• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط5)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط5)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

وہ تو اب بھی خواب ہے، بیدار بینائی کا خواب
زندگی خواب میں اس کے گزار آیا تو کیا

” کتاب کو ہاتھ لگائے گی تو؟ تیرا باپ کما کر نہیں لاتا ،تو خواب دیکھتی ہے پڑھنے کے،میں کہاں سے کھلاؤں” ۔ ہمیشہ کی طرح تلخ اور زہریلے لہجہ میں بولتی اماں کی آواز کو ابا نے اندر آتے ہوئے سن لیا اور اماں کی طرف لپکے.
” کیا بکواس کر رہی ہو ہاں!,میرے بارے میں کیا بول رہی تھی اولاد کو مجھ سے بدگمان کرتی ہو. ” ۔اماں کو بالوں سے پکڑے گھوما کر مارتے ہوئے بس بولتے ہی جارہے تھے۔ضحی کانپتے ،لرزتے ہوئے چارپائی کے نیچے سے دیکھتی رہی اور ڈرتی رہی ۔ اب اس لڑائی کی بھڑاس اماں اور ابا مجھے ہی مار پیٹ کر نکالیں گے ۔صبح تک ضحی کو اس ڈر کی وجہ سے تیز بخار ہوگیا ۔
وہ اکثر سوچتی تھی برکتیں وہی ہوتی ہیں جہاں آپس میں اپنائیت ہو ۔
بے لگام خواہشات ہمیشہ گھر ،معاشرے کا سکون ہی برباد کرتے ہیں ۔ اور اسکی والدہ کی خواہشات اور والد کا جارحانہ مزاج جو والدہ کےتند مزاجی کا جواب تھا اس تلخ ماحول کی وجہ تھی ۔ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے ۔اگر وہ پُرسکون رہے گا تو دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے پائے گا ۔
“انشاءاللہ میں ضرور گھر کے معاشی مسائل اور دیگر بہن بھائیوں کے لیے قربانی دوں  گی ” ضحی نے خود کلامی کی ۔
اور وہ بچپن سے ہی چھوٹے موٹے کام کرنے لگ گئی ۔ سلائی کڑھائی میں دلچسپی، پڑھائی میں غور فکر اور خوش اخلاقی سے سب کے کام آنا ۔کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ اس تلخ اور گھٹن بھرے ماحول کا حصہ ہے ۔ اس کی طبیعت ہی سب سے نرالی تھی ۔
پڑھ لکھ کر اچھی جگہ پہنچنا اس کا خواب تھا ۔

کچھ جہد مسلسل سے تھکاوٹ نہیں لازم
انسان کو تھکا دیتا ہے سوچوں کا سفر بھی

حال۔۔۔۔
ضحی تھکے تھکے انداز میں گھر کی طرف بڑھ رہی تھی۔اگر انسان کے اندر سکون نہ ہو تو معمولی سی مشقت بھی تھکا دیتی ہے وہ تو پھر چلچلاتی دھوپ میں چکراتے سر کے ساتھ بمشکل گھر کا دروازہ تک ماضی کی سوچوں میں گم پہنچ پائی۔ جب وہ اپنے حساس دل اور احساس ذمہ داری کے ساتھ سڑکیں ناپ رہی تھی تو اسکے گھر والوں کے  دروازہ کھولنے میں بھی بے حسی تھی۔شاید سب قیلولہ کر رہے تھے اس نے زور زور سے دروازہ بجایا۔دھوپ میں پیاس سے برا حال تھا اوپر سے صبح کاکیا ہوا  ناشتہ ، اب انتڑیاں سکڑنا شروع ہو گئیں تھیں۔
ریشمانے دھاڑ کرکے دروازہ کھولا اور حسب توقع شروع ہوگئی ” کیامصیبت ہے خود تو مہارانی بن کے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھتی ہو ،میں سارا دن کی کالج سے تھکی آؤں اور دو منٹ سونے بھی نہیں دیتی ” اور وہ ایک جھٹکے سے اپنے ماضی سے نکل کر حال میں پہنچ گئی جہاں زہریلے کانٹے حسب معمول منتظر تھے اور اس نے اپنے امڈتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی ۔
ریشما تو زبانی جوہر دکھاکر پھر سے ائیر کولر کے سامنے جا کے سو گئی مگر ضحی منہ ہاتھ دھوتے ہوئے کھل کر روئی۔
اس نے ریشما کیلئے اپنے خوابوں کی کرچیاں کیں تھیں۔باپ کی خرچ میں لاپرواہی کے بعد اسکے حساس دل نے کھانستی ماں کی تکلیف کو گوارا نہیں کیا اور اپنے پڑھائی کے خوبواں کی کرچیوں پر چل کر جو انتھک سفر شروع کیا اس میں گھر کے حالات تو بہتر ہوئے,ریشما کی پڑھائی ،اماں کی دوائیواں کا خرچ نکل آیا مگر اسکی خود کی ذات بکھر گئی۔
سوچوں میں گم اپنے لیے کھانا گرم کرتے ہوئے دیگچی کو عریاں ہاتھ سے ہی پکڑ لیا تو ذہنی رو بھٹک کر ماضی میں چلی گئی۔جہاں اماں ہاتھ میں گرم ڈوئی پکڑے اسکی کلائی پر رکھ رہی تھیں، تو اماں نے چارپائی کو ہلا کر کہہ دیا اٹھ کر نہا لے کام بھی کرنا ہے اور ابا جی نے تو کبھی اولاد کی خبر ہی نہیں رکھی نہ ہی کبھی علاج معالجہ کی فکر کی۔بچوں کو پیار کرنا،احساس رکھنا اور خیال رکھنا ہی متوجہ کرتا ہے اور انکی شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔