاتی ہے اور دونوں دور دراز کے ایک آبائی گھر میں ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔ المپیاس الجھن میں ہوتی ہیں اس لیے محل میں موجود اپنے مخبروں سے حالات معلوم کرتی ہے ۔ واقعات معلوم کرنے کے بعد اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ تیرا باپ بڑا مکار انسان ہے وہ تیری غیرموجودگی میں قلوپطرہ سے ولی عہد پیدا کرکے تجھے بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ، محل کو چھوڑ کر یوں فرار اختیار کرنا تجھے زیب نہیں دیتا۔ اگر تو محل نہیں گیا اور اس اطالوس کو نکال باہر نہیں کیا تو تیری اہمیت ختم ہوجائے گی۔ یہ سب فیلقوس کی چال بازی ہے۔ اسی اثنا فیلقوس کی طرف سے بیٹے کےلیے خط بھی آتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ محلوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ، باہر لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں کہ فیلقوس اپنے گھر کےاندر اتحاد برقرار نہیں رکھ سکتا تو وہ کل کو یونان کیا سنبھالے گا۔ بیٹے کے دل میں اگرچہ اولمپیاس کی باتوں کی وجہ سے باپ کےلیے میل پیدا ہوجاتا ہے لیکن وہ اپنی بقا کےلیے محل چلا جاتا ہے۔ سکندر کے دل میں یہ کسک لگی رہتی ہے کہ باپ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہا۔ فیلقوس کو پتا چل جاتا ہے اس لیے وہ بیٹے کے پاس آکر اسے قائل کردیتا ہے اور اطالوس کو بھی محل سے نکال دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکندر کی بہن کی شادی کے دوران رقص و موسیقی کی بھرپور محفل سجا دی جاتی ہے جس میں شراب ، شباب و کباب کی نشستیں چلتی ہیں۔ اطالوس بھی وہاں موجود ہوتا ہے جس کو فیلقوس نے یہ کہا ہوتا ہے کہ سکندر کے پہنچنے سے پہلے تم نے یہاں سے نکلنا ہے۔اچانک سکندر اپنی ماں کے ساتھ وہاں داخل ہوجاتا ہے۔ فیلقوس المپیاس کو محل میں دیکھ کر کافی شور مچاتا ہے۔ لیکن سکندر اسے کہتا کہ تم نے بھی وعدے کے خلاف ورزی کی اطالوس کو دوبارہ کیوں محل میں لایا گیا؟ تو نے جو کیا میں نے بھی وہی کیا۔ فیلقوس کو غصہ آجاتا ہے اور وہ اطالوس کو تھپڑ اور دھکے دے دے کر محل سے باہر نکال دیتا ہے۔ پھر سکندر سے کہہ دیتا ہے کہ میں نے جو کیا ہے اب تو بھی اپنی ماں کے ساتھ وہی کر۔ سکندر اپنی ماں کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا اس لیے شاہ فیلقوس سے معافی مانگ لیتا ہے ۔ سکندر اسے با عزت باہر نکالنے کی درخواست کرتا ہے جو قبول ہوجاتی ہے۔اس کے بعد فیلقوس کو جھٹکا سا لگ جاتا ہے اور پیچھے سے کوئی بندہ اسے خنجر سے مار دیتا ہے۔ ہے۔ فوت ہوتے وقت اپنے بیٹے سکندر کے کان میں کہہ دیتا ہے کہ تو میرا ولی عہد ہے لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا اس امر کو سن نہیں پاتا۔ فیلقوس کی فوتگی پر ناول نگار لکھتے ہیں:
’’ اس کی موت کے ساتھ ہی مقدونیہ کی اہمیت اور عظمت ڈھلتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ پوری سلطنت کو لگام دینے والا شہسوار گر پڑا تھا۔ وہی مقدونوی قبائل کا دل و دماغ تھا۔ وہ صرف فوج کو ہی نہیں رعایا کو بھی منتظم رکھتا تھا۔‘‘(۴)
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply